Uncategorized

Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 7


پچھلے ایک ہفتے سے وہ گھر پر تھا۔ ہڈیوں کو جنجھوڑنے والے نمونیے سے اٹھنے کے بعد کئی دن تک وہ سنبھل نہ سکا ۔ کمزوری اس قدر شدید تھی کہ پہلے دو دن اورنگزیب اسکے پاس رہا۔ سارا دن وہ رہتا اور شام کو سکینہ ہوتی۔ وہ ان دنوں میں اسکی تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہی تھی۔ تائی نے ککنگ سیکھائی تھی، اسی کا فائدہ ہوا کہ وہ نت نئے طریقوں سے پرہیزی کھانے بناتی۔۔تاکہ وہ ناک منہ چڑاۓ بغیر کھا لیتا، اور اسکے بیمار وجود میں قدرے حرارت بھی آجاتی۔ یہ اورنگزیب کی مہربانی ہی تھی کہ اسنے عارب کے ریسٹورینٹ کی ایک انڈین مینیجر پوجا کو اس سے ملوادیا تھا۔ عارب سے بات چیت کرکے اسنے سکینہ سے ملاقات کی اور اس پہلی ملاقات میں ہی اسے اپنے باس کی بیوی بڑی پیاری، دلیر اور معصوم لگی۔ جی ہاں اکثر لوگ اس سے پہلی ملاقات میں ہی سمجھ جاتے کہ وہ عام لڑکی نہیں تھی۔ مسئلوں کے چٹکیوں میں حل نکالنے والی، بہادر سی سکینہ سیال۔
پوجا کے ساتھ جاکر وہ کچن کا سارا سامان لے آئی تھی۔ انگریز بھی بڑے اوترے لوگ ہیں۔ ہر چیز میں نفاست، نظم و ضبط اور صفائی جھلکتی دکھائی دیتی تھی۔ یہاں تک کہ پالک کے پیکٹس کو دیکھ کر اسکا دل ہی نہ کیا کھولنے کا۔ اگر جو پاکستان کے سبزی والے پالک کی اس قدر خدمت دیکھ لیتے تو غش کھالیتے۔ اگر ان کے ہاتھ یہ پیکٹس لگتے تو اپنی ریڑھی کے سب سے اوپر ڈنڈا لگا کر پیکٹ کو چودھویں کے چاند کی طرح سجا دیتے، بیچتے نہیں۔
وہ کچن میں اس وقت کچھ کھانے کو بنارہی تھی کہ اچانک دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز پر چونکی۔ پھر کچن اور ہال کی سانجھی کھڑکی سے باہر جھانکا تو وہ ٹریک سوٹ پر چادر لپیٹے ، قدم قدم چلتا ٹی وی لاؤنج میں آیا تھا۔
“خیریت؟” اپنے ہاتھ صاف کرتی وہ اسکے پاس جاکھڑی ہوئی۔ دل میں یہ خوف تھا کہ وہ دوبارہ بیمار نہ ہوجاۓ۔ عارب ایک پل کو چونکا پھر بولا۔
“ہاں۔۔۔اندر لیٹے لیٹے تھک گیا تھا، سوچا باہر آجاؤں۔” ٹی وی کا ریموٹ پکڑتے ہوۓ وہ بولا۔
“طبعیت کیسی ہے اب؟” کہتے ہی اسنے عارب کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔
“بخار تو نہیں ہے، تائی کا فون آیا تھا۔” اسکے پاس والے صوفے پر وہ بیٹھ گئی۔ ایک ہاتھ میں کچن کی صافی تھی جو اس وقت اسنے اپنے گھٹنے پر رکھ دی۔
“بتایا تو نہیں؟” عارب نے ٹھہر کر پوچھا۔
“نہیں۔۔۔خوامخواہ پریشان ہوجاتے ، ویسے بھی اب تم ٹھیک ہو۔” سکینہ نے کہہ کر توجہ ٹی وی کی طرف مبذول کردی۔ جہاں وہ کوئی برٹش نیوز چینل لگاۓ ہوۓ تھا۔
“کچھ کھانے کو لاؤں؟” کچھ دیر بعد وہ بولی۔ عارب نے نفی میں سرہلایا اور سر پیچھے صوفے پر ٹکادیا۔ اتنے دنوں میں اگر بیماری نے سرچکرایا تھا تو دوسری طرف ان حالات نے بھی اسے ادھ موا کردیا تھا۔
“تمہیں ریسٹ کرنی چاہیے عارب!”
“میں ٹھیک ہوں ۔” عارب نے سر اٹھاتے ہوۓ اسے دیکھا تو آنکھیں لال ہورہی تھی۔ سکینہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
