وزیراعظم کے نواسے کی شادی ہو رہی تھی۔
گیرزن کو رنگا رنگ پھولوں اور برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔
کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔
ُسو طرح کے پکوان بن رہے تھے۔
ؓمہمانوں کے کے لیے وی آئی پی نشستوں کا انتظام کیا گیا تھا۔
دلہن نے لاکھوں کا جوڑا پہنا ہوا تھا تو دلہا کی شیروانی بھی لاکھوں سے کم نہ تھی۔
رقص و سرور کا سماں تھا۔ رقاصائیں ناچ رہی تھیں اور ملک کی بھاگ دوڑ سمبھالنے والے بڑے بڑے مگرمچھ ان کے جلوؤں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، نئے
نوٹوں کی بارش برسا رہے تھے۔
عوام کے خون پسینے کی کمائی، لٹیرے اپنی عیاشیوں پر لٹا رہے تھے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، میانہ روی کا درس دینے والے مذہب کے پیروکار، اسراف کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے تھے۔
نمود و نمائش کا بازار گرم تھا۔عورتیں مغرب کی تقلید کرتے ہوئے عرياں لباس میں ملبوس، نامحرم کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ڈانس فلور پر ڈانس کر رہی تھیں۔
ملککے غریب عوام کے لیے گیرزن تو کیا پورے شہر کے دروازے بند کئے گئے تھے کہ انہیں یہ سب دور سے دیکھنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔
کہتے ہیں جب انصاف کی کمی ہو تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
جبھی تو پاکستانی معاشرے میں بد امنی، چوری چکاری، ملاوٹ ، سفارش، حتیٰ کہ حلال حرام میں امتیاز باقی نہیں رہا سکا ہے۔
سود کو تو جیسے لازم قرار دیا ہے اور رشوت فرض۔
وجاہت علی بھی بھن ٹھن کر شادی میں شرکت کرنے آیا تھا۔
وہ شباب و کباب سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔
رقص میں مگن کم سن دوشیزائیں وجاہت علی کی شہوت بھری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھیں۔
اس نے مشتاق کی طرف دیکھ کر اسے اشارے سے نزدیک بلایا تو وہ فون بند کرکے پل میں ہی اس کی طرف لپکا تھا۔
“سر ایک خوشی کی خبر ہے!”وہ وجاہت علی کے بولنے سے پہلے ہی بول چکا تھا۔
“سناؤ نا۔عرصہ ہوا ہے کوئی خوشی کی خبر نہیں سنی۔”وہ بائیں پاؤں پہ دایاں پاؤں ڈال کر بے چینی سے بولا۔
“سر اس لڑکی پتا لگ گیا ہے جس کے لیے آپ کئی مہینوں سے بے چین پھر رہے ہیں۔”
“اوہ مائی گاڈ! کہاں ہے شزا؟ لے کے آؤ اسے میرے پاس۔”وہ بے چینی سے کہتے ہوئے اٹھ گیا۔
“سر بیٹھ جائیں! سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس کا نام میزاب احمد جدون ہے اور دوسری بات یہ کہ اس نے کالج آنا چھوڑ دیا ہے۔”
“تو کیسے، کیسے لاؤگے اسے میرے پاس؟”وہ اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔”اسے دیکھنے کے بعد کوئی اور چہرہ مجھے آرام پہنچا ہی نہیں سکا ہے مشتاق!”وہ بے چینی سے بولا۔
“سر ارد گرد سے معلوم کیا خاصے شریف لوگ ہیں۔پیسوں کے لالچی بھی نہیں ہیں اور ایسی کوئی کمزوری بھی نہیں جس کے بنا پر ہم انہیں ڈرا دھمکا سکیں۔”اس نے راز داری سے کہا کہ اپوزیشن کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔
“تو پھر؟”وجاہت علی کے ماتھے پر کئی شکنیں اُبھری تھیں۔
“میرے پاس ایک تركیب ہے۔”
“کیسی تركیب؟”
“سر اصل میں۔۔۔۔۔۔۔”وہ اس کے کان پر جھک کر سرگوشی میں بولا تھا۔
“یہ ہوئی نا بات!”اس نے جیب سے کئی نوٹ نکال کر مشتاق کو تھمائے اور کرسی سے ٹیک لگا کر اسٹیج کی طرف متوجہ ہوا جہاں دلہن کے ساتھ دلہا کو بھی بٹھا کر کوئی رسم ادا ہو رہی تھی۔
مشتاق نے معمول کی طرح نوٹوں کی گڈّی سونگھ کر جیب میں ڈالی اور اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے مسز نائلہ کی طرف بڑھ گیا جو اس کے پاس سے گزرتی ہوئی اپنے شوہر کے ہمراہی میں اسٹیج کی طرف جا رہی تھی۔