Uncategorized

Shab E Gham Ki Seher by Zainab Khan Episode 8

سکینہ سیال اگر خود کو بہادر کہتی تھی تو اس میں کچھ غلط نہ تھا۔ اسے بروقت اپنے جذبات پر قابو لانا آتا تھا، بروقت چیزوں پر گیو اپ کرنا آتا تھا۔ بچپن سے پسندیدہ چیزوں سے دستبرداری کی عادت ایسی پختہ ہوچکی تھی کہ اب عارب  ہوتا یا کوئی اور۔۔۔بات اگر چھوڑنے   کی ہوتی تو وہ کرچکی تھی۔

کھانا پوری دلجمعی سے  ٹیبل پر لگایا۔ عارب کا سوپ نکال کر ایک باؤل میں ڈالا، اسی اسنا میں وہ بھی آگیا۔ سکینہ نے سوپ والا باؤل اسکی کرسی کے سامنے رکھا پھر بولی۔
“میں بس آنے ہی والی تھی تم لوگوں کو بلانے۔۔۔جینی کو بھی آواز دے دو۔”
عارب نے مسکراتے ہوۓ سرہلایا اور باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ہی وہ دونوں اکٹھے کچن سے ملحقہ ڈائینگ میں آتے دکھائی دئیے۔ سکینہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ چکی تھی۔ یہ کرسی عارب کے دائیں طرف تھی۔ بائیں طرف جینی کیلیے اسنے پلیٹ رکھی تھی۔ وہ دونوں آۓ تو سکینہ نے ایک نرم استقبالی مسکراہٹ جینی کی طرف اچھالی۔ سکینہ کچھ زیادہ ہی دریا دل انسان تھی۔ حالانکہ جینی کی طرف سے ایسی گرمجوشی نہ تھی۔ وہ مسکرارہی تھی، لیکن محض مسکرارہی ہی رہی تھی۔ اسکے لیے سکینہ جیسے وہاں موجود ہی نہ تھی۔ اگر نظر پڑتی تو تکلفاً مسکرادیتی۔۔۔وگرنہ سارا دھیان ساری توجہ عارب پر تھی۔ تینوں خاموشی سے بیٹھے کھانا کھانے لگے۔ عارب اپنا سوپ ختم کررہا تھا، جینی دیسی کھانے کو بچوں کی طرح کھا رہی تھی اور سکینہ۔۔۔وہ کبھی کبھی کھالیتی۔ پھر جینی سے کوئی بات کرلیتی، کوئی مزاحیہ بات۔ پھر عارب بھی ہنس دیتا ۔ وہ بھی ہنس دیتی۔ جینی ہنستی ضرور تھی۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ تری والا سالن اسکے سفید دھودھیا ہاتھوں سے چپک گیا تھا۔ دونوں ہاتھ تیل و تیل ہوچکے تھے۔ عارب نے ایک نظر اسے دیکھا پھر افسوس سے تین چار ٹشو پیپر نکال کر اسکے ہاتھ صاف کرنے لگا۔
“تم کھاتے ہوۓ بلکل بچی بن جاتی ہو جینی۔۔۔۔یہ دیکھو کیا حالت کردی ہے۔” ٹشو کی مدد سے اسکے ایک ہاتھ سے وہ تیل صاف کررہا تھا۔ یہی مظاہرہ دوسرے ہاتھ کیلئے بھی ہونا تھا۔
اب یہاں سکینہ کے دل بے چینی ہوئی تھی۔ اسنے بے اختیار سر نیچے جھکادیا اور بھر بھر کے چاول کے چمچ کھانے لگی۔ انداز ایسا تھا جیسے وہاں صرف سکینہ اکیلی تھی۔ وہ دونوں سرے سے موجود ہی نہ تھے۔ ٹشو سے ہاتھ صاف کرنا ممکن نہ تھا۔ عارب اسے لیے کچن سنک کی طرف بڑھ گیا۔ اچھی طرح سے ہاتھ دھلواۓ۔
