Uncategorized

Teri Chahat Ki Dhanak by Hira Tahir Episode 6 Online Reading

وہ فجر کے لیے اٹھی تو ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔اسے بہت زیادہ سردی بھی لگ رہی تھی کیونکہ اس نے لان کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔وہ نماز پڑھ کر کچھ بادام مٹھّی میں لئے باہر نکل آئی۔

ہرسوُ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ پرندے چہچہا رہے تھے اور کوّے کائیں کائیں میں مگن۔

وہ پوڈ کے باہر بنچ پر بیٹھی کسی غیرمرئی نقطے پر نظر جمائے کل رات والی ملاقات کو یاد کرنے لگی۔

اسے لگا اس نے کل بہت بدتہذیبی سے اس سے بات کی ہے۔

دھند چھٹنے لگی تو وہ وہاں سے اٹھ کر گھنے درختوں کی طرف آئی تھی اور تب اس کی نظریں سفید شال پر رُک گئی تھیں۔پوڈ کے سامنے بنچ پر رکھی شال تو وہی تھی مگر وہ کیوں دکھائی نہیں دے رہا تھا؟

وہ پوڈ کی طرف قدم اٹھانے لگی۔

مجھے کالا رنگ پسند مگر

تجھ پہ جچتا ہے سفید پیا

وہ شال اٹھا کر خود سے بڑبڑائی۔اسے شدّید سردی لگ رہی تھی اس لیے بنا دیر لگائے وہ شال کو کندھوں پر ڈال کر ارد گرد دیکھنے لگی۔

شال سے اُٹھنے والی خوشبو اس کو دیوانہ کرنے لگی تھی۔اس نے شال کو خود سے قریب کیا تو اس پر ایک سحر سا طاری ہونے لگا تھا۔

وہ شال کا کونہ مٹھی میں پکڑے وہی پر بیٹھ گئی۔بنا یہ سوچے کہ وہ اپنا پوڈ پیچھے چھوڑ آئی ہے۔

وہ  بس آنکھیں بند کرکے اسے محسوس کرنے لگی تھی۔

لمس تیرا ہے مرمریں جانم

نیند آنے لگی ہے دھڑکن کو

اس کے لب آہستہ سے ہلنے لگے تھے۔

اسی اثناء میں دُراب آیا تو اس کے حسین سراپے کو اپنی شال میں لپٹا دیکھ کر اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔

تجھ کو پایا تو زندگی بھر

تیری راہوں میں پھول بچھاؤں گی

“مجھ سے کچھ کہا؟”دُراب کی آواز نے اسے بُری طرح چونکایا تھا۔

وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی۔

“ریلیکس! یہ میں ہوں۔”وہ آستینوں کے موڑے ہوئے کف نیچے کرکے اس کی طرف آیا تھا۔

“بیٹھ جائیں۔آپ کے کل والے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔”اس نے شائستہ لہجے میں کہا تو وہ اس کی سحر میں جھکڑتی ہوئی بیٹھ گئی تھی۔

“آپ کی تصویر میں آپ کا چہرہ نہیں آیا ہے۔”وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے چپ ہوا۔

“میں کیسے یقین کرلوں؟”وہ ہنوز شال کو اپنے گرد لپیٹے بے چینی سے بولی تھی۔

“آپ کو مجھ پر یقین کرنا ہی ہوگا کیونکہ میں جو بتانے والا ہوں اس کے بعد آپ مجھ پر شک کر ہی نہیں سکتی۔”

“اچھا تو پھر بتائیں کیا بتانا تھا؟”اب کے وہ ذرا نرمی سے بولی تھی۔

“وجاہت علی عباسی۔۔۔۔۔۔۔”وہ کچھ لمحے ٹھہر گیا۔”ایک عیش پسند انسان ہے۔وہ باہر سے دکھتا وہ نہیں ہے جو اندر سے ہے۔اسے اگر میں عیاش،آوارہ فطرت، کہوں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔میں نے اس کے خلاف بہت سے ثبوت اکھٹے کیئے ہیں مگر ابھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔”

“اور آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟”وہ درشت لہجے میں سوال کرنے لگی۔

“کیونکہ اس نے۔۔۔۔۔۔”وہ ماضی کے گرداب میں کھو گیا تھا۔

ماضی

جولائی کی گرم ترین دوپہر تھی۔چنچناتی ہوئی دھوپ در و دیوار کو بھی تانبہ بنا گئی تھی۔

