تیسرے دن، دس بجے کے قریب وہ دونوں گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ گھر سے نکل آۓ۔ داؤود سیال اپنی بیگم کے پاس ہسپتال تھے۔ نمیر اور فرحت سے ملنے کے بعد دونوں نے ہسپتال کا رخ کیا۔ فرحت نے قدرے روکھے انداز میں ہی اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔ جبکہ نمیر سیال اپنے ساتھ لپٹاتے بڑی محبت سے دونوں کو گاڑی تک چھوڑنے آۓ۔
“اگر تم مان جاتے تو میں خود تم دونوں کو ائیرپورٹ تک چھوڑنے جاتا۔” نمیر سیال سکینہ کو ساتھ لپٹاۓ، ڈگی میں سامان رکھتے عارب سے گویا ہوۓ۔
“کوئی بات نہیں ابا، تھانے کا چکر لگانا پڑے گا۔ ایس ایچ او کہہ رہا تھا کہ معیز کی گاڑی لاہور کے کسی پیٹرول پمپ پر دیکھی گئی ہے۔” ڈگی بند کرکے وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا انکے قریب آیا۔ پھر رکا اور سکینہ سے بولا۔
“ادھر لاؤ!” اسنے خاموشی سے بیگ دے دیا۔
“میں کروالوں گا اسکا پتا، تم بس یہ پریشانیاں چھوڑو اور اپنی بیوی کو لے کر یہاں سے چلے جاؤ۔” سکینہ کے سر پر پیار کرتے ہوۓ وہ اس سے الگ ہوۓ۔ عارب نے ایک اچٹتی نظر اس پر ڈالی۔
“جی!۔” اسنے اثبات میں سرہلایا، پھر دوبارہ وہی سوال دہرایا۔ ۔
“ ابھی بھی وقت ہے ابا، اگر آپ ضد نہ کرتے تو میں رک جاتا۔ ایسے حالات میں آپ لوگوں کو اکیلا چھوڑ کر جانا ، بعد میں کوئی مشکل نہ آجاۓ۔” اپنی کہی بات تیسری چوتھی دفعہ دہراتے اسنے نمیر سیال کو دیکھا۔ جو سر جھٹک کر ہنس دئیے۔
“ایک بیٹا تین دنوں سے غائب ہے، بیٹی پرسوں رات کی کسی کے ساتھ بھاگ چکی ہے۔ بھابی ہسپتال میں داخل ہے۔ تم نے لاکھوں کی ٹکٹس کروائی ہوئی ہیں، اب کیسے تمہیں روکوں؟” وہ اذیت سے کہہ رہے تھے۔
“تایا ہم واقعی نہیں جاتے۔ پیسے ہی ہیں نا، بعد میں کروا لیں گے ٹکٹس۔ابھی آپ لوگ زیادہ اہم ہیں ہمارے لیے۔” اسنے ہمارے کہہ کر ایک سرسری نظر سے اپنی ساتھ کھڑے عارب کو دیکھا۔ نمیر سیال مسکراتے رہے۔
“سکینہ ٹھیک کہہ رہی ابا، نہ معیز ہے، نہ ہی دانیہ۔ ایسے میں میں بھی چلا جاؤںگا تو پیچھے آپ لوگ اکیلے رہ جائینگے۔” وہ تھوڑا آگے بڑھا اور انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولا۔
“جب تم ادھر نہیں تھے تب بھی تو سب اکیلے مینج کرتا تھا نا، معیز تو ہمیشہ سے میری زندگی سے عدم ہے۔نہ اسنے کبھی بیٹے کی حیثیت اپنانی چاہی نہ وہ اس مقام تک پہنچ سکا جہاں تم ہو، جہاں اس وقت تمہاری بیگم ہے۔” انہوں نے ایک نظر آنسو بہاتی سکینہ کو دیکھا۔
“تمہارا ادھر کاروبار ہے بچے، ادھر دیر سویر چل جاتی ہے۔ وہ کمینے وقت کی بڑی پابندی کرتے ہیں۔ کہیں ایسے نہ ہو میں تمہیں اپنے لیے یہاں رکھ لوں اور وہاں کوئی تم سے اچھا کاروبار تمہاری لین میں بنالے۔” نمیر سیال دلگیر لہجے میں کہتے کہتے آخر میں ہنس دئیے۔ عارب بھی ناچاہتے ہوۓ مسکرادیا۔ اور آگے بڑھ کر انکے سینے سے جالگا۔
