“پریشان مت ہوا کرو تم، ایسے برے دن میری زندگی میں نہیں آۓ کہ تمہیں امپریس کروں۔” تڑخ کر اسنے کہا تھا۔ ایک الگ ہی شانِ بے نیازی کے ساتھ۔
“ہاں۔۔۔یہ بھی ہے۔ ” لوشن لے کر چہرے، بازو اور گردن پر ملتے ہوۓ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ “چلو باہر چل کر بیٹھتے ہیں۔” کسی ان کہی کیفیت کے پیشِ نظر وہ بولا تھا۔
“تم مجھے کمرے سے نکال رہے ہو؟” اسنے حیرت سے پوچھا ۔ کچھ دیر پہلے کی یکسوئی ٹوٹ گئی تھی۔ گردن سیدھی کیے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
“نہیں یار۔۔ اچھا چلو اٹھو، چلتے ہیں۔” وہ ایک ہاتھ سے اپنے شوز پکڑے، دوسرا ہاتھ اسکی طرف بڑھاۓ آیا تھا۔ سکینہ ناراضی سے اسے دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ “جیسے میں تمہارے ہاتھ کے بغیر چل ہی نہیں سکتی نا۔” غصے سے کہتے ہوۓ اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
“شاپنگ کیسی کرنی ہے، اگر تم کہو تو آج شام کو میں لے جاؤنگا تمہیں۔” یہ آفر اسنے باہر لاؤنج میں آکر کی تھی۔ سکینہ نے کچھ سوچتے ہوۓ بھنوئیں اکٹھی کیں۔ عارب اسکا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔
“ٹھیک ہے۔ پھر شام کو چلیں گے۔ کیونکہ مجھے یہاں کا زیادہ پتا تو ہے نہیں، اور کپڑے مجھے لینے بھی انڈین ڈیزائنر کے ہیں۔ تو تم ہی ساتھ چلنا۔”وہ کہتی ہوئی رکی۔ عارب قریباً تیار ہوچکا تھا۔ بس اوپر کوٹ پہننا باقی تھا۔
“تم اتنا کیجوئیل ہوکر آفیس جارہےہو؟” اسے حیرت ہورہی تھی۔ کہاں وہ گھر میں بھی نک سک سے رہنے والا۔ اب انتہائی سادہ انداز میں جارہا تھا۔
“جینی کے ساتھ لنچ پر جارہا ہوں، اور طبعیت ابھی ایسی اچھی نہیں کہ کوئی بڑا اہتمام کروں۔ آتے ہوۓ ریسٹورینٹ کا چکر بھی لگاتا آؤنگا۔” موزے جھاڑ کر پہنتا اسے تفصیل سے آگاہ کررہا تھا۔ سکینہ جینی کے نام پر ایک پل کو چپ سی کرگئی۔
“جونک کہیں کی” وہ دل ہی دل میں بڑابڑائی۔
“ایسے تو تم زیادہ تھک جاؤگے، رہنے دیتے ہیں شاپنگ۔۔۔میرے پاس ابھی کپڑے ہیں۔ ان سے گزرارہ کرلونگی۔” جینی کے نام پر سارا اشتیاق ختم ہوچکا تھا۔ قدرے روکھے سے انداز میں کہا اور کچن کی طرف چلی گئی۔ عارب نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا ۔
“آر یو شیور؟”
“ظاہر ہے۔ تمہاری اتنی اہم ڈیٹ ہے۔ میں کیوں کرنے لگی سپائل!” ناشتے کے لوازمات ٹیبل پر رکھتی وہ بولی تھی۔ عارب نے بے اختیار مسکراہٹ ضبط کی۔
“تم جیلس ہورہی ہو؟” اسنے قدرے اونچی آواز میں کہا۔ سکینہ کے چلتے ہاتھ رکے۔ پھر غصے سے دروازے کے پاس آکر چیخی۔
“میری جوتی ہوتی ہے جیلس، اور تم یہ کرنج اور ٹھنڈا فلرٹ میرے ساتھ مت کیا کرو۔”
“یار بیوی ہو، کبھی کبھی وائب لینے میں کیا حرج ہے۔” کوٹ پہن اسکی طرف آتے ہوۓ وہ بولا تھا، سکینہ نے ایک طرف ہوکر راستہ دیا۔
“انسانوں کی طرح سارا کھاؤ، یہاں کمو اور بشیراں نہیں ہیں، جن کو میں بچا ہوا کھانا دے دوں۔” عارب کھڑے کھڑے ہی پراٹھے کا لقمہ لے رہا تھا جب اسکی سرد گونج پر بے اختیار کرسی پر بیٹھا۔
“مجھ پر رعب کم ڈالا کرو، پیار ویار ہوگیا تو خوامخواہ پریشانی ہوگی۔” تیسرا لقمہ لیتے ہوۓ وہ بولا تھا۔ گوکہ یہ محض ایک مذاق تھا لیکن سکینہ جو غصے کی بھری بیٹھی تھی ایک پل میں سرخ پڑی ۔
“بہت ہی ٹھرکی انسان بنتے جارہے ہو تم۔” خجل سی وہ بولی تھی۔ عارب بے اختیار ہنس دیا۔
“تم کہہ سکتی ہو!” سکینہ نے مسکراہٹ دبا کر اسکی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی، جو وہ پیچھے کرچکا تھا۔ عارب اٹھ کھڑا ہوا۔
“تمہیں ڈر تو لگے گا نہیں، اسلئے تسلی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میں کوشش کرونگا جلد آجاؤں۔۔۔اللہ حافظ!” اسے وہ پہلی رات یاد تھی جب وہ باہر اذیت میں کئی گھنٹے کھڑا رہا تھا۔ اور جب گھر پہنچا تو میڈم آرام سے سورہی تھیں۔
“اوہ ہاں۔۔۔!” وہ جاتے جاتے رکا۔ سکینہ جو “اللہ حافظ” کہنے والی تھی رکی اور الجھن سے اسے دیکھا۔
“کل سے تم ریسٹورینٹ جوائن کرلینا، آج میں خود بس فارمیلٹی کیلئے ہی جارہا ہوں۔” اسنے تو یونہی کہہ دیا۔ شاید سکینہ کا موڈ اچھا تھا، اسلئے اس بات سے اسکا موڈ مزید اچھا ہوجاۓگا۔ لیکن مخالف الگ ہی انداز تھا۔ اسنے بھنوئیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
“تو تمہارا ریسٹورینٹ جن چلارہے ہیں، اتنے دن ہوگئے غیر حاضر رہے ہو اور آج بھی محض فارمیلٹی پوری کرنے جارہے ہو۔ دیکھو عارب مجھے قرضے میں ڈوبا ریسٹورینٹ نہیں چاہیے، پلیز۔” اس قدر سنجیدگی، اس قدر سختی۔ جیسے وہ آج ہی ریسٹورینٹ کی ملکیت حاصل کرچکی تھی۔ عارب جو یہ سننے کا متوقع تھا کہ” ٹھیک ہے کل میں چلی جاؤنگی۔” اسکی بات پر بری طرح تپا۔
“اللہ حافظ سکینہ!” دانت پیستے وہ بولا تھا۔ اور پھر مڑ گیا۔
جاری ہے