“کیا پریشانی ہے، تم مجھ سے بات کرسکتے ہو پلیز!” وہ دیکھ رہی تھی ، بیماری سے اٹھنے کے بعد بھی وہ عجیب سی کسلمندی کا شکار تھا۔
“ مجھے لگتا ہے ہمیں ایک دفعہ کھل کر بات کرلینی چاہیے۔” اسکا لہجہ شکست خوردہ تھا۔ سکینہ نے گہرا سانس لیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ ایسی کیا چیز تھی جس نے عارب سیال کو ڈسٹرب کرکے رکھ دیا تھا۔
“میں جانتا ہوں پچھلے کچھ دنوں سے تم میرے لیے کس طرح خوار ہورہی ہو، میری ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی کیسے خیال رکھتی رہی ہو، لیکن میں تمہارے خلوص کا شاید حقدار نہیں سکینہ، میں اس سب کے بدلے میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔ میں زبردستی تم سے رشتہ بحال کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں تو ہم دونوں ہی کبھی خوش نہیں رہ پائیں گے۔” وہ بڑے زخمی لہجے میں بات کررہا تھا۔ سکینہ خاموشی سے اسے سنے گئی۔
“تم نے اس دن کہا تھا نا کہ ایک دن جینی اپنے پورے وجود کے ساتھ میری زندگی میں آۓ گی، یہ بات سچ ہے۔ میں جینی سے موآن نہیں کرسکتا۔ میں اٹھارہ سال کا تھا جب سے اسے پسند کرتا ہوں، اسے چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے۔” وہ رکا اور ایک پل کو اسے دیکھا۔ سکینہ کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کی، لیکن وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ جہاں اگر کوئی جذبہ تھا بھی تو محض “سکون” کا تھا۔
“ایک نا ایک دن ہماری زندگی میں ایسا ضرور آۓ گا کہ ہمیں اپنے راستے الگ کرنے پڑیں گے۔” اسنے اپنے نزدیک ایک بم پھوڑا تھا۔ اور اسکے خیال میں اب سکینہ کو رونا تھا، زیادہ نہیں تو کم از کم اتنا تو ضرور کہ وہ اسے سنبھال لیتا، سمیٹ لیتا اور رشتے کی ایک نۓ لے شروع ہوجاتی، لیکن مخالف جو تاثرات تھے وہ ناقابلِ فہم تھے۔
“یعنی ایک نا ایک دن ہماری طلاق ہوجاۓ گی۔” یہ جملہ کہنے سے، یہ لفظ کہنے سے وہ کترارہا تھا۔ اور سکینہ سیال نے محض عام سے لہجے میں اس سے پوچھ لیا۔ عارب چند ثانیے گنگ سا اسے دیکھے گیا تھا۔ پھر کچھ شرمندہ سا ہوکر سر کو اثبات میں ہلایا۔
“اس سب کا اختتام بہت برا ہے عارب، لیکن یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ تم نے کہا کہ تم مجھے پسند نہیں کرتے، تمہاری زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے جس کی جگہ میں پوری زندگی نہیں لے سکوں گی۔ تو عارب! اگر میں نے کسی کی جگہ ہی لینی ہے تو بہتر یہی ہے کہ میں وہ جگہ ہی چھوڑ دوں۔ اگر بات انتخاب کی آۓ گی تو کبھی بھی میرا انتخاب مت کرنا۔کیونکہ جہاں مجھے لگے کہ میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں، اور چننے والوں کو مجھے چننے میں پریشانی ہورہی ہے تو میں پیچھے ہٹ جاتی ہوں۔”
“تو کیا کروں پھر؟” عارب نے سنجیدگی سے اسے کہا۔

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on