“ادھر آؤ۔” وہ آنسو بہارہی تھی جب تایا نے محبت سے اپنی طرف بلایا۔ ایک پل کو وہ ہچکچائی، لیکن پھر خاموشی سے انکے حصار میں آگئی۔وہ ان دونوں کی پیشانیوں کو عقیدت سے چوم رہے تھے۔
“عارب ایک وعدہ کرو۔” انکی بات پر وہ چونکا، پھر اپنی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوۓ سینے سے ہٹا، جبکہ انکا بازو ابھی بھی اسکے گرد ہی حائل تھا۔
“یہ جو رورہی ہے صرف ادھر روۓ، وعدہ کرو اسے وہاں جاکر رلاؤ گے نہیں۔”وہ انکے سینے میں منہ چھپاۓ واقعی بچوں کی طرح رورہی تھی۔ عارب نے ایک پل کو اسے دیکھا پھر خاموشی سے سرہلادیا۔
“بس چپ کرو میری جان، ابھی ہسپتال بھی جانا ہے تم نے۔ایسے ہی روتی رہی تو ماں کے سامنے کیسے خود کو سنبھالو گی۔ وہ تو پہلے ہی مری جارہی ہے۔” اسکی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔ کیسے نہ روتی، افراتفری میں گھر والوں نے کس طرح اسکی قربانی دے ڈالی تھی۔ بڑھکیں بھی کہاں تک مار سکتی تھی۔ تھی تو لڑکی نا، رونا تو آنا تھا۔
پھر وہ اسے لیے ہسپتال پہنچ آیا۔ یہاں بھی ماں کو نالیوں میں جکڑے دیکھ کر اسنے بے اختیار لب کاٹے، بار بار پلکیں جھپکائیں کسی طریقے آنسو نہ آتے، مگر بہتے ہوۓ ریلے کو روکنے سے ہچکی نکلی۔عارب جو اس سے دو تین قدم پیچھے تھا، اسکے قریب آیا تو بے اختیار اسکا ہاتھ پکڑ کر رونے سے ٹوکا۔
“چچی کی طیبعت ٹھیک نہیں ہے، اس طرح رؤگی تو وہ اور پریشان ہوجائینگی۔” وہ بہت نرمی سے کہہ رہا تھا۔ سکینہ نے نروٹھے انداز میں ہاتھ کھینچا۔ جیسے اس سب کا زمہ دار صرف وہی تھا۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے اور زلیخہ سے ملے۔جو پہلے معیز کے چلے جانے سے بیمار پڑی تھیں، دانیہ کی حرکت نے انہیں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا۔ ابھی کچھ دیر قبل طبعیت تھوڑی سنبھلی تھی ، اسی لیے انہیں روم میں شفٹ کردیا گیا۔ کچھ پل چھوٹی چھوٹی باتوں میں گزرے، انہیں بولنے میں دقت ہورہی تھی اور یہی چیز سکینہ کو اذیت دے رہی تھی۔ وہ لب کاٹتی رہی، زبان سے کوئی لفظ نکل کے نہ دے رہا تھا۔ایسا قفل لگا تھا کہ اگر کھلتا تو محض آنسو نکلتے، آہیں نکلتی، چیخ و پکار ہوتی۔ ایک بہن کے غلط قدم نے کیسے اسے بے سرو ساماں کردیا تھا۔ ماں تھی تو وہ بھی جیسے آخری سانسیں لے رہی تھی۔ وہ کیسے نہ روتی، کیسے نہ بلکتی۔ کوئی اسے سمجھنے والا نہ تھا۔ جو سمجھتا تھا ، وہی اس دفعہ اسکا سب سے بڑا رقیب بن چکا تھا۔ گرم سیال کو آنکھوں میں ہی پیچھے دھکیلتی، چپ چاپ وہ پلکیں جھپکتی رہی۔
“عارب!”
