“اللہ نہ کریں کہ وہ مر جائے۔”اسے فراز کی بات سن کر بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔”میں ناؤل کے کسی کردار کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔”
“کم آن! ایک افسانوی کردار کے ساتھ اتنی وابستگی کہ اس کی موت برداشت نہیں کر سکتی؟”
“افسانوی کردار ہی تو حقیقی دُکھوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔افسانوی کردار پر ہم اس لیے نہیں روتے کہ وہ کیوں مر گیا؟ بلکہ ہم کو تو فقط رہ جانے والوں کی اذیت رُلاتی ہے۔”اس کی آنکھوں میں آنسو چمکا تھا۔
اسے دُراب پر قاتلانہ حملے کا دن یاد آیا تھا۔کتنا تڑپی تھی وہ۔کتنے دن وہ اذیّت میں رہی تھی۔
“ویل! میرا مشورہ ہے یہ ناول نہ پڑھو تم۔”یہ کہہ کر فراز اُٹھ گیا۔”ہاں ایک بات کہنا تو بھول ہی گیا میں۔آج امی آپ کی طرف آئیں گی۔”اس نے دل میں مصمّم ارادہ کرلیا تھا اسے اپنا بنانے کی۔وہ یہ بھول بیٹھا تھا کہ وہ کسی اورسے محبت کرتی ہے۔
“ارے زبردست! آنٹی کافی عرصے سے ہمارے یہاں نہیں آئی ہیں۔آپ بھی آئیے گا ان کے ساتھ۔”وہ مروتاً اسے آنے کا بولی تھی۔
“پھر کبھی سہی، آج میرا دوستوں کے ساتھ پروگرام ہے۔”وہ مسکراتے ہوئے باہر نکل گیا تو میزاب نے بوجھل دل کے ساتھ کتاب کھول دی تھی۔
“اگر فراز کی بات سچ ہوگئی؟
اگر عمر جہانگیر مر جائے؟ علیزے کیا کرے گی؟”اس نے علیزے کا سوچ کر سر نفی میں ہلا دیا تھا۔