Classic Web Special

Tamseel Episode 1 free online reading

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(شروع کرتی ہوں میں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔)

ابھی تو ساتھ چلنا ہے سمندر کے کنارے تک
کنارے پر ہی دیکھیں گے کنارہ کون کرتا ہے

سیاہ شب کا سینہ چیرتی ہوئی آسمان پر امڑنے کو بیتاب سنہری کرنیں ایک اور سیاہ رات کو فنا ہونے کا عندیہ دیتیں ،نئی صبح کے طلوع ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔
اندھیرے کو چیرتی ہوئی صبح کی سنہری کرنوں کا جال بس پھیلنے کو بےقرار تھا۔ پرندے اپنے اپنے آشیانے سے نکل کر اڑان بھرنے کو تیار تھے۔ دور کہیں آبشار کے پانی کی مدھم آواز کسی موسیقی سے کم لطف نہیں دے رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں مستی سے جھومتی ہوئی ہر ایک سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئیں استقبال کر رہی تھیں۔۔
درختوں کے جھرمٹ میں ایک چھوٹا سا نارنجی رنگ کا کیمپ تھا جس کے چین کو کھلتے ہی اس سے روشنی چھن کر باہر آنے لگی۔ چند پل بعد ایک مضبوط توانا شخص اس کیمپ سے نکل کر اطراف میں بھرپور نظر ڈالتے ہوئے سمت کا تعین کرتے ہاتھ میں لی ہوئی چادر کو زمین پر بچھا دیا۔ نماز کے لئے اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہوا اور بڑی دلجمعی سے نماز ادا کیا۔ نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور بہت دیر تک دعا مانگنے کے بعد ہاتھ منہ پر پھیر کر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔
زمین پر بچھی ہوئی چادر اٹھا کر کھڑے ہوتے ہوئے اطراف میں ایک بھرپور نظر ڈالتے سانس اندر کھینچ کر آنکھیں موندے چند پل تک یونہی خاموشی سے پڑا رہا۔۔
صبح کی ٹھنڈی ہوائیں مستی سے جھومتی ہوئی اسے چھو کر گزر رہی تھیں۔ مٹی کی سوندھی خوشبو اندر تک اترتی محسوس ہو رہی تھی۔۔
درختوں کے جھرمٹ سے ہٹ کر قدرے ہموار زمین پر ایک نارنجی رنگ کا ٹینٹ نسب تھا جس میں سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ نکلا تھا اور اب قریب ہی ایک لکڑی کے ٹکڑے پر وہ توانا وجود جھک کر اپنے تسمے باندھ رہا تھا۔ چاکلیٹی گھنے بالوں والا سر جھکا ہوا ، اور مضبوط شانوں پر سیاہ شرٹ تنی ہوئی اس کے جسم کو ورزش کا عادی ہونے کی گواہ تھی۔ چند لمحوں بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔ ہاتھ فضا میں بلند کر کے بھرپور انگڑائی لینے کے بعد اس نے جھک کر اپنا کیمرا اٹھایا اور پلٹا۔ اب اس کا چہرا واضح تھا۔۔
وہ کبھی کبھی مسکرانے والا آج یوں تنہا کھڑا بھی مسکرا رہا تھا۔ زندگی کے ہر غم اور پریشانی سے دور وہ خود میں گم تھا۔۔
بلیک ٹی شرٹ پر بلیک ہی جیکٹ پہنے، پیروں میں لانگ بوٹ اور بلو جنز پہنے، ماتھے پر بال بکھرائے ہوئے بہت پرکشش لگ رہا تھا۔۔
کیمرے کو نکال کر الگ الگ پرندوں کی تصویریں لینے کے ساتھ ہی کیمرے کو ایک ہاتھ میں لے کر اب چند قدم چل کر درختوں کے جھرمٹ میں کھڑے ہو کر گلے میں پڑی دوربین کو آنکھوں کے سامنے کیا۔۔
