Uncategorized

Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 7


“موبائل کمرے میں ہے میں لاکر۔۔۔!”
“رکو، تم بیٹھو میں جاتی ہوں۔” وہ اسکے عجلت سے کہنے پر اٹھتے اٹھتے رکا تھا۔ سکینہ نے صافی لے جاکر کچن میں رکھی، ایک دفعہ سوپ کو دیکھا۔ ابھی کچھ وقت تھا۔ پھر وہ کمرے میں چلی گئی۔ اسکے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر اسکے پاس آکر بیٹھ گئی۔ عارب اسکا اشتیاق دیکھ کر ہنس دیا۔
“یار اسی کی مینجر لگو گی، اتنی ایکسائٹمنٹ کیوں دکھارہی ہو۔” اسنے یونہی اسکے اشتیاق سے ساتھ آکر بیٹھنے کو کہہ دیا۔ سکینہ نے ایک نظر اسے دیکھا پھر بولی۔
“کل کو خریدنا بھی توہے، اگر دیکھو گی نہیں، تو خریدنے کا جذبہ کہاں سے آۓ گا؟ اگر جذبہ نہ آیا تو پیسے کیسے کماؤنگی؟” وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
“میں اپنا ریسٹورینٹ نہیں دے رہا تمہیں۔” گیلری سے ریسٹورینٹ کی تصوریں نکالتے ہوۓ اسنے جیسے اسے باور کروایا۔
“نہ دینا، میں تو خریدوں گی۔” وہ بضد تھی۔ پھر عارب نے ریسٹورینٹ کی تصویریں اسکے سامنے کیں۔ وہ شوقین سی لڑکی ہر ہر تصویر کو زوم کرکر کے دیکھنے لگی۔
“اچھا اب تمہاری نظر میرے پیسے ، پراپرٹی پر آہی چکی ہے اور یہ طے ہے کہ ہم دونوں کو ایک ڈیڑھ سال تک اکٹھے رہنا ہے تو ۔۔”وہ مگن سی تصویروں کو دیکھ رہی تھی عارب کی بات پر چونکی۔ اسے دیکھا۔
“تو؟” ایک دفعہ سوالیہ اسے دیکھنے کے بعد اسنے توجہ سکرین پر دوبارہ کردی۔ عارب مسکراتے ہوۓ بولا۔
“مجھ سے دوستی بحال کروگی؟” یہ پرانی دوستی تھی جو افراتفری کے نکاح کی وجہ سے کہیں پیچھے رہ چکی تھی۔ سکینہ نے چونک کر اسے دیکھا پھر مسکراتے ہوے سرہلایا۔
“پکے والے دوست!” بائیں میں موبائل لے کر اسنے دایاں ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ عارب نے مسکراتے ہوۓ تھام لیا۔
“اب توڑو گی تو نہیں نا؟” وہ قدرے اسکی طرف جھکا۔
“کبھی بھی نہیں۔” وہ کھلکھلا کر بولی تھی۔ پھر دوبارہ سکرین پر توجہ دی۔ اور تصویریں دیکھنے لگی۔ عارب بھی گردن تھوڑی سی اسکی طرف جھکاۓ ایک ایک تصویر کے بارے میں اسے بتانے لگا۔ ابھی دس پندرہ منٹ گزرے تھے جب وہ ساری تصویریں دیکھ چکنے کے بعد کچن کی طرف چلی گئی۔ عارب ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ساتھ ساتھ اس سے کوئی بات کرلیتا، اور وہ کھلے ہوۓ گلاب کی طرح تروتازہ اسکے جواب دے دیتی۔ باتوں کا سلسلہ مزید جاری رہتا کہ باہر صدر دروازے کی بیل بجی۔ اس سے قبل کے سکینہ باہر جاکر دیکھتی وہ خود ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
“ہوسکتا ہے اورنگزیب ہو۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ تو باہر کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن سکینہ اسکے اونچے قد کو عجیب سے طمانیت بھرے احساس سے دیکھتی رہی تھی۔ کتنا مکمل احساس تھا نا، کہ “وہ تھا” وہ موجود تھا۔ ایک مرد کے گھر میں ہونے سے کس قدر تحفظ محسوس ہوتا اس وقت کوئی اس سے پوچھتا۔ وہ وہی صدر دروازے سے آنے والوں کے انتظار میں کھڑی تھی جب ایک نسوانی آواز نے چونکا دیا۔ چند قدم اٹھاۓ گئے اور پھر عارب بھی اندر آیا۔۔۔لیکن وہ اکیلا نہیں تھا۔