وہ آج اپنے دوست کے گھر گیا تھا مگر کھیل کھیل میں اسے دیر ہوگئی تھی۔

گھڑی کو دیکھا تو سوا ایک بج رہا تھا۔وہ دوست سے رخصت لے کر گھر کی طرف دوڑنے لگا۔

سورج کی شعاعیں اس کے سر پر پڑتی ہوئیں اسے  بے حال کر رہی تھی۔ پیاس کی شدّت سے اس کا حلق خشک ہو گیا تھا۔اسے شدّت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔ماں سے بھی ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ اسے کھیلنے کے لیے بس آدھے گھنٹے کی اجازت دیتی تھی۔

خدا خدا کرکے وہ اپنے دروازے پر پہنچا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔

“کون آیا ہے امّاں؟”

وہ کھلے دروازے سے اندر چلا آیا مگر اس کی ماں اور بہن کہی دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔

“امّاں! آپا!”

وہ دونوں کو پکارتا ہوا کمرے میں گیا مگر وہ دونوں وہاں پر بھی نہیں تھیں۔

 وہ کچھ دیر سوچتا رہا مگر پھر کسی خیال کے آتے ہی چھت کی طرف لپکا۔

اس کا دل عجیب سی بے چینی محسوس کرنے لگا تھا۔وہ پھولی ہوئیں سانسوں کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔اس کا برا حال ہو رہا تھا۔

اس نے آخری سیڑھی پر قدم رکھا تو تحیّر سے اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھیں۔

چھت والے كمرے کا دروازہ بھی کھُلا ہوا تھا اور اندر سے اس کی بہن کی سسکیوں کی آواز آ رہی تھی۔

وہ دوڑ کر کمرے کی جانب آیا تو

سامنے کا منظر اس کے دل پر برچھیاں چلا گیا تھا۔

وہ ہوس کا پجاری، اس کی سولہ سالا بہن پر جھکا،شراب کے نشے میں دهت، اس کے منہ پر ہاتھ رکھے اپنے ہوس کا نشانہ بنا رہا تھا۔

وہ کسی وحشی درندے کی طرح اس کے معصوم وجود کو بھنبھوڑنا چاہتا تھا مگر وہ اس کے ظلم کرنے سے پہلے ہی آنکھیں موند چکی تھی۔

آپا!”اس نے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے اسے پکارا تو وجاہت علی نے جھٹ سے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا دُراب چیل کی طرح اس پر جهپٹا تھا۔

وہ اپنی بچاؤ کے لیے اٹھا تو دُراب اس کے بازو میں اپنے دانت گاڑھ کر اپنی بہن کو تکلیف دینے کا بدلا لینا چاہتا تھا۔

آٹھ سالہ بچے کو یہ خبر تو نہیں تھی کہ عزت کیا ہوتی ہے؟ مگر وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ اس کی آپا تکلیف میں ہے۔

وجاہت علی اپنا ہاتھ چھڑا کر اس کا گلا دبوچ چکا تھا۔

“اگر کسی سے میرا ذکر کیا تو تمہاری ماں کا بھی یہی حال کروں گا۔”وہ اسے جھٹکا دے کر جلدی سے نیچے اُترا اور منہ چھپا کر دروازے سے باہر نکل گیا کہ موسم گرما کی دوپہر تھی۔ کون سا کسی نے باہر آ کر اسے دیکھنا تھا۔

“آپا!”وہ مردہ قدموں سے اس کے پاس بیٹھ گیا۔”آپا میں آ گیا ہوں۔آپا میں پھر کھیلنے نہیں جاؤں گا۔”وہ اس کے چہرے کے سرخ نشانات پر ہاتھ پھیرنے لگا۔”امّاں ٹھیک کہتی تھیں اپنی آپا کو اکیلا نہ چھوڑنا،  یہاں چاروں طرف کتّے ہیں۔”وہ سسکنے لگا۔

“آپا آنکھیں کھول نا۔”وہ اسے خاموش پڑا دیکھ کر گھبرا گیا۔”آپا!”

اس کے چہرے پر سرخ نشانات اب گہرے سبز اور جامنی بن گئے تھے۔

“آپا مجھے جامنی اور سبز رنگ بہت پسند تھے مگر تیرے چہرے پر یہ رنگ دیکھ کر بالکل بھی اچھے نہیں لگ رہے۔اُٹھ جا نا۔”وہ اس کے ہاتھ کو اٹھا کر بولا تو اس کا ہاتھ نیچے گر گیا تھا۔

وہ چیخنے لگا تھا کیونکہ اس نے کل ہی ڈرامے میں کسی کو مرتے ہوئے دیکھا تھا۔وہ جان گیا تھا جب ہاتھ بے جان ہو کر گرتا ہے تو موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔

_____

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,