Uncategorized

Teri Chahat Ki Dhanak by Hira Tahir Episode 14


نعمان نے ٹھنڈیانی جا کر دُراب کا پتا لگایا مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔وہ کوئی میدانی علاقہ تو تھا نہیں کہ ساتھ ساتھ کئی گھر ہوتے۔
پہاڑ کے دامن میں کئی فاصلے پر ایک ایک گھر تھا۔کئی گھر بہت بلندی تو کئی بہت نیچے تھے۔نعمان تو دو تین گاؤں دیکھ کر ہی دل برداشتہ ہوا تھا۔اوپر سے وہاں پر نہ کوئی مارکیٹ، نہ کوئی بڑا دکان جو ضروریاتِ زندگی فراہم کرتا۔ اس لیے وہ اپنی تلاش ادھوری چھوڑ کر واپس چلا آیا۔
میزاب پر تو یہ خبر قیامت بن کر گری تھی کہ اس کا آنا نہ آنا تو ایک طرف اس کا تو کوئی اتا پتا ہی نہیں۔
یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہو رہی تھی کہ اس نے اپنے بہترین دوست سے بھی اپنی مکمّل شناخت چھپائی تھی۔نعمان کو لگ رہا تھا دُراب کسی مشکل میں ہے مگر اس نے یہ بات مہرین اور میزاب سے چھپائی تھی کہ قبل از وقت کچھ کہنا ٹھیک نہ تھا۔اس نے اپنے دوست اے ایس پی سلمان جعفر سے بات کی تھی اور اسے دُراب کی دی ہوئی یو ایس بی بھی دے دی تھی تاکہ مناسب وقت پر کاروائی کی جا سکیں۔
میزاب کے پھر سے دو تین رشتے آئے ہوئے تھے۔
وہ معمول کی طرح انکار کر رہی تھی مگر اب کے فیاض احمد سمجھ گئے تھے کہ اس کا زخم روگ بن رہا ہے۔اس لیے انھوں نے اس کی شادی کرنے کا سوچ لیا تھا۔
انھوں نے ایک رشتہ فائنل کرکے مہرین کو بلا بھیجا تاکہ وہ میزاب کو راضی کر سکے۔
مہرین ان سے بات کرکے اگلے ہی روز، صبح صبح آ دهمكی تھی۔
“مہرو! تم؟”اسے میزاب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
“ہاں، کیوں میں نہیں آ سکتی؟”مہرین نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے۔
“کیوں نہیں آ سکتی، مگر اتنی صبح صبح؟”اس نے مہرین کے قریب جا کر اسے گلے لگایا تھا۔
“ہاں یار، بس رات کو انکل کی کال آئی تھی تو سو مجھ سے پھر صبر نہیں ہو رہا تھا۔”
“ابّا نے کال کی تھی؟”میزاب کے ماتھے پر کئی شکنیں ابھریں تھیں۔
“ہاں!”
“کیوں؟”
“میرے انکل ہیں، کیا وہ مجھے کال نہیں کر سکتے؟”
“کر سکتے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔”وہ چپ ہوئی۔
“مگر کیا ابی؟”
“انھوں نے تمھیں اس لیے بلايا ہے کہ تم مجھے رشتے کے لیے راضی کرو۔”
“ہاں تو ماں باپ ہیں وہ تمہارے۔انھیں فکر ہے تمہاری۔”
“شادی ہر مسئلے کا حل نہیں۔”
“ہاں مگر تمھیں رخصت کرکے ان کے دل مطمئن ہوجائیں گے۔”وہ اسے پیار سے سمجھانے لگی۔
“کیا ان کے دلوں کے لیے میں سولی پر چڑھ جاؤں؟”وہ درهشتی سے بولی۔
“ابی! تم اتنی سنگ دل تو نہ تھی۔”مہرین نے اسے گلہ آمیز نظروں سے دیکھا۔
“دل کی بھی کیا خوب کہی۔بے وفائی کا وار سہہ کر پتھر ہی تو ہونا تھا اسے۔”میزاب نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھیں۔
“فلسفہ چھوڑو میری بات سنو!”اس نے میزاب کو کندهوں سے پکڑ کر بٹھایا۔”ماں باپ سے زیادہ قریبی کوئی رشتہ نہیں۔ماں باپ کو بچوں کے آنسو توڑ دیتے ہیں۔کیا تم چاہتی ہو کہ وہ اپنی اکلوتی اولاد کو روتا بكهرتا دیکھتے ہوئے ٹوٹ کر بکھر جائیں۔”
