رقیہ گھر چلی آئیں تو فراز پہلے سے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔
“امی جان انکل نے کیا کہا؟”فراز انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔
“بیٹا وہ . . . . “رقیہ بیگم کے لب جیسے خود بخود سِل گئے تھے۔ان کے چہرے پر اُداسی چھائی ہوئی تھی۔
“کیا ہوا؟”فراز کی رنگت زرد پڑنے لگی۔”کہی انہوں نے انکار تو . . . “وہ بس اتنا کہہ کر چپ ہوا۔
“نہیں بیٹا! اگر اُس کی بات طے نہ ہوتی تو فیاض بھائی کبھی بھی تمہارے لیے انکار نہ کرتے۔”وہ ٹھہرے ہوئے انداز میں بولی تھیں۔
“ارے امی! یہ تو بچپن کی بات تھی اور ویسے بھی میزاب خوش نہیں ہے اس رشتے سے۔”ان کی بات سن کر وہ آرام سے بیٹھ گیا تھا۔”بیٹی کی رضامندی تو ضروری ہوتی ہے نا امی!”وہ مسکرا کر بولا۔
“مگر اس کا باپ راضی ہے بیٹا اور ہم لوگ جتنا پڑھ لکھ لیں شادی بیاہ کے معاملات میں بیٹیوں سے وہی پرانا رویّہ رکھتے ہیں۔”انہیں بیٹے کی نادانی پر ترس آیا تھا۔
“مگر امی!”وہ بے بسی سے ان کو دیکھنے لگا۔
“بس بیٹا صبر سے کام لو۔وہ تمہاری قسمت میں نہیں تھی۔”وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر اسے پیار سے تسلّی دیتے ہوئے سمجھانے لگیں۔”ضروری تو نہیں جو چیز ہمیں پسند ہو وہ ہمیں مل جائے۔”
“صبر کے سوا تو اب کوئی چارہ بھی نہیں۔”فراز آنکھوں میں اُترتی ہوئی نمی کو اُنگلیوں کے پوروں میں جذب کرتے ہوئے اٹھ گیا تھا۔
“ایسے نہیں کہتے بیٹا۔یہی اللہ کی رضا ہے اور اس کی رضا پر راضی رہوگے تو فلاح پاؤگے۔”رقیہ بیگم اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کمرے میں چلی گئیں تو وہ بے دلی سے گاڑی کی چابی میز سے اُٹھا کر باہر نکل گیا تھا۔