نیچے آکر اس نے کیشور کو ہدایت کی کہ آج کی رات وہ ان کے ہاں ہی رک جاۓ۔ راحیلہ بیگم سے بات کرکے وہ باہر نکل گئی۔ جیسے ہی وہ گئی کیشور نے دروازہ لاک کرلیا اور واپس آکر کچن کی صفائی کرنے لگی۔ دال چاول دوپہر کو ہی بنالیے تھے۔ راحیلہ بیگم نے خشک پھلکا کھانا تھا، اس نے تھوڑی دیر بعد کے بنانے پر رکھا اور کام میں جت گئی۔ ویسے بھی ابھی ان کے کھانے کا وقت نہ ہوا تھا۔ راحیلہ بیگم اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھیں ساتھ ساتھ ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ ساتھ ساتھ کمالہ کیلئے سویٹر بن رہی تھیں۔ ٹی وی پر اس وقت کوئی انڈین سیریل چل رہا تھا۔ کب سے ایک ہی سین بار بار دہرایا جارہا تھا۔ وہی ولن کی اصلیت بتانی تھی اور ہزار بار دھم تانانا کے بعد بھی جب حقیقت بتانے کے بجاۓ شو ختم کرد یا گیا تو انکا میٹر گھوم گیا۔ وہ کب سے اصلیت جاننے کو پرتجسس ہورہی تھیں اور جب بتانے کی باری آئی تو شو ہی ختم کردیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ریموٹ اٹھایا اور جھٹ سے ٹی وی بند کردیا۔ آج طبعیت بھی تھوڑی ناساز تھی۔ نجانے کیوں لیکن ان کا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ جب سویٹر بننے میں بھی دل نہ لگا تو وہی بیٹھے بیٹھے کچن میں جھانکا۔ کیشور کپڑے سے جھاڑ پونچھ کررہی تھی۔”کیشور!” وہی بیٹھے بیٹھے انہوں نے آواز لگائی۔ کرنے کو اور کچھ تھا نہیں تو ساتھ ہی سویٹر بننا دوبارہ شروع کردیا۔”جی باجی!” ٹی وی لاؤنج اور کچن میں ایک اوپن شیلف کا فرق تھا۔ وہ باآسانی ان کی آواز سن سکتی تھی۔”پتا نہیں کیوں( انہوں نے دوبارہ سویٹر رکھ دیا اور ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیے) آج دل بہت گھبرارہا ہے۔ تم بتاؤ جب دل گھبراۓ تو کیا کرنا چاہیے؟” وہ یاسیت سے بولیں۔ ان کی باتوں سے واقعی لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ یقیناً کوئی پریشانی تھی۔ کیشور ان کی بات پر ٹھٹھکی، صافی ہاتھ میں پکڑے ، ان کی طرف والی شیلف کے قریب آئی اور کہنیاں شیلف پر رکھے قدرے جھک کر کھڑی ہوگئی اور بولی۔”پتا نہیں باجی! کبھی گھبرایا نہیں۔” راحیلہ بیگم جو سمجھی تھیں کہ وہ اس سے کوئی دل کی کرنے، ان کو بہلانے پھسلانے آئی تھی، اس کے جواب پر گھور کے رہ گئیں۔ لیکن پھر بولیں۔”پتا نہیں۔۔۔ بس دل کررہا ہے آج کی شام کا اختتام اچھا ہو، پرنور دن کی طرح۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔””باجی ڈراؤ تو نہ۔ میرے تو بچے بھی گھر ہیں اور اوپر سے کمالہ بی بی رات یہی رکنے کا کہہ گئی ہیں۔” کیشور کی بات پر انہوں نے گہرا سانس لے کر اثبات میں سر ہلادیا۔ مگر اس سے قبل کے وہ کچھ بولتیں ایک دم دروازے کی گھنٹی بجی۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اچھل پڑیں۔”اللہ توبہ! کون آگیا اس وقت؟ اللہ پوچھے اس لڑکی کو کیسی بیل لگوادی ہے۔ جاؤ ذرا دیکھو کون ہے؟” کیشور سر ہلا کر صافی کو رکھے باہر کو لپکی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ ہانپتی ہوئی واپس آئی۔ اب کہ راحیلہ بیگم واقعی گھبراگئیں۔”ارے کیا ہوا؟ ایسے رو کیوں رہی ہو؟ یا اللہ خیر!””باجی سورج کا باپ کسی سے لڑ پڑا ہے۔ جس سے لڑائی ہوئی اس نے دونوں کو مارا ہے۔ میں بس ایک دفعہ ان کو دیکھ آؤں پھر واپس آجاؤں گی۔” کہتے ہی وہ ہانپتی ہوئی کچن میں گئی۔ اپنی شال لی، چپل پہنے اور بھاگی بھاگی واپس آئی۔”ہاں پر!۔۔۔ چلو چلی جاؤ۔ کوئی بات نہیں۔ میں بھی ساتھ چلتی ہوں، دروازہ لاک کرلوں گی۔” لرزتے جسم کے ساتھ وہ باہر آئیں۔”میں بس تھوڑی دیر میں آجاتی ہوں۔ آپ پریشان مت ہونا۔ کھانا بنادیا ہے، روٹی بھی بنی ہے۔ آپ آرام سے کھانا کھالو، میں آکر برتن مانجھ لوں گی۔” دروازے کے قریب جاکر اس نے شال اوڑھی اور انہیں ہدایات کرنے لگی۔ جبکہ راحیلہ بیگم اثبات میں سرہلا کر بولیں۔”ٹھیک ہے۔ میں کرلوں گی سب۔ اب تم جاؤ دیر مت کرو۔” انہوں نے اسے رخصت کیا اور دروازہ لاک کرکے اندر آگئیں۔ ہال کے دو دروازے تھے، ایک دروازہ چھت پر تھا۔ چھت والا دروازہ تو سالوں سے لاکڈ تھا۔ نیچے والے دونوں دروازے ہوا کھانے کی غرض سے کھلے تھے، انہوں نے مارے بندے دونوں لاک کیے۔ کمروں کے دروازے بھی لاک کیے اور پھر دوبارہ ٹی وی لاؤنج میں آگئیں۔ خود کو مصروف رکھنے کی غرض سے انہوں نے دوبارہ ٹی وی لگایا اور سویٹر بننے لگی۔ اس دفعہ کوئی ڈرامہ لگانے کے بجاۓ انہوں نے خبروں پر لگادیا۔ وہ زیادہ تر خبریں دیکھتی نہ تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی انسان سو فیصد نفسیاتی مریض ہے تو اس میں سے قریباً پچاس فیصد حصہ ان نیوز چینلز کا ہوتا ہے جو چھوٹی چھوٹی بات کی بناوٹ ایسے کرکے بتاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو وہ چھوٹی بات بھی کسی پہاڑ سے کم نہیں لگتی۔
________________