اطراف میں موجود چیزوں کے بعد اب وہ کئی کلومیٹر دور تک کی چیزیں دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
دوربین بہت مہنگی اور اچھی تھی جس کی وجہ سے اس کی رینج بہت زیادہ تھی۔ دوربین کو گھماتے ہوئے ایک نقطے پر اس کی نظر مرکوز رہ گئی۔ وہ ساکت سا کھڑا اس منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے لگا۔۔
میرون ٹی شرٹ پر سیاہ ٹریک پینٹ پہنے وہ دوشیزہ ایکسرسائز کرنے میں مصروف تھی۔ صرف پشت ہی اسے نظر آرہی تھی کیونکہ اس کا چہرہ دوسری سمت تھا۔ اس کی پھرتی اور اس کا انداز بہت پروفیشنل تھا۔۔
“امیزنگ۔۔!” اس کے منہ سے بےاختیار نکلا تھا۔
چند منٹ بعد وہ زمین پر پڑا موٹا سا ٹائر جو دو موٹی رسیوں سے بندھا ہوا تھا اسے ہاتھ پیچھے کیے ہی کھینچ رہی تھی۔۔
وہ دوربین آنکھوں پر لگائے ہی اسے دیکھ رہا تھا جب وہ اچانک رک گئی تھی۔ جیسے خود پر کسی کی نظریں محسوس کر گئی ہو۔ اس کو اس طرح رکتے ہوئے دیکھ کر مسکرانے کے ساتھ ہی اس کی اگلی حرکت پر اپنے نچلے لبوں کو دانتوں کے درمیان دباتے ہوئے دوربین ہٹا کر پیچھے مڑ گیا۔۔
وہ دوشیزہ شاید خود پر کسی کی نظریں محسوس کرتے ہی ایکسرسائز وہیں چھوڑتے ہوئے بنا پیچھے مڑے درختوں کے جھنڈ میں غائب ہو گئی۔۔
یہ ایک غیر ارادی حرکت تھی ورنہ کبھی بھی وہ کسی غیر محرم عورت پر نظر ڈالنا تو دور نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔۔ اپنے کیمپ سے سامان سمیٹ رہا تھا جب اس کی جیب میں پڑا موبائل بجنے لگا۔۔
“ہاں بولو کاشف۔۔!” ماتھے پر بل ڈال کر موبائل کان سے لگایا۔۔
“سر۔۔! میں فون کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن۔۔!!” مقابل شخص تھوڑا ہچکچاتے ہوئے اپنی بات کہنا چاہ رہا تھا۔۔
“تم سے کہا بھی تھا کہ جب تک بہت ضروری کام نہ ہو تب تک مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔ یہ وقت صرف اور صرف میرے لئے تھا۔۔!!” اس کے ماتھے کے بل کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے تھے۔۔
“سر بہت ضروری ہی کام تھا۔ شام میں پارٹی میٹنگ ہے اور کل پرچہ داخلہ ہے۔ آپ کا ہونا بہت ضروری ہے اور اگر آپ کو اس علاقے کا ایم ایل لے بننا ہے تو عوام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈر کو بھی اپنے روپ سے واقفیت دلانا ہوگا۔۔!!” اسی کے کچھ دن پہلے کہے ہوئے الفاظ اس کے سیکرٹری کے منہ سے ادا ہوئے جسے سن کر وہ بےاختیار لب بھینچ گیا۔۔
“جہاں آپ ہیں وہاں سے بس آدھا کلو میٹر دور ہیلی کاپٹر آپ کے لئے ہے۔۔!!” اس کی بات پوری ہوتے ہی اس نے فون کاٹ کر کیمپ کا سامان سمیٹ کر بیگ کندھے پر جماتے ہوئے قدم آگے بڑھانے سے پہلے ایک بار مڑ کر اس جگہ کو دیکھا جہاں تھوڑی دیر پہلے کسی کو دیکھ کر حیرت کے ساتھ ہی مسکراہٹ بھی اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔۔
اچانک سے دل اچاٹ ہو گیا تھا حالانکہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی۔ اپنے دل میں اچانک سے پنپتے ہوئے اپنے خیالات کو جھٹلا کر آگے بڑھ گیا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Admin2

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *