کیشور گھر پہنچی تو واقعی بھونچال آیا ہوا تھا۔ ہر طرف سامان ہی سامان بکھرا تھا۔ ارد گرد کا حشر دیکھا تو سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی۔ یہ چھوٹا سا دو کمروں پر مشتمل گھر تھا اور اب گھر کی حالت یہ تھی کہ جو دو چار کرسیاں تھیں، وہ ٹوٹ چکی تھیں۔ پلنگ کی چادریں اتار کر نیچے پھینک دی گئی تھیں، جبکہ ایک پلنگ تو ٹوٹ بھی چکا تھا۔ ایک الماری جو کمالہ نے ہی دلوائی تھی اور کافی اچھی لکڑی سے بنی تھی، ایسے چورا بن گئی تھی جیسے سرمہ ہو۔ جب گھر کی وگرگوں حالت پر ماتم کرلیا تو ذہن میں ایک دم معصوم بیٹے کا خیال آیا۔ وہ تو پھول جیسا تھا۔ نجانے کیوں ایسے دیو جیسے باپ کے گھر پیدا ہوگیا تھا۔ دوسرے کمرے میں آئی تو رغو (شوہر) اوندھے منہ پڑا تھا جبکہ سورج کمرے کے بیچ و بیچ پڑا منہ سے خون کی الٹیاں کررہا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر کیشور کی چیخیں نکل گئیں۔”سورج۔۔۔ سورج میرے بیٹے! میرے راج دلارے کیا ہوگیا تمہیں؟” نیچے زمین پر بیٹھ کر کیشور نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور جیسے منتوں پر اتر آئی۔ اس کی چیخوں سے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹا رغو اٹھ گیا تھا۔ پیٹ پر خارش کرکے غسل خانے جانے کی غرض سے وہ لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوا۔ سورج اب خون اگلتے اگلتے جھٹکے کھارہا تھا۔”فکر مت کرو۔ دو محلے داروں کو کاٹ چکا ہے تمہارا بیٹا۔ جنگلی کہیں کا۔” گندے جسم پر خارش کرتے ہوۓ رغو غسل خانے جاتے جاتے بڑے طنزیہ لہجے میں بولا۔ کیشور نے زہر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔”تم مر کیوں نہیں جاتے رغو؟ میری زندگی اجیرن کردی ہے تم نے۔ میرے چاند سے بیٹے کو نجانے کس دوائی پر لگادیا ہے۔ جب سے اس نے یہ کھائی ہے، ہوش میں نہیں آیا۔” وہیں بیٹھے بیٹھے سورج کو اپنے سینے میں بھینچ کر وہ زہرخند لہجے میں بولی تو وہ جو غسل خانے کے دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اس کی بات پر رکا، غصے سے پلٹ کر اس تک آیا اور اسے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا۔ سورج کا جھٹکے کھاتا جسم زمین پر گرا کسی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔”بکواس بند کرو کمینی عورت! تم خود ذمہ دار ہو اس کی۔ میں نشئی ضرور ہوں لیکن اتنا بےغیرت نہیں ہوں کہ اپنے ہی بیٹے کو نشئی بنادوں۔ تمہارا اپنا کیا دھرا ہے یا تمہارے بیٹے کی اپنی کرتوت ہے یہ۔ مجھ پر الزام مت ڈالو ورنہ کھوپڑی توڑ دوں گا۔” جھٹکے سے اس کا منہ چھوڑا۔ اس کی باتوں میں اتنا زہر تھا کہ کیشور جیسی اوپری ذہن کی عورت نے نہ آؤ دیکھا، نہ تاؤ سیدھا اس کے منہ پر تھوک دیا۔”تم جیسے خبیث مرد بیوی کو اپنے ہر برے عمل کا زمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں!””