“میری شادی ہے اور تم ایسے کر رہی ہو میرے ساتھ!”مہرین نے آ کر اسے ٹوکا تھا۔”کئی دفعہ فراز کی کال آ چکی ہے مگر میں نے کہا جب تک ابی نہیں جائے گی میرے ساتھ، میں بھی شاپنگ نہیں کروں گی۔”وہ روٹھے ہوئے لہجے میں بولی۔
“یار میرا دل نہیں کرتا۔”میزاب بے زاریت سے بولی۔
“ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں جاؤں گی۔بلکہ شادی ہی نہیں کروں گی۔”اس نے ضدّی پن سے کہا۔
“ارے مہرو ضد کیوں کر رہی ہو؟”
“ضد نہیں کر رہی بس تمہارا رویّہ۔۔۔۔”مہرین چادر اٹھا کر جانے لگی تو میزاب نے اسے بازو سے پکڑ لیا تھا۔
“ناراض تو نہ ہو،چلتی ہوں۔”
“پکا؟”
“ہاں مگر میں اپنے لیے کچھ نہیں خریدوں گی۔”وہ الماری سے چادر نکالنے لگی۔
“خریدیں گی تو تیری نانی بھی، تُو تو پھر نواسی ہے ان کی۔”مہروں ہنسنے لگی تو اس نے الماری بند کرکے منہ اس کی طرف کیا۔
“اب تُو ضد کر رہی ہے۔”
“ایک ہی سہیلی ہے میری۔وہ بھی بے مروّت، مردہ دل!”مہرین نے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی۔”فراز کی کال آ رہی ہے لگتا ہے وہ آ گیا ہے۔”
یہ کہہ کر اس نے میزاب کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی طرف بڑھ گئی۔