اس نے گاؤں کے ایک امانت دار بزرگ کے ساتھ یو ایس بی کی کاپی چھپا کر رکھی تھی۔
وہ ان کے گھر گیا تو اسے پتا چلے کہ وہ بیمار ہیں اور ان کے بیٹے انہیں ایبٹ آباد لے گئے ہیں۔اس نے نعمان کو میسج کرکے وجاہت علی کی ساری تصاویر اور وڈیوز بھیجنے کا کہا مگر نیٹ کام نہیں کر رہا تھا۔
وہ مایوسی کے عالم میں گاؤں کے سڑکوں پر بے سبب مارا مارا پھرنے لگا۔
اس کی آنکھیں آنسو سے لبریز تھیں۔اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا وہ کیا کریں؟
ایک طرف اسے میزاب کی انتظار کرتی ہوئیں نگاہیں یاد آ رہی تھیں تو دوسری طرف سب سے زیادہ محبت کرنے والے شخص کے ساتھ ہونے والی زیادتی اسے رلا رہی تھی۔
اسے دل کو مضبوط کرکے سخت فیصلہ کرنا تھا۔
وہ سڑک كنارے شیشم کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے بچپن کو یاد کرنے لگا۔
اسے فیاض اور زرینہ کی محبتیں یاد آنے لگی تھیں۔
اس نے ترازو کے ایک پلڑے میں
فیاض احمد اور زاہد کی دوستی،
زرینہ بیگم کا لاڈ پیار
بیا کی شرارتیں
اور سب سے بڑھ کر
فیاض احمد کی بے بسی، دربدری ڈال دی تھی اور دوسرے میں میزاب کی محبت تو پہلا والا پلڑا بہت بھاری نکلا تھا۔
اسے بھاری پلڑے کو چننا تھا۔
محبت کا کیا تھا؟
ایک وعدہ توڑ کر اللہ سے معافی مانگ لیتا اور درد کی ہمراہی میں زندگی گزار لیتا مگر اس کے کندھوں سے اپنے ماں باپ کی نادانیوں کا بوجھ تو اُتر جاتا کہ اسبوجھ نے اس کے کندھوں کو بہت زیادہ جھکا دیا تھا۔
شاید اس کی محبت کی قربانی ہی اس سب کا کفّارہ تھا۔
اس نے پل میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے باپ کے بنائے ہوئے رشتے کو دوام بخشے گا۔
فیصلہ ہوتے ہی اس نے مٹھیاں بھینچ کر ایک درد بھری چیخ ماری تو ساری وادی گونج اٹھی تھی۔وہ آنکھوں کے کونے دباتے ہوئے اٹھ گیا۔
شام کا ملگجا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ آسمان پر تارے جهلک دکھلانے لگے تھے۔اسے رابعہ بیگم کی فکر ہونے لگی جبھی درد سے لبریز دل اور تھكن سے چور بدن لیے سڑک کنارے چلنے لگا مگر اب بھی وہ اضطراب میں مبتلا تھا۔
میزاب کی آنکھیں اس کی آنکھ کے دریچوں میں رقص کر رہی تھیں۔
اسے لگا تھا کچھ دیر کئے گئے فیصلے پر وہ قائم نہیں رہ سکے گا۔
بوجھل دل کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔
سامنے مسجد نظر آئی تو وہ گھر جانے کا ارادہ ترک کرکے مسجد میں چلا گیا۔
اس نے اندر قدم رکھے تو سامنے ہی برآمدے میں مولوی صاحب تسبیح پکڑے ورد میں مصروف تھے۔
“اسلام علیکم!”
“وعلیکم اسلام! بیٹھ جاؤ بیٹا!”
“مولوی صاحب اگر کوئی قتلِ خطا کا مرتكب ہو جائیں تو اس کی سزا کیا ہوگی؟”وہ مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ کر سنجیدگی سے بولا۔
“شریعتِ مطہرہ قتلِ خطاء کی صورت میں قاتل پر کفارہ( یعنی مسلسل ساٹھ روزے) اور دیّت( یعنی سونے یا چاندی کی شکل میں رقم) دونوں لازم کرتی ہے،بشرط یہ کہ قتلِ خطاء یعنی غلطی کی وجہ سے قتل ہوا ہو۔نیز دیّت کی مقدار یہ ہے کہ دیّت اگر سونے کی صورت میں ادا کی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار دینار یعنی تولہ سونا جس کا اندازہ جدید پیمانے سے چار کلو تین سو چھُرتر گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے اور اگر دراہم (چاندی) کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو دس ہزار درہم یعنی دو ہزار چھ سو پچیس تولہ چاندی جس کا اندازہ جدید پیمانے سے تیس کلو چھ سو اٹھارہ گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے۔”کچھ لمحے رک کر۔”ملحوظ رہے دیّت کی ادائیگی قاتل کی “عاقلہ” کے ذمہ ہے۔”انہوں نے تسبیح رکھی تو دُراب انہیں ناسمجھی سے دیکھنے لگا۔
“عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس قاتل کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو۔نیز یہ دیّت تین سال میں ادا کی جائے گی۔
البتہ اگر قاتل اور مقتول کے ورثاء آپس میں اپنے درمیان متعین کردہ رقم پر مصالحت کریں تو وہ بھی درست ہے۔”
“دو مہینے یعنی ساٹھ دن لگا تار روزے رکھنا اور دیّت بس؟”
“ہاں بس!”وہ ہلکا سا مسکرائے۔”مگر بیٹا تم یہ سب پوچھ کیوں رہے ہو؟ کیا تم سے قتل ہو گیا ہے؟”انہوں نے شائستگی سے پوچھا تھا۔
“ارے نہیں مولوی صاحب! برسوں پہلے ہوئے قتل کے بارے میں آج علم ہوا تو سوچا قرآن و سنّت کی روشنی میں راہنمائی لوں۔”اس نے ایک گہری سانس لی۔
“اگر ایک شخص نے ساٹھ روزے بھی رکھ لیے ہو، دیّت بھی دی ہو اور مقتول کے گھر کا سارا خرچہ بیس سال سے چلا رہا ہو تو؟”اب کے اس نے ان کی آنکھوں میں دیکھا۔
“تو یہ کہ اس پر صرف دیّت دینا لازم تھا۔بیس سال سے وہ مقتول کے گھر کا خرچہ چلا رہا ہے تو یہ اس کا احسان ہے۔”
“بہت شکریہ مولوی صاحب! ذہن پر بہت بڑا بوجھ تھا، اب اُتر گیا ہے۔”اس نے مولوی صاحب سے مصافحہ کیا اور مسجد سے نکل آیا۔
وہ اب خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا وہ فیاض احمد کے گھر جائے گا۔
ان سے معافی مانگ کر اپنی محبت کو خیر باد کہہ دے گا۔
اس نے مسجد سے باہر دیکھا تو حیران رہ گیا۔
وہ اپنے گاؤں سے کافی دور چلا آیا تھا۔عشا کی اذان ہو رہی تھی وہ اپنے گاؤں کی طرف دوڑنے لگا مگر بے سود۔
وہ اپنے گھر پہنچ ہی نہیں سکا کیونکہ اسے وجاہت علی کی گاڑی نے ٹکر مار کر نیچے کھائی میں گرا دیا تھا۔
مشتاق نے گاڑی سے اتر کر اس کے لہولہان وجود کو درخت کے تنے لٹکا ہوا دیکھا تو اس نے ایک بھر پور قہقہہ لگایا تھا۔