“مگر آپ کی تو کوئی بہن ہیں ہی نہیں۔”رقیہ تعجب سے بولیں۔
“ہاں رابعہ میری سگی بہن نہیں، بلکہ چچا زاد ہے اور اس کی شادی میں نے خود اپنے دوست کے ساتھ کروائی تھی۔”وہ تحمّل سے انہیں ساری تفصیل بتانے لگے۔
“اچھا اچھا!”رقیہ بظاہر تو مسکرائی تھیں مگر ان کا دل اندر سے جیسے خالی ہو گیا تھا۔وہ فراز کی بے انتہا اسرار پر آئی تھیں۔
انہیں خود بھی میزاب پسند تھی مگر وہ چاہتی تھیں میزاب خوب پڑھ لیں تب ہی رشتہ طے ہو کیونکہ وہ انتہائی قابل طالبہ تھی۔
انہیں یہ سوچ سوچ کر ہول اٹھ رہے تھے کہ وہ میزاب کی منگنی کا فراز سے کییسے کہیں گی؟
“رقیہ بہن چائے لیں نا۔ٹھنڈی ہو رہی ہے۔”فیاض احمد نے پیالی کی طرف اشارہ کیا۔وہ بھی ان کی کیفیت جان گئے تھے۔
“جی، جی بھائی صاحب!”انہوں نے جلدی سے کپ اٹھایا تھا۔جلدی جلدی دو تین گھونٹ بھر کر وہ اٹھ گئی تھیں۔
“کیا ہوا رقیہ بہن؟”
“بھائی صاحب دیر ہو رہی ہے مجھے کہی اور بھی جانا تھا۔”وہ بہانہ بنا کر وہاں سے بھاری دل کے ساتھ نکل آئی تھیں۔فیاض احمد ان کی حالت دیکھ کر گُم سُم بیٹھ گئے۔وہ ان کے بہت پیارے دوست کی بیوہ تھیں۔
اگر میزاب کا رشتہ پہلے سے طے نہ ہوتا تو وہ ایک پل بھی نہ لگاتے ان کو ہاں کرنے میں۔ان کا اپنا دل بھی بوجهل ہو گیا تھا۔جبھی وہ اٹھ کر گھر سے باہر نکل آئے تھے۔