جس نے اسے سر اثبات میں ہلا کر جانے کی رضا مندی دے دی۔”تھینک یو سو مچ مس کمالہ ہاشم! اب آپ کا کام ختم اور ہمارا شروع” وہ اٹھ کھڑے ہوۓ۔ کمالہ بھی فوراً اٹھی۔”ویلکم سر!” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔”ویلڈن۔ مس؟” جیسے ہی اصوب اور عِزہ گئے، آغا بخش جو کب سے ہنوز خاموش بیٹھے تھے، فوراً بولے۔”کمالہ۔۔۔ کمالہ ہاشم حسین!” اس کا نام قدرے عجیب تھا۔ جو بھی سنتا تین چار دفعہ دہرانے پر ہی اسے یاد ہوتا۔”اوکے مس کمالہ! اب ذرا اپنے وی آئی پی پر توجہ دیں اور وقت سے بیشتر ائیرپورٹ کیلیے روانہ ہونے کی تیاری کریں۔”جی سر!” اس نے آغا حیدر بخش کی بات پر نرم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور پھر روحان کی طرف متوجہ ہوئی۔”سر مزید کوئی سوال آپ کرنا چاہیں؟” انداز پروفیشنل تھا۔ روحان نے ایک مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور نفی میں سر ہلادیا۔”اوکے افسران ! آپ لوگ آج کی رات ریسٹ کرلیں۔ کل صبح نوبجے سے آپ کی ڈیوٹی شروع ہوجاۓ گی۔ اس لیے اپنا کام سمیٹیں اور اس مشن کیلیے اپنی جان لگا دیں۔” ظہیر احمد کی آواز پر سبھی چوکنا ہوۓ اور اپنی اپنی چیزیں سمیٹنے لگے۔ آغا بخش واپسی کیلیے مڑگئے۔ روحان بھی آہستگی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے اصوب سے ملنا تھا۔ جو حالات چل رہے تھے مزید کب، کہاں، کیسے کووڈ کی طرح قید ہوجاتے کوئی علم نہ تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ ایک ایک کرکے وہاں سے نکل گئے۔ انہیں گئے قریباً دو گھنٹے ہوچکے تھے۔ جب ظہیر احمد آغا بخش کو لیے اپنے آفس میں آۓ اور دو کافی منگوائیں۔ شاید وہ آٹھ بجے والی ویڈیو کال میٹنگ کی وجہ سے وہی رک گئے تھے۔______________