میزاب یونی ورسٹی آئی تو اس نے مہرین کے ساتھ فراز کو بات کرتے ہوئے دیکھا۔میزاب انہیں تکتے تکتے چمن میں بیٹھ گئی۔جبھی میزاب اس کی طرف آئی تھی۔
“کیا کہہ رہا تھا وہ؟”میزاب نے اس کے قریب آتے ہی سوال داغا تھا۔
“کون؟”وہ لا علمی سے بولی.
“فراز! اور کون؟”میزاب اسے مصنوعی غصّے سے گھورنے لگی۔
“اچھا سوری، مگر ایسے گھور کر تو نہ دیکھو!”مہرین نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے ورک شیٹ تھمائی تھی۔”ویسے میں نے آج محسوس کیا ہے کہ تم دونوں کے چہروں پہ ایک جیسی اُداسی ہے۔”وہ آخر میں معنی خیزی سے بولی۔
“کیا مطلب؟”اس کی بات سن کر میزاب اپنی جگہ سے اٹھ گئی تھی۔
“مطلب یہ کہ بہت اُداس تھا فراز۔بات ہی نہیں کر پا رہا تھا اور نہ ہی اس نے تمہارا ذکر کیا۔ آج پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے۔”مہرین کتاب کھول کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔”اِدھر تمہارا چہرہ زعفران بنا ہوا ہے۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔”
“تم بھی نا جاسوس ڈائجسٹ کا کوئی کردار لگ رہی ہو۔”
“بات کو مذاق میں اڑانے کی ضرورت نہیں۔”بتاؤ! تمہارے چہرے پر یہ اُداسی کے رنگ کیوں بکھرے ہوئے ہیں؟”
“اُداسی کے بھی رنگ ہوتے ہیں بھلا؟”وہ ہونق بنی اسے دیکھتی رہی۔
“ہاں ہوتے ہیں، گہرے سُرمئی اور سیاہ رنگ!”
“چلو جی یہ تو مجھے آج پتا چلا۔”
“اچھا چھوڑ یہ باتیں۔ بتا نا ایسا کیا ہوا ہے کہ تم دونوں ہی اُداس ہو؟”
“اُس کی اُداسی کی سبب تو میں جانتی ہوں مگر یہ بھی کہہ دوں کہ ہم دونوں کی اُداسی کی وجہ ایک نہیں ہے۔”وہ یہ کہہ کر کسی گہرے سوچ میں کھو گئی تھی۔
“تو بتاؤ نا کون سی وجوہات ہیں تم دونوں کی اُداسی کے۔”مہرین متجسّس لہجے میں بولی۔
“مہرو! کل میں نے بابا سے راشد کی بات کی تھی۔”وہ رُک گئی۔
“تو پھر؟”مہرین کو جاننے کی جلدی تھی۔
“پھر یہ کہ بابا نے مجھے اتنا سنایا کہ میں بتا نہیں سکتی۔”
“مثلاً کیا سنایا؟”وہ شرارت سے ہنس دی۔