کھانے سے فارغ ہوکر تھکاوٹ کا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ راحیلہ بیگم بھی آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھنے میں مصروف ہوگئیں۔ جبکہ کیشور ابھی کچن کا کام کررہی تھی۔ اپنے کمرے کی چھوٹی سی بالکونی میں کھڑی وہ پورے چاند کی رات میں چمچماتے چاند کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ بعض اوقات ہماری زندگی میں آنے والی تکلیف ہمیں اس سے ملے درد پر تو رلاتی ہے ہی! مگر ان آنسوؤں میں کئی آنسو ماضی میں ملی تکلیفوں کے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ہم لوگ ایک وقت میں صرف ایک تکلیف پر نہیں روتے، بلکہ ایک تکلیف کی وجہ سے ماضی کی ہر اس تکلیف پر روتے ہیں جو ہم پر گزر چکی ہو۔ جو یادوں کی صورت، ایک برے خواب کی طرح، کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح ہمارے ذہن کے پردوں پر ابھرتی جاتی ہے اور ہمیں رلاتی جاتی ہے۔ آج جو کچھ بھی ہوا وہ سب تکلیف دہ تھا مگر اس وقت وہ صرف اسی چیز پر آنسو نہیں بہارہی تھی بلکہ اسے ماضی کی ہر تکلیف یاد آرہی تھی اور آنسوؤں نے ایسی روانگی پکڑی تھی جیسے سارا سمندر ان آنکھوں میں بھر آیا تھا۔”کیا محبت انسان کو رلا سکتی ہے؟” اسے ماضی میں کہا گیا شہریار کا جملہ یاد آیا۔”ہاں! جب آپ کو زندگی میں آپ کے حصے کی محبت نہ ملے تو آنسو انسان کا مقدر بن جاتے ہیں۔ کوئی ایک چیز رہ جاتی ہے۔ یا محبت یا آنسو۔۔۔” یہ جملہ اس نے اس وقت بولا تھا جب اسے ہر طرح سے یقین تھا کہ شہریار صرف اس کا تھا۔ وہ صرف اسی کے ساتھ پورے چاند کی رات دیکھتا تھا، وہ صرف اس کے ساتھ اٹھک بیٹھک کھیلتا تھا، وہ ہر کھیل اس کے ساتھ کھیلتا تھا۔ شاید اسی لیے محبت کا کھیل بھی وہ اس کے ساتھ کھیل چکا تھا۔ ایک خودترسی بھری مسکراہٹ نے اس کے لبوں چھوا۔”تمہیں پتا ہے آج ایک لڑکی کے ساتھ میری لڑائی ہوگئی۔” وہ شہریار کے پاس بیٹھی تھی اور وہ اسے نظر بھر کے دیکھ رہا۔ کمالہ شرماتے ہوۓ نظریں جھکاۓ بولی۔ “ارے ! پر کیوں؟۔” اس کے چہرے پر آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوۓ شہریار نے استفسار کیا۔ کمالہ اپنی جگہ سمٹ سی گئی۔”وہ مجھے بدعا دے رہی تھی۔” اس نے ادا سے کہا۔ شہریار کی محبت لٹاتی نظریں اسے چھوٹی عمر میں اداؤں ،نزاکتوں کا پتا دے چکی تھیں۔ اسے شرمانا لجھانا آچکا تھا۔ ہر بات پر نزاکت جھلکتی تھی۔”اور کیا بدعا دی اس نے؟۔” شہریار پرتجسس ہوا۔ “وہ کہہ رہی تھی کہ اللہ کرے شہریار سے تمہاری شادی نہ ہو۔” وہ ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کے گرد انگلی پھیرتےہوۓ بولی۔”اور تم نے کیا کہا؟” وہ اپنی انگلی کو اس کی انگلی میں جھکڑتے ہوۓ بولا تو کمالہ ایک دم سرخ پڑ گئی۔”