“یہ سب۔۔۔ یہ سب کیا تھا؟” چند لمحوں بعد وہ تینوں باہر کھڑے تھے۔ سکتے کی کیفیت میں کھڑے جیسے ہی کچھ سنبھلے، کمالہ نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کرتے ہوۓ کہا۔ “میں سمجھ نہیں پارہا، یہ کس طرح کا وائرس ہے جو انسان ہی انسان کو کھارہا ہے۔” بختاور دیوار کے ساتھ رکوع کی حالت میں اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ اس کا تنفس تیز ہورہا تھا۔ مارے ڈر ، خوف اور وحشت کے تینوں کی سانس ایسی اکھڑی ہوئی تھی کہ کئی لمحے گزرجانے کے بعد بھی انکی آواز میں ایک کپکپی طاری رہی۔ دور کہیں سے غراہٹ کی آواز آرہی تھی۔ جب سانس تھوڑی بحال ہوئی تو تینوں اپنی اپنی جگہ ٹھٹھک گئے۔”یہ کیسی آواز ہے؟” غراہٹ کی آواز میں بتدریج اضافہ دیکھ کر کمالہ نے کہا۔ تینوں ایک دم ٹھہر سے گئے، ابھی پھولا ہوا سانس استوار نہ ہوا تھا کہ غراہٹ کی آواز نزدیک تر ہونے لگی۔ حمزہ الجھن سے تھوڑا آگے جاکر دیکھنے لگا۔ “میم یہاں رہنا سیف نہیں ہے۔ اس بلڈنگ میں وائرس پھیل چکا ہے، ہمیں جلد از جلد نکلنا ہوگا۔” وہ واپس آتے ہوۓ بولا۔ کمالہ اور بخت نے ایک دم ایک دوسرے کو دیکھا۔ “یہ کونسی ہارر مووی ہے یار؟” کمالہ کا دل کیا اپنا سر دیوار میں دے مارتی۔ کل سے لگاتار ایسے حالات چل رہے تھے کہ وہ نہ سمجھ پارہے تھے اور نہ ہی ان سے نکل پارہے تھے۔ یہ حادثات صرف ان کی ٹیم نے ہی ابھی تک دیکھے تھے، سندھ کی باقی ماندہ عوام ابھی لاعلم تھی۔ “چلو” سرد انداز میں کہتے ہوۓ اس نے آگے بڑھنا شروع کیا۔جیسے ہی وہ لوگ نیچے پہنچے، اسی جگہ پر جہاں کیشور کے اپارٹمنٹ جانے سے قبل کھڑے تھے، اس نے فون نکال کر تین چار نمبر ڈائل کرنے شروع کیے۔ آئی جی سندھ سے رابطہ تو نہ ہوسکا ہاں البتہ آدھی رات کو انکے پیون نے نیند سے خمار آلود آواز میں تین بڑی بڑی گالیوں سے ضرور نواز دیا۔ کمالہ نے فون کان سے ہٹایا اور اس ہتک آمیز لہجے پر لب بھینچ کے رہ گئی۔ آخر وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ حمزہ اور بختاور اس کے رویے سے سمجھ گئے۔ اسی لیے فون کی بابت کچھ نہ پوچھا۔”میم اب کسے کال کررہی ہیں؟” وہ ہمت ہارے بغیر دوبارہ کسی کو کال ملانے لگی لیکن اس دفعہ ان دونوں سے قدرے فاصلے پر جاکھڑی ہوئی۔”شاید ظہیر احمد کو!””وہ ایک سیکیورٹی ایجنسی چلاتے ہیں، ان کا اس کیس سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔” بختاور نے الجھن سے حمزہ کو دیکھا۔”جانتا ہوں لیکن شاید وہ کچھ کرلیں۔” حمزہ کے دل میں کہیں ایک امید جل اٹھی۔ دوسری طرف کمالہ ظہیر احمد سے کہہ رہی تھی۔”سر ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ پلیز!”