Uncategorized

The Last Night by Zainab Nasar Khan Episode 07

حمزہ اور بختاور دونوں ایک ہی کالج سے تھے اور دونوں نے ایک ہی فیلڈ جوائن کی تھی۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ کالج میں ایک دوسرے کو بہت کم جانتے تھے۔ بڑی مشکل سے کبھی ایک دوسرے پر نظر پڑتی۔ مگر جیسے ہی اس فیلڈ میں آۓ تو یاد آیا کہ ان دونوں کا کالج اور بیج ایک ہی تھا۔ سیکشن الگ الگ تھے جس کی وجہ سے بہت کم ایک دوسرے سے سامنا ہوتا۔ کمالہ حمزہ کے بارے میں جتنا جانتی تھی، اس حساب سے وہ اس پر یقین کرسکتی تھی۔ وہ ایک غیرت مند مرد تھا۔ عِزہ اور اس کی پسند کی منگنی ہوچکی تھی۔ اگرچہ وہ عِزہ کو پسند کرتا تھا یا نہیں، کبھی برملا اس نے اپنے جذبات کا اظہار نہ کیا جس سے اس کے دلی احساسات سے متعلق وہ لوگ جان پاتے۔ عِزہ نے ہی اس سے بات کی۔ اس نے رضامندی دی تو ایک چھوٹی سی تقریب کرکے منگنی کردی گئی۔ کمالہ حمزہ کی پسند نا پسند کے حوالے سے آگاہ تو نہیں تھی مگر وہ ایک سمجھدار انسان تھا۔ لہٰذا ہر وسوسے کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کے بعد وہ گاڑی میں آکر اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھی۔ سارا راستہ ان کے درمیان محض چند مکالموں کا ہی تبادلہ ہوا۔ قریباً پینتالیس منٹ کی مسافت کے بعد ان کی گاڑی ایک پرانی کالونی کے سامنے آرکی۔ کمالہ نیچے اتری تو سامنے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ وہ اکثر اوقات کیشور کو چھوڑنے وہاں آتی تھی۔”یہ تو۔۔۔” اس نے الجھن سے حمزہ کو دیکھا۔ جس نے اس کے دیکھنے پر سر ہلایا اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوۓ آگے بڑھ گیا۔ کمالہ گہرا سانس لیتی اس کے پیچھے ہولی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ ایک اپارٹمنٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ اس اپارٹمنٹ کی حالت پوری کالونی سے قدرے بہتر تھی۔ سارا گھر صاف ستھرا تھا۔ ہر چیز ڈیزائنڈ تو نہ تھی مگر نفاست کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ حمزہ کی پیروی میں وہ اس کے پیچھے ہال تک آئی۔ وہ اسے ایک چھوٹے سے ٹی وی لاؤنج میں لے آیا۔ کمالہ اسے دیکھتے ہوۓ ایک سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ حمزہ فوراً ایک طرف بنے چھوٹے سے کچن کی طرف بھاگا اور وہاں سے ایک گلاس بھر کر پانی لے آیا۔”تمہیں لگتا ہے میں رات کے دس بجے یہاں پانی پینے آئی ہوں؟” اسے پانی کا گلاس لاتے دیکھ کر کمالہ نے غصے سے کہا۔ حمزہ اپنی جگہ شرمندہ سا ہوگیا۔ پھر سرہلا کر فوراً گلاس میز پر رکھا اور ایک کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ چند منٹ بعد وہ واپس آیا تو کمالہ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔”آئیں میم!” سارا دروازہ کھول کر پردے پیچھے کیے اور پھر کمالہ کو اندر آنے کو کہا۔ ایک پل کو وہ اندر تک سکڑی۔ اس دور میں کسی پر یقین کرلینا آسان بات نہیں تھی۔ بظاہر سر ہلاکر اس نے نامحسوس انداز میں اپنی ریوالور کی موجودگی کا احساس کیا اور اندر کی طرف قدم بڑھاۓ۔کمرے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوۓ اس کی نظر بے اختیار بیڈ سے ہوتی ہوئی صوفے پر گئی۔ کمرے میں دو نفوس سورہے تھے۔ ایک بیڈ پر تھا جس کا چہرہ تک ڈھکا ہوا تھا جبکہ دوسرا وجود صوفے پر تھا۔ اس نے ذرا توجہ سے دیکھا تو ایک دم حیران رہ گئی۔ صوفے پر بختاور سورہا تھا۔”یہ یہاں کیا کررہا ہے؟” اس نے بے اختیار حمزہ کو دیکھا۔”مجھے سیکیور کرنے آیا ہے۔ ” حمزہ بے چارگی سے اسے دیکھ کر بولا۔”سیکیور؟” کمالہ کو الجھن ہوئی۔ حمزہ اس کے چہرے پر رقم الجھن کو دیکھ چکا تھا، اسی لیے بیڈ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ ناسمجھی سے آگے بڑھی اور لیٹے ہوۓ وجود سے چادر ہٹائی۔ مگر جیسے ہی اس نے چادر سرکائی بے اختیار دو قدم پیچھے ہوئی، اس کی دبی دبی چیخ نکل گئی۔ حیرت و بے یقینی سے حمزہ کی طرف دیکھا جو بے بسی کی تصویر بنا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے لیے ہال میں آگیا۔ بختاور بھی اٹھ چکا تھا، فوراً انکی طرف آیا۔”یہ سب کیسے ہوا؟ اور تم نے آنٹی کو کسی ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیوں نہیں کروایا؟” اسے ابھی تک یقین نہیں ہو پارہا تھا۔”آپ جانتی ہیں آپی۔۔۔” لفظ آپی پر اس نے بےاختیار کمالہ کو دیکھا جیسے اجازت چاہ رہا ہو۔ اس کے یوں دیکھنے پر کمالہ نے سرہلایا۔ “پاکستان کا قانون ایسا نہیں ہے کہ میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا اپنی ماں کو ہسپتال داخل کرواؤں جس کی ابھی تک کوئی ویکسین سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ لوگ جب کسی بیماری کی تشخیص نہ کرسکیں تو مریض کو کوئی ایسی دوائی دے دیتے ہیں جس کے تحت مریض چند گھنٹوں میں ہی مرجاتا ہے۔ آپ بتائیں کیا کرتا ایسے حالات میں؟” اس نے بے بسی سے کمالہ کو دیکھا۔ بختاور نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ تسلی دی۔”لیکن یہ سب ہوا کیسے؟” اس نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔ حمزہ کی والدہ کا بیڈ سے بندھا ہوا وجود اس کے ذہن سے نکل ہی نہ رہا تھا۔”ہم لوگ ادھر سے شفٹ کرچکے ہیں۔ کافی مہینے ہوچکے ہیں اب تو۔ لیکن اماں کی زندگی کے پچاس سال اس کالونی میں گزرے ہیں۔ وہ اس کالونی کی پہلی کرایہ دار تھیں۔ یہی سمجھ لیں انہوں نے اس عمارت کو بنتے ہوۓ بھی دیکھا اور بگڑتے ہوۓ بھی۔ جیسے ہی میری نوکری لگی تو مجھے ڈیفینس میں شفٹ کرنا پڑا جہاں سے آفیس نزدیک ہوتا۔ ہم لوگ کچھ ماہ پہلے ہی وہاں شفٹ ہوۓ مگر اماں۔۔۔” وہ اپنی بات کہتا کہتا رکا۔ “اماں کبھی اس جگہ سے الگ نہیں ہوپائیں۔ اس لیے ہر منگل یہاں میرے ساتھ آتیں اور اپنے سبھی پرانے محلے داروں کے درمیان کچھ نا کچھ بنا کر بانٹتیں۔”

_______________

Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,