فیاض احمد عقبی صحن میں تكیے سے ٹیک لگائے، ریڈیو پر نورجہاں کا گانا سنتے ہوئے، ڈائجسٹ پڑھ رہے تھے جب
زرینہ تھکی تھکی سی آکر ان کے پاس بیٹھ گئیں۔
“تو پھر کیا سوچا؟”
“کس بارے میں؟”وہ ڈائجسٹ میں بک مارک رکھ کر ان کی آنکھوں میں تھکتے ہوئے مستفسر ہوئے۔
“میزاب کے رشتے کے بارے میں۔”
“زرینہ! اسے کچھ وقت دیتے ہیں۔ابھی اس کا غم تازہ ہے۔”وہ سر جھکا کر دکھی لہجے میں بولے تو زرینہ انھیں تحیّر سے دیکھنے لگیں۔
“کس کا غم؟”انھوں نے فیاض احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر استفسار کیا۔
“محبت دیمک کی طرح ہوتی ہے۔جڑوں میں گھُس کر تنے کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔”انھوں نے نظر اٹھا کر زرینہ کو دیکھا۔”مجھے ایسا لگتا ہے میری بیٹی کا دل بھی کھوکھلا ہو گیا ہے۔مجھے یہ ڈر ہے کہی شادی میں جلدی اسے بکھیر ہی نہ دیں۔”
“وہ سب تو ٹھیک ہے مگر آپ کو کس نے بتایا؟”زرینہ نے یہ پوچھتے ہوئے نظریں چرا لی تھیں۔
“باپ ہوں زرینہ! اپنی بیٹی کی آنکھوں میں ویرانی کے رنگ دیکھ کر پہلے ہی سے شک تھا کہ وہ اپنے دل میں کوئی غم پال رہی ہے مگر کل تم دونوں کی باتیں سن کر اس پر یقین کا مہر ثبت ہوگیا ہے۔”انھوں نے چشمے اتارے۔
“اسے اس غم سے نكالنا ہے زرینہ! رشتے کا کیا ہے ہو جائے گا جب نصیب میں لکھا ہوگا۔”انھوں نے سر پر رکھی ہوئی ٹوپی درست کی۔
“مگر اس طرح تو وہ کبھی بھی اس غم سے نکل نہیں سکے گی۔میں سمجھتی ہوں شادی اس کے لیے مرہم کا کام کرے گی۔”
“نہیں زرینہ! تازہ زخم سے خون رستا ہے تب کوئی مرہم کام نہیں آتا۔خون رُک جائے تو ہی مرہم زخم بھر دیتی ہے۔”وہ انھیں سمجھانے لگے۔
“جیسے آپ کی مرضی! ویسے رابعہ نے پھر کوئی رابطہ کیا؟”
“کس منہ سے رابطہ کریں گی؟”کچھ لمحے رک کر۔”کتنا مان تھا نا مجھے اُس پر۔”
“آپ بھی پاگل ہیں۔آج کل اپنے بہن بھائی مان توڑتے ہوئے دیر نہیں لگاتے وہ تو پھر آپ کی چچا زاد تھی۔”
زرینہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ گئی۔
“خیال تو اپنی بہنوں سا رکھا زرینہ!”
“چھوڑیں یہ باتیں! دودھ لاتی ہوں پھر سے دوائی بھول گئے ہیں آپ۔”وہ اندر کی طرف بڑھ گئیں تو فیاض احمد کو آج پہلی دفعہ لگا تھا کہ وہ بہت کمزور ہو چکی ہیں۔