Uncategorized

The Last Night By Zainab Nasar Khan Episode#8

ایسا نہیں تھا کہ مذاق بڑا گہرا تھا یا کوئی دنیا سے الگ بات کہی گئی تھی، لیکن دوست یاروں کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہر پل ہی ہنسنے اور کھلکھلانے پر مجبور کرتا ہے۔ کچھ نوکری ایسی سخت تھی کہ انکی جگتیں بھی سڑی ہوئی ہی نکلتی۔ وہ تینوں قریباً پچھلے پانچ سالوں سے ایک دوسرے کی کولیگز تھیں اور اس دوران ان کی دوستی اس قدر پختہ ہوچکی تھی کہ چند پل ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی ایسی ہنسی چھوٹتی کہ کنٹرول ہی نہ ہوتی۔ دوست سچے اور مخلص ہوں تو بات بے بات قہقہے گونجتے ہیں ۔ ان دونوں کو ہنستا ہوا دیکھ کر کمالہ نے بے اختیار شکر ادا کیا۔ اسے دوست مخلص ملے تھے۔ ایک کا نام درِفشاں تھا جبکہ دوسری کا نام عِزہ رئیس تھا۔ دونوں ہی اچھے خاندان سے تھیں۔ اس فیلڈ کو جوائن کرنے کی وجہ ان کی بھی یہی تھی کہ وہ خود سروسز میں آنا چاہتی تھیں۔ ایک کا خواب تھا تو دوسری اپنے نام کی طرح دل کی رئیس تھی۔ اس لیے صرف درِفشاں کا ساتھ دینے کی وجہ سے وہ بھی آگئی، وگرنہ اسے ضرورت نہ تھی۔ یہاں آنے کے بعد ان کی دوستی کمالہ ہاشم جیسی کم گو لڑکی سے ہوئی جسے ان دونوں نے آہستہ آہستہ بولنے کی عادت ڈال دی اور اب وہ تینوں پورے آفس کیلیے سردرد بن جاتی تھیں۔ لفٹ کھلی تو ان کے مسکراتے چہرے ایک دم سپاٹ ہوۓ اور تینوں آگے پیچھے میٹنگ ہال کی طرف بڑھ گئیں۔ سب سے آگے عِزہ رئیس تھی۔ جس نے ڈھیلے ڈھالے پینٹ قمیض پر جیکٹ پہن رکھی تھی۔ بھورے بال ایک کان کے پیچھے اڑسے تھے جبکہ دوسری طرف سے آگے آرہے تھے۔ اس کے پیچھے درِفشاں تھی۔ سیاہ پلین سوٹ کے اوپر ہلکے نیلے رنگ کی بلیزر پہنی ہوئی تھی۔ آخر میں کمال ہاشم آئی تھی۔ جس نے ڈھیلا سا ٹریک سوٹ پہنا ہوا تھا۔ الجھے ہوۓ بھورے لمبے بالوں کو پونی میں قید کرکے فائل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ ہال میں چند افسران تھے۔ سبھی نے گھریلو کپڑے پہنے ہوۓ تھے۔ چونکہ ہنگامی میٹنگ کی وجہ سے کوئی بھی نک سک تیار نہ ہو سکا تھا، اسی لیے کوئی بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران نہ ہوا ۔ ایسی میٹنگز اکثر منعقد کی جاتی تھیں۔ وہ تینوں اپنی اپنی سیٹس پر آکر بیٹھ گئیں۔ کمالہ جو فائل لائی تھی، سامنے رکھ کر اس کے صفحے الٹ پلٹ پر دیکھنے لگی۔ ساتھ ہی پاس پڑی پانی کی بوتل اٹھائی، ڈھکن کھول کر تین چار گھونٹ خلق سے اتارے۔ آج دل کو عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔ وجود پر کپکپی سی طاری ہورہی تھی۔ بیتے آٹھ سالوں میں اکثر دل بے چین ہوجاتا تھا۔ لہٰذا اس نے پینک کرنے سے گریز ہی کیا۔ اگر زیادہ حاوی کرتی تو شاید طبعیت بگڑ جاتی۔ اس نے دل میں شہریار کو ہزار کوسنے دئیے۔ اسی کی وجہ سے اسکی طبعیت بگڑ رہی تھی۔ عِزہ اس کی بے چینی نوٹ کرچکی تھی۔ اس کے کپکپاتے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ کمالہ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔”ریلیکس! ڈونٹ گیٹ پینک۔” عِزہ نے دھیمی آواز میں اسے تسلی دی۔ کمالہ بھی جانتی تھی کہ یہ کیفیت دیر پا نہ تھی کیونکہ پینک زیادہ سیریس نہ تھا۔ تھوڑی دیر گزری تو دروازہ کھول کر چئیرمین سی ٹی ڈی ہال میں داخل ہوۓ۔ سبھی اپنی اپنی کرسیوں سے ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔

Horain Hoor

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,