“اتنا آئلی کھانا تم لوگ کیسے ہضم کرلیتے ہو۔۔۔آخ، عجیب۔۔۔مجھے الجھن ہورہی  ہے۔” واپس ڈائینگ ٹیبل پر آکر دونوں بیٹھ رہے تھے جب جینی نے کہا۔ سکینہ نے زرا کی زرا سر اٹھا کر اسے دیکھا، قدرے معذرت خوانا انداز میں مسکرائی پھر پلیٹ پر سرجھکادیا۔
“اچھا تو ہے۔۔۔بلکہ سکینہ تو میری امی کی شاگرد ہے۔ وہ برا کھانا بنا ہی نہیں سکتی۔” یہ مان نجانے اسنے کیوں دیا تھا اسے، حالانکہ سوپ میں نمک تیز تھا۔ کھانے میں واقعی تیل زیادہ ڈھل گیا تھا۔ لیکن وہ بغیر اف کیے کھارہا تھا اور یہی نہیں، اسکے حق میں بول بھی رہا تھا۔
“عارب تم لوگ  اتنا آئلی کیسے کھا لیتے ہو۔۔۔میرا نہیں خیال اسکے بعد میں اگلے ایک ہفتے تک کچھ کھا پی سکوںگی۔” وہ سادہ لوح لڑکی، ناک چڑا کر کہہ رہی تھی۔
“کیا تمہیں پسند نہیں آیا؟۔۔۔کچھ آرڈر کرلیتے ہیں۔” اسنے ساتھ ہی عارب کی طرف دیکھا۔
“نہیں۔۔۔۔اسکی ضرورت نہیں۔ مجھے بھوک تو بلکل نہیں تھی۔ میں تو بس عارب کو دیکھنے آئی تھی۔ ” کہہ کر اسنے دوبارہ سے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ جیسے ابھی تک کراہیت محسوس کررہی ہو۔ سکینہ بس مسکرا ہی سکی۔
“کیا کل تم جاؤگی میرے ساتھ؟” عارب نے ٹھہر کر اس سے پوچھا تھا۔ سکینہ ایک پل کو چونکی۔
“ہاں۔۔۔ضرور! میں گھر میں اکیلی بور ہوجاؤنگی۔۔۔”وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف متوجہ تھے جب ایک سنجیدہ آواز ابھری۔
“ ویسے تم لوگ ڈائیوورس کب تک فائنل کروگے؟” یہ جینی تھی۔ جسے عارب شاید ساری حقیقت بتا چکا تھا۔ یا مبہم الفاظ میں کوئی مختصر کہانی۔۔ اسکی بات پر کھانا کھاتی سکینہ نے رک کر اسے پھر عارب کو دیکھا۔ جو خود بھی حیرت سے جینی کو دیکھ رہا تھا۔ شاید حیرت کے باعث وہ جواب دینے میں تاخیر کرنے والا تھا۔
“ایک سال تک!” جواب سکینہ نے دیا تھا۔ بہت ہی آرام دہ انداز میں۔
“اوہ۔۔۔اتنی دیر ۔۔۔۔” اسے جیسے افسوس ہوا تھا۔ عارب نے ایک نظر خاموش کھانا کھاتی سکینہ پر ڈالی۔ جہاں ڈھونڈنے سے بھی کوئی تاثر نہیں ملتا تھا۔
“سکینہ کے سیٹل ہوتے ہی  فائنل ہوگا۔” اسنے سنجیدگی سے کہا۔ یہ بات تو طے تھی اگر انکی طلاق ہی ہونی تھی تو وہ اس سے قبل یہ قدم نہیں اٹھانا چاہتا تھا جب تک سکینہ واقعی معاشی طور پر مستحکم نہ ہوجاتی اور لندن کی سوسائٹی میں موو نہ کرپاتی۔
“اور اگر وہ سیٹل نہ ہو پائی تو؟”  جینی کو خطرہ تھا۔ بے اختیار اسکی زبان پر خدشہ در آیا تھا۔  سامنے بیٹھی لڑکی عام شکل و صورت کی ہوتی تو شاید وہ کوئی احتجاج نہ کرتی۔ لیکن سکینہ کا انداز، اسکا حسن اور اسکا رکھ رکھاؤ۔۔۔۔عارب کب تک اسے نظرانداز کرسکتا تھا۔
