“کملا نہیں گیا ہوں امّی! آپ تو بس آپا سے جدائی کے غم پر واویلا کرتی رہیں اور میں آپا کی جدائی کے ساتھ ساتھ اس کی عزت کے لٹنے کا غم بھی مناتا رہا۔اوپر سے آپ کی عزّت کی خاطر بچپن سے لے کر آج تک چُپ کا زہر دل میں اتارتا رہا۔”اس نے آسمان کی طرف دیکھا تھا۔اس کہ بات سن کر رابعہ تو صدمے سے نیچے بیٹھتی گئیں اور سعدیہ نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔
“وہ آسیب نہیں تھا امّی! وہ وجاہت علی عباسی تھا۔عیاش ، بد کردار، ہوس کا پجاری!”وہ بلک بلک کر رونے لگا۔
“نہیں، نہیں ، نہیں میری بانو کے ساتھ ایسا نہیں ہو سکتا۔”رابعہ نفی میں سر ہلانے لگیں تو سعدیہ نے اسے خود سے لگایا تھا۔
“ایسا ہی ہوا تھا امّی! میں چشم دید گواہ ہوں۔”وہ ان کے پاس آکر بیگ زمین پر پھینکتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
“دور ہو جا مجھ سے۔تُو جھوٹ بول رہا ہے۔”وہ دیوار سے سر ٹکائے سسکنے لگیں۔
“میں اندر سے نیل و نیل ہوں امّی۔مجھے گلے سے لگا لیں۔میں اس غم پہ رونا چاہتا ہوں۔”
“تُو نے اتنا عرصہ مجھ سے یہ سب چھپا کر اچھا نہیں کیا بیٹا۔میں بے خبر اس شخص کے احسانوں تلے دبتی رہی، فقط یہ سوچ کر کہ وہ ایک فرشتہ صفت انسان ہے۔”
“امّی کہتے ہیں اس معاملے میں عورت کی حس بڑی تیز ہوتی ہے۔وہ بُرے مرد کی اک نظر کو بھی پہچان لیتی ہے۔آپ کیسے اتنی بے خبر رہیں؟”
“شائد میری وہ حِس مفلوج ہو چکی تھی۔”
“ہاں رابعہ تم خفہ ہوتی تھی تو ہم آگے سے کچھ بھی نہیں کہہ پاتے مگر فیاض بھائی سے بھی تمہارا دل وجاہت علی نے میلا کر دیا تھا۔”سعدیہ اسے اٹھا کر چارپائی میں بٹھا چکی تھیں۔
سعدیہ کی بات سن کر اسے زاہد کے جنازے والا دن یاد آیا تھا۔
“فیاض نے تمہارے سر سے سائبان چھین کر تجھے بے آسرا کر دیا ہے مگر تُو فکر نہ کر، میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔”وجاہت علی دروازے کے اوٹ میں کھڑے ہو کر بولا۔
“ان کے نصیب میں یہی لکھا تھا۔میرے بھائی کی غلطی نہیں تھی۔”وہ روتے ہوئے بولی۔
“ہاں غلطی تو بالکل بھی نہیں تھی، کیونکہ یہ سازش تھی، جو وہ چند روز پہلے رحمان کے ساتھ کر چکا تھا۔”
“کیسی سازش؟”
“اس نے زاہد کو دھمکی دی تھی کہ، “اگر تم نے وجاہت علی کی پارٹی نہیں چھوڑی تو تمہیں زندہ نہیں رہنے دوں گا” اس سب کے ثبوت ہیں میرے پاس مگر ابھی مناسب وقت نہیں۔ خیر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں۔”یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر رابعہ کو فیاض احمد سے نفرت سی ہونے لگی تھی۔
“بھائی جان کو میں نے دربدر کیا مگر وہ پھر بھی باقاعدگی سے آتے رہے۔گھر کا سارا خرچہ، سکول کا خرچ، دوائیاں، سب کچھ انہوں نے اپنے ذمے لیا تو میرا دل پسج گیا۔میں نے مان لیا کہ زاہد کی موت میں ان کا قصور نہیں تھا۔میں نے پھر ان سے واپس آنے کا بھی کہا مگر وہ نہیں مانیں۔ان کا کہنا تھا کہ “جو بھی ہو میں قتلِ خطا کا مرتكب ہوا ہوں، کیونکہ پستول تو میرے ہاتھ میں تھی جب گولی چلی۔”
“اگر آپ نے انہیں دل سے معاف کر دیا تھا تو دوبارہ سے اتنی کٹھور کیوں بن گئی تھیں؟”
“وجاہت علی نے مجھے وہ ثبوت دکھائے تھے جس میں فیاض بھائی زاہد کی موت پر کسی سے بہت بڑی رقم لے رہے تھے۔ میرا دل بری طرح سے خراب ہوا تھا۔تب میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ میں اس کی بیٹی کو بہو نہیں بناؤں گی اور کچھ دن پہلے ہی تو وجاہت علی خود آیا تھا اپنی بیٹی کا رشتہ دینے مجھے یہی یاد کرا کر کہ فیاض بھائی جان سے بدلے کا وقت آ گیا ہے۔”
“ایک تیر سے دو شکار۔پتا بھی ہے آپ کو کہ وہ کتنی آوارہ اور بدمزاج لڑکی ہے؟”وہ اٹھ کھڑا ہوا۔”اب وقت آ گیا ہے کہ میں اس کے خلاف جمع شدہ ثبوت مضبوط ہاتھوں تک پہنچاؤں تاکہ اسے سخت سے سخت سزا ملے۔”
“بیٹا وہ بہت طاقت ور ہے۔اس سے مت الجھو! ہم یہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔”
“اللہ سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں۔آپ فکر نہ کریں۔میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔”وہ انہیں خود سے لگا کر سمجھاتے ہوئے باہر نکل گیا تو رابعہ بلک بلک کر رونے لگی تھی۔