“جی چچی!” ایک طرف سکینہ تھی دوسری طرف کرسی پر وہ بھی بیٹھا تھا۔
“ میری بیٹی کا۔۔۔۔ خیال رکھنا میری جان۔” عارب نے انکے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیا۔
“پریشان نہیں ہو چچی، میں کبھی بھی آپ کو شرمندہ نہیں کرونگا۔”انکے ہاتھ کو سہلاتے ہوۓ وہ بولا۔
“جانتی ہوں، عارب سیال اپنی بات کا پکا ہے۔” انہوں نے اٹکتے ہوۓ اسکے بچپن کی ہزار دفعہ کہی بات دہرائی۔ عارب خود اذیتی سے ہنس دیا۔ یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا کہ کون کسے اذیت دے گا اور کون اس اذیت کیلئے مسیحا بنے گا۔
ہسپتال سے نکلتے ہی وہ ائیرپورٹ پر پہنچے۔ اسلام آباد کا موسم آج بڑا خوبصورت تھا۔ آتی سردوں نے ہواؤں میں خنکی پیدا کردی تھی، وہ دونوں ائیرپورٹ پر پہنچے تو دوپہر کے تین بج چکے تھے۔ سکینہ اس وقت شادی سے پہلے عارب کی دلائی گئی ڈینم جینز، جو کہ آجکل زمانے کے مطابق جینز کم اور پلازو زیادہ لگتی تھی، اوپر ایک سفید وول کی ٹی شرٹ پہن کر عارب کا دلایا ہوا لانگ کوٹ پہنا ہوا تھا ۔ سر اچھے طریقے سے حجاب میں مقید تھا۔ جبکہ عارب خود ڈینم جینز کے ساتھ سفید ڈریس شرٹ پر براؤن لیدر جیکٹ پہنے ہوۓ تھا۔ نیچے بھاری بھرکم فوجی شوز تھے۔ کلائی پر ترسوں والی گھڑی تھی۔
“کچھ چاہیے؟ بھوک وغیرہ نہیں لگی تمہیں؟” وہ دونوں اس وقت ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھے تھے جب عارب نے موبائل سکرین سے نظریں ہٹاکر اسے دیکھا۔
“کچھ لاؤگے تو کھاؤنگی، یا خود جاکے لے آؤں۔ ایک تو یہ لوگ مجھے ایسے گھور کیوں رہے ہیں۔” اسکا انداز خاصہ روکھا اور جنھجھلایا ہوا تھا۔ نکاح کے وقت تو مہندی کا ہوش ہی نہ تھا مگر جیسے ہی انکی روانگی کا علم ہوا تو جو کزنز شادی پر آئی ہوئی تھیں ، دور کی ممانی نے ان میں سے ایک سے لگوادی۔
“چاہے زبردستی ہی سہی، ہو تو دو دن کی دلہن۔ اٹھو زری، اسے مہندی لگاؤ۔” اور پھر زری بیگم نے بھر بھر کر مہندی لگائی۔ مہندی کے نقش و نگار بڑے خوبصورت تھے، اتنے کہ وہ خود اگر صحیح حالات میں ہوتی تو واری صدقے جاتی۔ مگر آجکل حالات قدرے کٹھن تھے، عجیب، گھٹن والے۔ وہ چاہ کر بھی اپنے خول سے نکل نہ پارہی تھی۔
“عجوبہ تم خود بن کر آئی ہو، اتنے ماڈرن کپڑے پہننے تھے تو یہ چول نہ مارتی۔” عارب نے اسکے سرخ نیل ایکسٹینشز، اور مہندی پر چوٹ کی۔ وہ خود بھی قدرے تذبذب کا شکار تھا۔
“اب اتار تو نہیں نا سکتی۔” بے بسی سے بول کر اسنے ہاتھ کوٹ میں گھساۓ۔
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، وہ لوگ میری طرف بھی ویسے ہی دیکھ رہے ہیں۔ تمہاری مہندی سے میری موجودگی کو دیکھ کر انہیں خوبخود اپنے سوالوں کے جواب مل رہے ہیں۔” موبائل سکرین پر سکرولنگ کرتا وہ بولا۔ سکینہ نے چونک کر اردگرد دیکھا۔ لوگ بس اسے ہی نہیں بلکہ ان دونوں کو بڑے وثوق دیکھتے ہوۓ جارہے تھے۔ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم ایک آدھ دفعہ ٹھٹھکتے، رکتے، مسکراتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اتنی دیر میں فلائٹ کی اناؤنس منٹ ہونے لگی۔
عارب اسے لیے پلین کی طرف بڑھا ، اسکی گھبراہٹ کے پیشِ نظر اسنے ایک پل کو بھی اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ انکے اٹھتے قدم آہستہ آہستہ دور جانے لگے، ڈیپارچر کی راہداری سے گزرتے ہوۓ وہ دونوں نظروں سے اوجھل، ایک نئے سفر میں بندھ گئے۔
Shab-e-Gham Ki Sehar by Zainab Khan Episode 1 Classic Novel Saga Online Reading
Pages: 1 2