وہ اپنی آپا کی چارپائی کے ساتھ بیٹھا اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو سینہ پیٹ کر یہی کہہ رہی تھیں،”میں تو بیگم وجاہت علی کی عیادت کرنے گئی تھی۔ارے مجھے کیا پتا تھا کہ دس منٹوں میں میری بانو کو آسیب مار دے گی۔”اب وہ اپنا چہرہ مار رہی تھیں۔”کہا تھا ایک بار اس کے ابّا نے یہاں پر آسیب ہیں۔ یہاں سے چلتے ہیں مگر میں نہیں مانی تھی۔”وہ رو رو کر ہلکان ہو رہی تھیں اور دُراب کبھی ان کا چہرہ تكتا تو کبھی اپنی آپا کا۔آنسو تو جیسے اس کی آنکھوں میں منجمد ہوگئے تھے۔
مرد حضرات جنازے کی چارپائی اٹھانے کے لیے آئیں تو اس کی امّاں بے ہوش ہو چکی تھیں۔ وہ اپنی آپا کی چارپائی چھوڑ کر امّاں کی طرف لپکا تھا۔
“امّاں!”وہ جو اب تک چپ چاپ بیٹھا تھا رو پڑا۔”میری امّاں آنکھیں کھول! میں بہت اُداس ہوں۔میرا دل پھٹ رہا ہے، مجھے گلے سے لگا لے۔”وہ ان کے سینے پر سر رکھ کر چیخنے لگا تھا۔
آنسو تواتر سے اس کی آنکھوں سے گر کر اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔
میزاب نے اس کے کندهے پر ہاتھ رکھا تو وہ آنکھیں پونچھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔
“اپنی بہن کا مقروض ہوں شفق! بس اس لیے ثبوت اکھٹی کر رہا ہوں۔ جہاں تک رہی بات آپ کی تصویر کی تو اس میں آپ کا چہرہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔”اس نے سُرخ متوّرم آنکھوں سے اس کو دیکھا تھا۔
“آئی ایم سوری!”میزاب نے سر جھکا کر کہا۔
“فار واٹ؟”وہ اس کے سراپے پر نظر جمائے بیٹھا تھا۔
“فار ایوری تھنگ!”اسے اپنے پچھلے رویّے پر ندامت محسوس ہو رہی تھی۔
“مگر مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں۔”اس نے ایک گہری سانس لی۔
“تھینکس!”وہ دھیمے لہجے میں بولی
“فار واٹ؟”دُراب نے اسے اچھنبے سے دیکھا۔
“فار بریانی!”وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
“آپ کو پسند آئی؟”
“بہت مزیدار تھی۔”اس نے بہت پر زور دیا۔”اُس وقت بہت دل کر رہا تھا گھر کا بنا ہوا کھانا کھانے کو۔اللہ کتنا مہربان ہے نا۔ اس نے آپ کے ذریعے مجھ تک میرا پسندیده کھانا بھیجا۔”
“بے شک، اللہ نہایت ہی مہربان ہے بس ہم بندے ذرا ناشکرے ہیں۔”
“ذرا نہیں بہت زیادہ!”وہ ہنس دی تو اس کے گلابی گال کا بھنور سیدھا دُراب کے دل میں اتر گیا تھا۔
“ہمم! آپ کے مائنڈ میں کوئی اور سوال؟”وہ اس پر گہری نگاہیں ٹکائیں گویا ہوا تو میزاب کا سر نفی میں ہلا تھا۔اس وقت وہ نہایت ہی پیاری لگ رہی تھی۔
کائی رنگ دوپٹہ اس کے چہرے پر ایک الگ ہی نكهار لا رہا تھا اوپر سے اس کی سفید شال اسے مزید پُر وقار بنا رہی تھی۔
وہ نہ جانے کتنے لمحے اسے دیکھتا مگر درمیان میں فون کی گھنٹی حائل ہوئی تھی۔اس نے جیب سے فون نکال کر سكرین پر جگمگاتا ہوا نمبر دیکھا تو حیران ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ کر فون اٹھا لیا۔
“سلمیٰ خالہ!”وہ فون کے اس پار آواز سننے کے لیے منتظر تھا۔ آواز سنی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔
“کیا؟”وہ پوری بات سن کر تیزی سے پوڈ کے اندر گیا۔اپنا بیگ اٹھاتا ہوا باہر نکلا اور بنا پیچھے دیکھے وہاں سے چلا گیا تھا۔
میزاب پریشانی سے اس کی پشت کو تک رہی تھی مگر اس کی زبان جیسی گنگ ہو گئی ہو۔اس نے نہ اسے پکارا نہ ہی کوئی آواز دی بس چپ چاپ اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
_____