تو رک کمینی! مجھ پر تھوکتی ہے؟” رغو نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر دیوار میں دے مارا۔ کیشور کو لگا ہر چیز سن ہوگئی ہو۔ بے یقینی سے رغو کو دیکھا جو اس کی چوٹ پر خوفزہ سا ہوگیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے سر سے بھل بھل بہتا خون پورے کمرے میں پھیلنے لگا۔ اس نے دیوار کے سہارے کھڑا رہنے کی کوشش کی لیکن آنکھوں میں چھانے والا اندھیرا اس قدر زور آور تھا کہ وہ کھڑے کھڑے سر کے بل نیچے گرگئی۔ چند ثانیے اس کی آنکھیں کھلی رہیں۔ ہوش کھونے سے پہلے جو آخری منظر اس نے دیکھا تھا۔۔۔ سورج کا جھٹکے کھاتا وجود ایک دم منجمند ہوا۔ اس کا خون بہتا ہوا سورج کے جسم کو بھگونے لگا تھا۔ کیشور کی آنکھیں چند لمحوں کیلئے بند ہوئیں۔ پھر کھلیں تو سورج کو اپنے قدموں پر کھڑے پایا، جان نکلتے جسم میں زندگی کی ایک نئی امید جاگی۔ وہ کھلتی بند ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بمشکل مسکرائی تھی۔ سورج نے ایک قدم اٹھایا، کیشور کو لگا سر پر لگی چوٹ کا درد جیسے پورے جسم میں پھیل رہا تھا۔ اس نے کراہتے ہوۓ آنکھیں بند کیں۔ دوبارہ چند لمحوں بعد آنکھیں کھلیں تو سورج بالکل اس کے سر پر کھڑا تھا۔ کیشور اس دفعہ مسکرا نہ سکی۔ آنکھیں کھولنا مشکل ہوگیا تو اس نے آہستگی سے سکون کی نیند سونا چاہا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد اسے ایسے لگا جیسے کوئی اس کے پیٹ میں زخم کررہا تھا۔ کوئی آہستگی سے اس کے پیٹ کا ایک حصہ کاٹ رہا تھا۔ درد کی شدت سے وہ پوری طرح بیہوش بھی نہ ہو پائی۔ چند ثانیے مزید گزرے۔ اس بار آنکھیں کھولنے پر جو منظر دیکھنے کو ملا، وہ اس کے جسم سے رہی سہی ہمت بھی نکال گیا۔ اس کا راج دلارا سورج اس کے پاس بیٹھا اس کے پیٹ میں منہ دئیے اس کا گوشت کھا رہا تھا۔ کیشور کی آنکھیں خوف سے پھٹنے کو ہوگئیں۔ ہاتھوں پیروں کو حرکت دینی چاہی لیکن جسم میں اتنی سکت نہ تھی۔ سب بے سود تھا۔ سورج اسے اس وقت کوئی بچہ نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کا رنگ بدل چکا تھا، باریک باریک نسیں یوں ظاہر ہورہی تھیں جیسے ہاتھ سے پینٹ کیا ہو۔ وہ اس وقت ایک خوفناک درندہ لگ رہا تھا جس کی بھوک انسانی گوشت تھی، انسانی خون تھا۔ تھوڑی دیر گزری تھی جب رغو باہر کی خاک چھان کر گھر واپس آگیا۔ لیکن گھر میں سامنے دکھنے والا منظر ایسا تھا کہ ایک دم اس کے نشے کا سارا اثر زائل ہوگیا۔ آنکھیں پھاڑے اس نے سامنے کا منظر دیکھا۔ کیشور بے سدھ پڑی تھی اور سورج۔۔۔ وہ اپنی ماں کے پیٹ پر جھکا اسے نوچ رہا تھا۔”اوۓ پاگل کہیں کے! کس کتے نے کاٹ لیا ہے تجھے، سبھی کو کھاۓ جارہا ہے۔” آگے بڑھتے ہوۓ رغو نے اس کے سر کے بالوں سے پکڑ کر الگ کیا۔ اس کے منہ سے بہتے خون اور کیشور کے پیٹ کو دیکھ کر رغو کو بے اختیار قے آگئی۔ مگر اس سے قبل ہی سورج آگ بگولہ ہوا آگے بڑھا اور باپ کی گردن میں دانت گاڑھ دئیے۔
______________