میں نے کہا کہ۔۔۔” اس کی گرفت میں موجود اپنی انگلی کو چھڑوا کر سارا ہاتھ اس کے ہاتھ میں باہم پھنساتے ہوۓ وہ بولی “کہ شہریار صرف میرا ہے!” ہاتھ تو اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اپنی بات کہہ کر اس نے شرماتے ہوۓ اپنا سر بھی اسکی گود میں رکھ دیا۔ شہریار کا فلگ شگاف قہقہہ پوری فضا میں گونج اٹھا۔بالکونی میں کھڑے روتے ہوۓ اس کے گال آنسوؤں سے تر ہوچکے تھے۔ گزرے سالوں میں اتنی مشکلیں آئی تھیں کہ وہ محبت نامی بلا کو بھول چکی تھی۔ اگر زندگی اپنا ناچ نچواۓ تو محبت کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح پس پردہ چلی جاتی ہے اور اتنی دور چلی جاتی ہے کہ پھر اس کے نقش بھی مٹنے لگتے ہیں۔ اس کے دل پر محبت کے لگے گھاؤ نئے زخموں کی وجہ سے کب کے پس پردہ چلے گئے تھے۔ اب وہ یادیں اذیت ناک نہ لگتی تھی۔ بلکہ شاید آج اس کے سامنے اس کی محبت کا نام لیا جاتا تو وہ بالکل ایک نارمل انسان کی طرح ری ایکٹ کرتی۔ نہ اب دل کی دھڑکن بڑھتی، نہ چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھرتے۔ زندگی کے تھپڑ اتنے شدید تھے کہ اس کی محبت کے نقش پرانے زخموں کی طرح مندمل ہوچکے تھے۔ موبائل کی بیپ نے چونکایا تو اس نے چونک کر ایک گہرا سانس خارج کیا۔ پھر سکرین کو سامنے کیا تو حمزہ کولیگ لکھا آرہا تھا۔ اس نے الجھن سے کال اٹھا لی۔”خیریت تھی؟ اس وقت فون کیا؟” سلام دعا کے بعد اس نے فوراً پوچھا۔ آج جو کچھ بھی ہوا اسے یاد تھا اور اب مزید کسی فکر میں گھم نہیں ہونا چاہتی تھی۔”جی۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھ سے سوال کریں گی۔ جو کچھ آج ہوا اس کے بارے میں۔۔۔” حمزہ نے ڈرتے ڈرتے کہا تو کمالہ ایک دم سیدھی ہوئی۔”ہاں پوچھنے تو ہیں۔””کیا آپ باہر آسکتی ہیں؟ میں اس وقت آپ کے گھر کے سامنے ہوں۔” حمزہ بالکونی میں کھڑے اسے دیکھ چکا تھا۔ کمالہ ایک دم حیران سی آگے ہوئی تو اس نے ہاتھ ہلا کر اپنی طرف متوجہ کیا۔”پاگل لڑکے اتنا ضروری کام ہے جو اس وقت آٹپکے ہو؟” کمالہ کو اچھا نہ لگا تھا اس کا یوں بنا بتاۓ آجانا۔”اس وقت سے اچھا مجھے اور کوئی وقت نہیں لگا۔ میم پلیز آئی نیڈ یور ہیلپ!” حمزہ کی آواز میں ایسا کچھ تھا کہ وہ چند ثانیے چپ سی کرگئی اور شش و پنج میں پڑگئی۔”میم؟” جب چند ثانیے بعد بھی وہ نہ بولی تو حمزہ نے اس کی موجودگی کی یقین دہانی چاہی۔”اوکے میں آرہی ہوں۔” وہ اندر کمرے میں چلی آئی۔ ابھی تک صبح والے کپڑے نہ بدلے تھے۔ اس نے سوچا تھا کہ سونے سے پہلے نہا لے گی مگر چاند کی سحرطاری کرتی چاندنی کو دیکھ کر اردہ ملتوی کیا اور باہر آگئی اور انہی کپڑوں میں اس نے حمزہ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے سائیڈ ٹیبل کے پاس آکر بندوق نکالی، گولیوں کو چیک کرنے کے بعد پینٹ کی جیب میں اڑسی اور باہر نکل گئی۔_____________