The last nightZainab nasar khan
___________
وہ دونوں واپس کمرے میں آۓ تو کمالہ کی غیر موجودگی پر دونوں کے ہی دماغ جیسے ماؤف ہونے لگے۔ پورے کمرے کا ایک ایک کونا چھان مارا لیکن وہ کہیں نہیں تھی۔”آخر وہ کہاں گئی ہیں؟ وہ اتنی غیر ذمہ دار تو نہیں تھیں جو ایسے ہی منہ اٹھا کر نکل پڑتیں۔ بتاؤ کہاں گئی وہ؟” بختاور نے آگے بڑھ کر جنید کا گریبان جنھجوڑتے ہوۓ پوچھا۔ جبکہ روحان پیچھے کھڑا پیشانی مل رہا تھا۔”بکواس بند کرو۔ اور خبردار اسے کچھ کہا تو۔ وہ جہاں بھی گئی ہے اپنی مرضی سے گئی ہے۔ ہم لوگ تو اس وقت سورہے تھے، ہمیں نہیں پتا۔” رملہ نے آگے بڑھ کر جنید کا گریبان اس کی گرفت سے آزاد کروایا۔ روحان بھی آگے بڑھا۔”پرسکون رہو بخت۔ وہ مل جاۓ گی۔” کچھ سوچتے ہوۓ اس نے کہا تو جنید اور رملہ نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ ان دونوں کی آنکھوں میں چھپا خوف اور چوری کا تاثر وہ اچھے سے پڑھ چکا تھا۔ بختاور کو ٹھنڈا کرتے ہوۓ وہ ایک طرف لے گیا۔ وہ روہا تھا۔ بائیس تئیس سال کا وہ لڑکا جس کیلیے کمالہ ہاشم کسی قیمتی مطاع سے کم نہ تھی وہ اس کے گم ہونے پر رو بھی رہا تھا اور پاگل بھی ہورہا تھا۔ وہ جانتا تھا ابھی تک وائرس اسے اپنی لپیٹ میں نہ لے سکا تھا، اس پر دوبارہ سے حملہ ہوسکتا تھا اور اگر اس دفعہ ایسے ہوتا تو شاید اس کی بوٹیاں بھی انہیں نہ ملتی۔”فکر مت کرو یار! وہ نزدیک ہی کہیں ہوگی۔ میں اسے لے کر آؤں گا۔ ہمت کرو۔” اس نے روتے ہوۓ بختاور کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ ایک عزم سے کہا۔ پھر گہرا سانس بھر کر سرنیچے جھکا دیا اور کچھ سوچنے لگا۔ بخت ہنوز پاگلوں کی طرح سر ہاتھوں میں گراۓ رورہا تھا۔ روحان اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر کڑھ کے رہ گیا۔ بخت کی وہ دنیا تھی، اس کا سب کچھ۔ وہ لڑکی اس کی بہن تھی۔ اس کے گم ہونے پر بخت کا یہ حال تھا کہ وہ پاگلوں کی طرح رو رہا تھا۔ اور اس کا کیا تھا جو دل کے ہاتھوں مجبور تھا، جس کے دل میں وہ لڑکی رچ بس گئی تھی۔ کوئی اس کے دل کا حال نہیں جانتا تھا جہاں اس وقت غصہ، ابال اور جنوں حد سے بڑھ رہا تھا۔ اس کا دل کررہا تھا کہ ائیرپورٹ کی ہر چیز تہس نہس کردیتا۔ایک دم نجانے اسے کیا ہوا کہ روتے کرلاتے بخت کو وہیں چھوڑ کر اٹھا اور آگے بڑھ کر بغیر کوئی لحاظ رکھے جنید کے منہ پر تین سے چار مکے جڑ دئیے۔ اس کے سخت اور بڑے بڑے ہاتھوں کے مکے کسی ہتھوڑے کی طرح جنید کے چہرے سے خون نکال چکے تھے۔”بتاؤ کہاں گئی ہے وہ؟ اگر سچ نہ بتایا تو ابھی اور اسی وقت تمہیں ان درندوں کے سامنے پیش کروں گا۔ ان کی ڈرنک تو آلریڈی تیار کرچکا ہوں۔” اس وقت روحان کی آنکھوں میں غصہ اور آنسو تھے، جبکہ چہرے سے ایسی وحشت ٹپک رہی تھی جیسے واقعی وہ جو کہہ رہا تھا، کر گزرنے والا تھا۔رملہ ایک طرف جاکر دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ ۔۔۔۔۔ اسے جنید کا خون سے لت پت چہرہ دیکھ کر چکر آرہے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اندر کوئی وحشی درندہ سر ابھار رہا تھا۔”م میں۔۔۔ میں نہیں جانتا۔ وہ خود اپنی مرضی سے۔۔۔” چوتھا مکا اس کے پیٹ میں پڑا۔ خالی پیٹ میں پہلے ہی ہول اٹھ رہے تھے، اوپر سے اس قدر بھاری مکا کھا کر اسے لگا جیسے آنتیں منہ کے راستے باہر نکلنے کو آگئی ہو۔ رملہ کا پورا وجود چونٹیوں کی سرسراہٹ سے بھر رہا تھا۔ وہ وہی اپنے آپ میں سمٹ کر بیٹھتی گئی۔ اس سے پہلے کہ روحان اسے پانچواں مکا مار کے جان سے ہی مار دیتا اس سے قبل ہی وہ بول پڑا۔”وہ وہیں گئی ہیں جہاں سے ہم لوگ آۓ تھے۔” اس نے بڑی تیزی سے کہہ کر اس کا اٹھنے والا ہاتھ روکا۔ بخت اور وہ دونوں ہی چونکے اور ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔ پھر روحان جنید کو وہی گرا کر خود باہر کی طرف بھاگا۔ بخت بھی فوراً اس کے پیچھے لپکا۔ وہ دونوں ہی رملہ کی حالت نہ دیکھ سکے تھے۔ جو اپنے آپ میں سکڑتی جارہی تھی۔ سٹائلش سے کپڑے پہنے وہ لڑکی انتہا کی خوبصورت تھی۔ پیسٹل رنگوں کا امتزاج پہنے ، اوپر سادہ سے سٹالر کے ساتھ حجاب لیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی آج۔ مگر اس وقت اس کی حالت بہت ابتر ہوچکی تھی۔ جسم کا ایک ایک حصہ شل ہوتا جارہا تھا۔ اس شل ہوتے وجود کے ساتھ اس نے اپنے ذہن پر زور دیا تو احساس ہوا کہ جب وہ اپنی ماں کے اوپر گری ان سے اٹھنے کی التجا کررہی تھی، اس وقت اس نے ایک دفعہ ان کے ہاتھوں کو پکڑا تھا اور اس دوران ان کے جسم میں ایک جھٹکا سا لگا تھا۔ شاید اس وقت کہیں اسے کھروچ آئی تھی، یا اس سے بھی قبل جب کمرے میں ان کا شوگر لیول لو ہوا تھا اس وقت رملہ کا ہاتھ انہوں نے بہت زور سے پکڑا تھا۔ یہاں تک کہ اسے اپنے ہاتھ پر کوئی کانٹا سا چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ کئی ثانیے یونہی گزر گئے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے جسم نے ایک ان دیکھی سی خوشبو کو سونگھا، ایک دم اسنے آسمان کی طرف دیکھا، اور ایک فلک شگاف چیخ ماری۔ پورا ائیرپورٹ اس چیخ سے لرز اٹھا تھا۔ بخت اور روحان اندھیر راہداری میں جاتے ہوۓ اس کی چیخ پر بوکھلا سے گئے۔ وہ لوگ اس وقت اسی راہداری میں آچکے تھے جہاں سے تھوڑی دیر قبل وہ نکلے تھے۔ لیکن یہاں کہیں بھی کمالہ کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ وہ دونوں پاگلوں کی طرح اردگرد اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ پوری راہداری خالی پڑی ہوئی تھی۔ لیکن ہولناک اندھیرا ایسا تھا کہ وہ دونوں اندر ہی اندر ڈر بھی رہے تھے۔ راہداری سے نکل کر وہ لابی کی طرز پر بنی ہوئی جگہ پر آۓ یہاں بھی کوئی نظر نہ آیا۔ پھر ایک دم کوئی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ دونوں نے چونک کر اس سمت دیکھا۔ آواز ریسٹ روم کی طرف سے آئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ان کے سامنے تھی۔ بڑی آہستگی سے چل کر وہ باہر آرہی تھی۔ ان دونوں کو اپنے سامنے کھڑے دیکھا تو ایک دم تنے اعصاب ڈھیلے پڑے، گہرا سانس بھرتے ہوۓ اس کی آنکھوں سے کئی آنسو نکل کر سفید ماربل پر جاگرے۔ روحان کو لگا جیسے کئی دنوں کی تھکاوٹ اپنے سامنے موجود خستہ حالت وجوو کو دیکھ کر ختم ہوگئی ہو۔ وہ دونوں ہی دیوانہ وار آگے بڑھے ، لیکن کمالہ ان سے دو قدم پیچھے ہٹی۔ روحان اور بخت کے چلتے قدم وہی رکے۔ دونوں نے بے اختیار اس کے وجود پر نظر ڈالی۔ بالوں کی اجڑی ہوئی حالت، منہ پر خون کے نشانات، ہاتھوں پر جگہ جگہ لگا ہوا خون۔۔۔ بخت نے بے اختیار تھوک نگلا۔”سس۔۔۔ سر!” اس نے ڈرتے ہوۓ اسے پکارا۔ جبکہ روحان ہنوز اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس وقت کسی ہارے ہوۓ جواری کی طرح لگ رہا تھا۔