“ٹھیک ہے۔ جو لوگ انفیکٹڈ ہیں انہیں تین سے چار اپارٹمنٹ میں بند کرتے ہیں۔ اگر وہ لوگ صرف علامات ہی ظاہر کررہے ہیں اور ابھی تک کسی کو کاٹنے کی کوشش نہیں کی تو ہوسکتا ہے وہ لوگ ہماری بات مان جائیں۔ اور جن لوگوں کو انفیکشن نہیں ہے، انہیں دوسرے اپارٹمنٹس میں شفٹ کرتے ہیں جہاں پر وہ لوگ محفوظ رہ سکیں۔” اس کے کہنے کی دیر تھی کہ حمزہ اور بختاور نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ کمالہ ان کی نظروں کا تبادلہ دیکھ چکی تھی۔ ایک دم ٹھہرتے ہوۓ بولی۔ “ڈونٹ ٹیل می! کیا تم لوگ انہیں شفٹ کرچکے ہو؟” اس نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔ دونوں نے دوبارہ سرجھکا دئیے۔”تو پھر مجھے بلانے کی کیا ضرورت تھی جب خود ہی سب کچھ سیٹل کرچکے ہو۔” اسے اچھی خاصی تپ چڑھ گئی ۔”میم یہ مریض کی صحت پر ڈیپنڈ ہوتا ہے۔ اگر اس کا نضام انہضام مضبوط ہے تو وہ کئی گھنٹوں تک اپنے اوپر کنٹرول رکھ سکتا ہے۔ غالباً یہ پراسیس سترہ گھنٹوں تک بھی ہوسکتا ہے اور سات منٹ تک بھی۔ جیسے ہی ان کا اپنے اوپر سے کنٹرول ختم ہوا اور ایک دفعہ وہ لوگ انسانی خون کا ذائقہ چکھ لیں تو پھر ان کی پیاس بڑھتی رہتی ہے۔ اس کے بعد ان پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔” اس دفعہ حمزہ کے بجاۓ بختاور نے ساری تفصیل دی تو کمالہ نے افسوس بھری نظر سے دونوں کو دیکھا۔