“میں آلریڈی سیٹلڈ ہوں۔۔۔اگر عارب چاہے تو ابھی مجھے طلاق دے سکتا ہے، نو پرابلم!” سکینہ کے رکھ رکھاؤ، ٹھہرے ہوۓ لہجے نے عارب کا پانی گلے میں اٹکا دیا۔ وہ بے اختیار کھانسنے لگا تھا۔ کھانسی کے اس دورے میں ہی اسنے تحیر سے اپنی دائیں طرف بیٹھی لڑکی کو دیکھا۔ اسکی آنکھوں میں ایک بے یقینی سی تھی۔
“عارب تم ٹھیک ہو؟” جینی نے کہا تھا۔ سکینہ اب ٹانگ پر ٹانگ جماۓ شانِ بے نیازی سے پانی پی رہی تھی۔
“ہاں۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔” اسنے سکینہ کو دیکھتے ہوۓ کافی سرد لہجے میں کہا تھا۔ جس کا چہرہ اس وقت بے تاثر تھا۔ وہ چاہ کر بھی کوئی احساس، کوئی جذبہ اخذ نہ کرپایا۔
“واپسی پر کیب کرواؤگی، یا میں چھوڑ دوں؟” سکینہ سے نظریں ہٹا کر اسنے جینی سے کہا تھا۔لیکن اسنے محسوس کیا تھا، سکینہ سے بات کرتے ہوۓ جینی کو نظرانداز کرنا آسان تھا۔ وہ جینی کے ساتھ سکینہ کو نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ شاید وہ کزن تھی، دوست تھی۔۔۔یا!
“اگر تم چھوڑدو تو آسانی رہے گی، کافی دن ہوگئے تمہارے ساتھ کوئی سفر نہیں کیا۔” انگریزنی اپنے خاص لب و لہجے سے عارب سے کہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ عارب نے ایک بجھی ہوئی مسکراہٹ اسکی جانب اچھالی۔ جبکہ سکینہ اسکے انداز پر آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھ رہی تھی۔ پھر سرجھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اسکا ارادہ کچن صاف کرنے کا تھا۔ گھر عارب کا نہیں اسکا تھا۔ اور وہ اس گھر کو عارب کا گھر سمجھتی بھی نہیں تھی۔ اسکے لیے عارب وہاں مہمان تھا۔ جو طلاق کے بعد یہاں سے کوچ کرنے والا تھا۔ پھر وہ محل جیسا ڈربہ اسکا ہوگا۔ کیا شان سے وہ یہاں وہاں گھومے گی۔ مزے ہی مزے ہونگے۔
اپنی ساری توجہ بھٹکانے کیلئے اسنے ایک نئی ترکیب سوچی تھی جو کارآمد بھی رہی۔ عارب اور جینی ابھی بھی آپس میں باتیں کررہے تھے۔ لیکن وہ اٹھ کر کچن کی طرف آگئی۔ عارب کی ایک چور، مگر سنجیدہ نظر اسکی جانب اٹھی تھی۔وہ اب سنک میں برتن رکھ رہی تھی۔  کسی احساس کے تحت ایک پل کو ٹھٹکی، مڑی۔۔۔اور عارب کو دیکھ کر ابرو اٹھایا۔
عارب نے گہرا سانس بھرا اور ناچاہتے ہوۓ بھی اپنی مسکراہٹ دبائی۔
__________

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,
Uncategorized

Dil dharky tery liye By Warda makkawi

dharky dil twry liye by Warda makkawi is a Classic, Urdu, Romantic, & Social Novel.  It was published online on