اسکے کندھے سے لگی ایک سنہرے بالوں والی گڑیا سی لڑکی بھی تھی۔ جس کے چہرے کا آدھا رخ دیکھ کر ہی سکینہ سیال کو اسکی حیثیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اس استحقاق سے، اس ٹھاٹھ سے عارب کے کندھے سے لگنے والی ایک ہی لڑکی ہوسکتی تھی۔ “جینیفر” عرف جینی۔۔۔جو چھٹیوں سے واپس آچکی تھی۔
عارب کے چہرے پر بھر پور مسکراہٹ تھی۔ اندر آکر اسنے مسکراتے ہوۓ سکینہ کو دیکھا۔ وہ بھی مسکرادی۔ پلکیں جھپک کر۔
“سکینہ میٹ مائی لو۔۔۔جینیفر بینیٹ۔۔۔” کیا شادابی تھی۔ وہ بیماری سے اٹھنے کے بعد، جینی کو دیکھ کر جیسے جی اٹھا تھا۔ اس قدر شیدائی تو وہ چھ سال بعد اپنی ماں کے ملنے سے نہ ہوا تھا۔ ایسی محبت، ایسا والہانہ انداز۔ اگر وہ لاڈ اٹھا رہا تھا تو جینی بھی جیسے کسی بچے کی طرح اٹھوا رہی تھی۔ عارب نے اسکے گرد بازو حائل کیا ہوا تھا جب وہ چلتی ہوئی اسکے سامنے آئی۔ اسکی فیروزی آنکھوں میں اس وقت ایک نرم سا تاثر تھا۔
“السلام علیکم!” سکینہ نے مسکراتے ہوۓہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔ جینی چند پل اسے دیکھتی رہی، پھر مسکراتے ہوۓ اسکا ہاتھ تھاما۔
“واعلیکم السلام!” ٹوٹا پھوٹا لہجہ تھا۔ لیکن بہرحال اسنے کوشش میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ سکینہ ایک پل کو چونکی، پھر اسی حیرت سے عارب کو دیکھا۔
“شادی کیلئے سیکھی تھی۔” گوکہ اسنے ہنستے ہوۓ کہا تھا۔ اور سکینہ بھی اسکی بات پر “اوہ” کرتے ہوۓ ہنس دی۔ لیکن اندر ایک چبھن سی لگاتار اسے اندر ہی اندر کانٹے چبھو رہی تھی۔ ایک عجیب سا احساس تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی۔ عارب جینی کو لیے اس صوفے کی طرف بڑھ گیا جہاں کچھ دیر قبل وہ خود بیٹھا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر اسکی طرف آیا۔
“کیا تم کافی وغیرہ بنادوگی؟” اس نے کچھ جھجک کر پوچھا تھا۔
“ہاں ضرور۔۔۔بلکہ کھانا بن چکا ہے۔ کھانا کھالیتے ہیں۔” وہ یوں بات کررہی تھی جیسے اندر کوئی توڑ پھوڑ نہ ہورہی تھی۔۔ایک عام نارمل انسان کی گفتگو تھی اور وہ دونوں اس پر بات کررہے تھے۔
“اوکے۔۔۔کیا میں مدد کروں؟” ایک لمحے کو رک کر اسنے پوچھا تھا۔
“نہیں۔۔۔”
“آر یو شیور؟”
“عارب تم پہلے ہی بیمار ہو، اور جاؤ اپنی جینی کے ساتھ ٹائیم سپینڈ کرو۔۔” اسے ٹوکتے ہوۓ وہ رکی، پھر قدرے شوخی سے بولی۔ ۔۔
“ویسے آپس کی بات ہے۔ بڑا بلش کررہے ہو کزن جی!”
“سچ میں؟” عارب کو حیرت ہوئی۔ ساتھ ہی چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ اسکی حرکت پر سکینہ ہنس دی تھی۔
“اچھا جاؤ اب۔ ۔۔۔میں کھانا لگا کر آواز دیتی ہوں۔ ” وہ کہہ کر مڑ گئی۔ اور عارب اسکی پشت کو مسکراتے ہوۓ دیکھ کر مڑ گیا۔ پھر وہ رکا، چہرے پر الجھن سی در آئی تھی۔ یا شاید یہ حیرت تھی۔ سکینہ نے محض ایک ریشمی دوپٹہ لیا ہو تھا اور جب وہ مڑی تھی تو۔۔۔کیا اسکے بال اتنے لمبے تھے۔ بھورے ، لمبے سیال بال۔۔۔جنکی چٹیا کمر سے نیچے تک جاتی تھی۔وہ خاموشی سے جاکر جینی کے ساتھ بیٹھ گیا ۔


جاری ہے

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on