میزاب چارپائی سے سر ٹکائے کسی گہرے سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔اس کی اُلجھی ہوئیں زلفوں کی بے ترتیب لٹیں آنکھوں سے چھلکنے والی نمی سے بهیگ رہی تھیں۔
“ابی، ابی!”زرینہ بیگم نے اندر آ کر اسے پُکارا تو وہ چونک گئی۔
“امّاں!”
“کون سا روگ پال لیا ہے میری بچّی؟”وہ نزدیک آ کر بالکل اس کے سامنے بیٹھ گئیں۔”کیوں ہر پل تمہاری نظریں منتظر سی اور آنکھیں نمی سے لبریز ہوتی ہیں؟”زرینہ بیگم آج اس سے وہ سوال کر بیٹھی تھی جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
“امّاں کچھ انتظار لا حاصل ہوتے ہیں اور مجھے اسی لا حاصل انتظار کی رفاقت مل گئی ہے۔”اس نے ایک سرد سی آہ بھری۔
“کس کا انتظار بیٹا؟”
“شائد وقت کا۔”اس نے نم آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔
“تمہاری آنکھوں کی یہ نمی میرا دل چیر دیتی ہے ابی!”وہ اُٹھ کر اس کا چہرہ دونوں ہتھیلیوں کے پیالے میں لے کر استفسار کرنے لگیں۔
“دل سے خون رستا ہے تو آنکھوں میں نمی بن کر تو جھلکتا ہوگا نا۔”
“مت کرو ایسی باتیں۔مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔”
“امّاں میں ٹوٹ رہی ہوں۔”اس نے زرینہ کے گود میں سر رکھ کر سسکی لی۔
“امّاں دعا کر! مجھے دل کے تاوان پر صبر آجائیں۔”وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تو زرینہ نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھ کر اس کے سر کے بال سہلانے لگیں۔
“دعا کریں گی نا؟”اب کے اس نے چہرہ اٹھا کر ان سے سوال کیا۔
“دعا تو ہر وقت کرتی ہوں میری بچّی! مگر نہ جانے تمہیں صبر کیوں نہیں آ رہا؟”ان کی آنکھوں سے نمی چھلکنے لگی تھی۔
“کیا تم نے دل کا روگ پا لیا ہے؟کیا تم محبت کی راہوں پر چل نکلی ہو؟”
“ہاں امّاں! ماؤں سے کچھ چھپا رہ سکتا تو میں انکار کرکے اپنی محبت کی پردہ داری کرتی مگر . . . . “اس نے تھوک نگلی تھی۔”ماؤں سے کچھ چھُپ ہی نہیں سکتا۔”
“تو پھر میری ایک بات مان لو۔کسی کی بے وفائی میں خود کو ہلکان مت کر! اپنے ابّا کی بات مان کر رشتے کے لیے حامی بھر لیں۔”وہ منت بار لہجے میں بولیں۔
“امّاں نہیں۔”میزاب کرب سے چیخی تھی۔
“میری خاطر!”
“امّاں پلیز!”وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر بلک بلک کر رونے لگی تو زرینہ سر جھکا کر اٹھ گئی تھیں۔
“اللہ تیرے دل کو صبر کے نور سے منّور کر دیں۔”وہ بنا پیچھے دیکھے باہر نکل گئی تو دروازے سے باہر کھڑے فیاض احمد کو دیکھ کر ٹھٹک گئی جو ماں بیٹی کی ساری باتیں سن چکے تھے۔
“آپ کب آئیں؟”
“بس ابھی!”یہ کہہ کر وہ اپنے كمرے میں چلے گئے تھے۔زرینہ نے شکر ادا کیا کہ انہوں نے ان کی باتیں نہیں سنی تھیں۔