“نہیں مہرو! مگر میں کیا کروں؟”وہ کرب سے بولی۔
“وہی جو تمھارے والدین کہتے ہیں۔”
“مطلب، میں جبران کے لیے ہاں کر دوں؟”وہ اسے خفگی سے گھورنے لگی۔
“ہاں کیونکہ اسی میں ہی تمہاری بہتری ہے۔انکل، آنٹی آخر کتنے سال زندہ رہیں گے جو تم اس عمر میں ان کے دلوں کو اتنا بڑا روگ لگا رہی ہو؟”مہرین نے اسے پیار سے سمجھایا تو اس کا دل پگهل گیا تھا۔
“ہاں، شاید یہی میرا مقدر ہے۔”اس نے گہری سانس لی۔
“محبت کے بھید بھی نرالے ہوتے ہیں۔نہ جانے کس لیے آیا تھا وہ؟”وہ مہرین کی آنکھوں کو سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی۔”شاید مجھے عمر بھر کا غم دینے کے لیے۔”اس نے ہچکی لیتے ہوئے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے ڈالا تھا۔
“ابی! سمجھو وہ تھے ہی نہیں۔”
“کیسے سمجھوں؟ کاتبِ مقدر نے اسے کچھ دنوں کے لیے میرے نصیب میں لکھا تھا تو کیسے سمجھوں وہ نہیں تھا۔”وہ بلک بلک کر رونے لگی تو مہرین خاموش بیٹھی رہی تاکہ اس کے دل سے غبار ہٹ جائے۔
“اچھا بس آنسو صاف کرو! میری غلطی تھی جو میں تمھیں ایئر پورٹ لے گئی تھی۔”
” غلطی میری تھی مہرو! میں نے ایک اجنبی شخص کو آنکھیں دان کرکے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ لیا تھا۔”اس نے سسکی لی۔ “مجھے لگا تھا میرے خوابوں کی کشتی کو كنارہ مل گیا ہے!”
“بس تمھارے مقدّر میں جدائی کا یہ درد لکھا تھا۔ تبھی وہ آئے اور چلے گئے مگر ان کا چہرہ آنکھوں میں جهلملاتا ہے تو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اتنے بے حس ہوں گے۔”
“یہ جو مرد ہوتے ہیں نا مہرو! یہ بڑے سفّاک ہوتے ہیں۔ایک پل میں کہی سے آکر ہمیں ہزاروں سپنے تهما جاتے ہیں۔جب ہماری آنکھوں کے دریچے، خوابوں کے رنگوں سے مزئن ہو جاتے ہیں تو یہ بنا کچھ کہے، بنا کچھ بتائے ایسے ہماری زندگیوں سے چلے جاتے ہیں جیسے تتلی کے رنگ، کہ بس ذرا سا ہاتھ لگنے سے اُتر جائیں۔”وہ کھڑکی کی طرف بڑھ گئی تھی۔
“ہاں شائد انھوں نے دل بہلایا تھا۔”
“مگر زبان سے ہزار بار کہتے ہوئے بھی میرا یہ پاگل دل یہ بات نہیں مانتا۔”
“ہاں شاید ان کی کوئی مجبوری ہوگی۔”
“ایک بات تو بتا مہرو! بھلا مرد بھی مجبور ہوتے ہیں؟”
“ہاں مجبور ہوسکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے دُر بھائی . . . . “وہ یک دم چپ ہوئی تھی۔
“مجھ اس سے کوئی اور گلہ نہیں۔”اس نے آنسو پونچھے۔
“بس فقط چھوٹا سا شکوہ ہے کہ اپنانا نہیں تھا تو رخصت تو دے جاتا۔”وہ پهوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“بس کرو ابی!”مہرو اسے خود سے لگا کر پچکارنے لگی۔
“مہرو امّاں سے کہہ دو میں نے حامی بھر لی ہے۔”وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر واش روم میں گھس گئی تو مہرین اٹھ کر زرینہ کے پاس چلی گئی تھیں۔


جاری ہے

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,