سورج نے فوراً نوالہ منہ میں لے لیا۔ دوسری طرف کیشور کچن میں ہر کیبنٹ چھان چکی تھی۔ کوئی ڈبہ بھی نہ مل کے دے رہا تھا۔ڈبہ مزید تلاش کرنے کا ارادہ ملتوی کرکے اس نے تنگ آکر ایک پلیٹ اٹھائی، ساتھ چھابہ لے کر بڑبڑاتی باہر آگئی۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر چھوٹے سے بنے صحن میں آئی تو اس کے ہاتھ میں پکڑے برتن زمین بوس ہوگئے اور اس کی فلگ شگاف چیخ نے اندر آتے حمزہ کو لرزا دیا۔ وہ بھاگتا ہوا اندر آیا لیکن ماں کو زمین پر تڑپتے ہوۓ دیکھ کر اسے لگا جیسے زمین آسمان ایک دم اس کے اردگرد گھومنے لگے ہو۔ ہر چیز کسی فلمی سین کی طرح سلو موش میں چلنے لگی، ہر طرف سکوت طاری ہوگیا۔ محض سکینہ اقبال کا خون سے لت پت، جھٹکے کھاتا وجود رہ گیا۔ کیشور اور حمزہ کی رنگت لٹھے کی مانند سفید پڑ چکی تھی۔ تھوک نگلتے ہوۓ وہ آگے بڑھا اور اپنی ماں کی گردن سے بھل بھل بہتا خون خشک کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک دم اس کی نظر پاس بیٹھے بچے پڑی جس کا سارا جبڑہ خون سے لتھڑا ہوا تھا۔ حمزہ کو اس وقت وہ کوئی معصوم بچہ نہیں بلکہ ایک درندہ لگا تھا جس نے اس کی ماں کو یوں تکلیف میں ڈالا تھا۔ وہ اس کی طرف بڑھنے لگا کہ کیشور ایک دم اس کے سامنے آئی۔”اسے کچھ مت کہنا۔ یہ میرا بیٹا ہے، اسے معاف کردو۔ تمہیں تمہارے اللہ کا واسطہ ہے میرے بیٹے کو معاف کردو۔ اس کے ساتھ کسی نے یہ سب جان بوجھ کر کیا ہے۔ ایک بچے سے بدلہ مت لو۔ یہ دیکھو میرے ہاتھ اسے معاف کردو۔” وہ روتے ہوۓ اس کے سامنے گڑ گڑائی تھی۔ حمزہ کا دل کیا ہر چیز کو تہس نہس کردے مگر ضبط کرگیا۔ پھر ماں کو اٹھا کر ہسپتال لے کر گیا۔ لیکن وہاں ایک اور اذیت ناک لمحہ اس کے انتظار میں تھا۔ وہ دوائیوں کا شاپر لیے کمرے کی طرف آیا تو ڈاکٹرز کی آواز پر وہی ڈھیر سا ہوگیا۔”آج شام ان کے بازو کا آپریشن کریں گے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ آپریشن سے بھی کوئی فرق پڑے گا۔” کسی فی میل ڈاکٹر کی آواز تھی۔”تو نہیں کرتے آپریشن۔ اس سے اچھا ہے اسے گھر بھیج دیتے ہیں۔””پاگل ہو تم بھی! پیسے کمانے ہیں کہ نہیں؟ زیادہ چانسز ہیں کہ یہ آپریشن سے سروائیو ہی نہیں کرپاۓ گی۔ کیونکہ انفیکشن انکے اندر پھیل چکا ہے، اور اوپر سے غنودگی نہیں ٹوٹ رہی، اس لیے فکر مت کرو۔”اندر کھڑے ڈاکٹروں کی بات پر وہ ساکت رہ گیا۔ ہوش تو اس وقت آیا جب کسی نے کندھے پر تھپکی دی۔ وہ سرخ آنکھیں لیے مڑا تو سامنے ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ شاید وہ وہاں کی سویپر تھیں، سفید وردی پہنے، ہاتھ میں وائپر لیے وہ کھوجتی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔”تمہاری ماں کو ریبیز جیسی بیماری ہے۔ لیکن وہ ریبیز نہیں ہے۔ صرف چند احتیاطی تدابیر کرو اور انہیں گھر لے جاؤ۔” وہ خود بھی شاید ان لوگوں کی اصلیت جانتی تھیں۔”کیسی تدابیر؟” آنسو صاف کرتے ہوۓ وہ بولا۔”کوشش کرنا ان کے سامنے زیادہ اونچا مت بولنا۔ اگر یہ تمہیں کاٹنے کی یا کھروچ پہچانے کی کوشش کریں تو یقینی طور پر بچنا۔ کسی صحت مند انسان کا خون نہیں بہنے دینا ان کے قریب۔ اس کی ساری علامات ریبیز والی ہیں مگر یہ ریبیز نہیں ہے۔ یہ کچھ اور ہے۔ اس سے قبل ایک عورت اپنے بیٹے کو لائی تھی یہاں۔ اسے نشے کی ڈوز دے کر چلتا کیا تھا ان لوگوں نے۔” اس عورت کی ہدایات پر سرہلا کر اس نے ڈاکٹر کی پھر ایک نہ سنی اور جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے اپنا کارڈ دکھا کر کام چلا لیا۔ پھر سبھی اس سے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور اس کی ماں کو بنا آپریشن کیے ہی ڈسچارج کردیا۔
______________