انہوں نے کپڑے اور جوتے خرید لیے تو فراز مس رقیہ کو لینے کالج چلا گیا اور وہ دونوں میك اپ دیکھنے دوسرے مارکیٹ میں چلی گئیں۔
“وہ دیکھو مہرو! دُراب کی تصویر۔”میزاب نے فوٹو گرافر کی شاپ پر اس کی بڑی سی فریم والی تصویر دیکھی تو مہرو کا بازو پکڑ کر رک گئی تھی۔
“ارے یہ تو سچ میں۔”مہرین نے اس طرف دیکھا تو حیران رہ گئی۔۔”چلو چلتے ہیں اس کے پاس۔”وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر فوٹو گرافر کی طرف بڑھ گئی۔
“سنو بھیّایہ تصویر کس کی ہے؟”اس نے دکان کے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو گرافر سے پوچھا تھا۔
“باجی یہ تو دُراب احمد جدون کی ہے۔وہ جو یوٹیوب پر آتے ہیں۔مہینہ پہلے ہی فریم کرنے کا کہا تھا اس نے۔”
“تو کیا وہ لینے نہیں آئیں؟”
“انہوں نے تو کہا تھا ہفتہ بعد آئیں گے مگر اب تک آئے نہیں۔شاید بھول گئے ہو یا باہر چلے گئے ہو۔”فوٹوگرافر نے اس کے اوپر ایک اور تصویر لگائی تھی۔
“ان کا کانٹیکٹ نمبر؟”اب کے میزاب نے بے چینی سے پوچھا تھا۔
“تھا ایک نمبر مگر وہ بند ہے۔”
“اچھا بھائی یہ تصویر مجھے دے دینا۔وہ آئیں تو کہنا میزاب لے گئی ہے۔”
“کیوں؟ اور آپ کون ہو جی؟”وہ تعجب سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“دوست ہیں ہمارے بھیّا کے۔میزاب نے پرس کھولا۔”کتنے پیسے ہوئے؟”
“چار سو!”فوٹوگرافر نے تصویر اُتار کر اسے تھمائی اور پیسے لے کر کاؤنٹر کی طرف چلا گیا۔
میزاب تصویر کو دل سے لگا کر، بقایا پیسے چھوڑتے ہوئے، مہرین کو بازو سے کھینچ کر وہاں سے باہر لے گئی تھی۔
“ابی لگتا ہے دُر بھائی اب نہیں رہے۔”وہ نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر سر نفی میں ہلانے لگی۔
“مہرو!”اس کا دل تڑپ گیا تھا۔”ایسے تو نہ کہو!”اس کی آنکھیں بھر آئیں۔”اس کی بے وفائی تو قبول کر لوں گی مگر اسے مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔”اس کے شفاف آنسو موتیوں کے صورت گالوں پر لڑھکنے لگے۔
“دیکھو نا وہ تو فوٹو گرافر کو بھی واپس آنے کا کہہ کر گئے تھے اور اب تک نہیں آئیں۔ نہ بھائی سے رابطہ، نہ تم سے اور فون بھی۔۔۔۔۔۔”وہ رونے لگی۔
“مہرو تم میرا دل دُکھا رہی ہو۔ایسی باتیں نہ کرو۔وہ مجھے ملیں نہ ملیں مگر وہ زندہ رہیں تو میں زندہ رہوں گی۔”وہ تصویر رکھ کر مہرین کو گلے سے لگاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔مہرین بوجھل دل کے ساتھ اس کے بال سہلانے لگی۔
جاری ہے