”بلال میں نے کھیر بنائی ہے۔۔کیا تم جا کر دے آؤ گے آنٹی…“
”نایاب پلیزززز میں نہیں جا سکتا ۔۔مجھے کام ہے کچھ.“اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بلال نے انکار کر دیا تھا ۔۔وہ کہتے کہتے رک کر منہ بسور کر مڑ گئی ۔۔۔
”زوی تم دے آؤ گے کھیر کنول کے گھر ۔۔ورنہ مجھے پھر دادو سے کہہ کر ہی بھجوانا پڑے گا تم لوگوں کو ۔۔۔“واپس کچن میں آ کر اس نے ٹیبل پر لا کر رکھی پھول گوبھی مزے سے توڑ کر کھاتے زوار سے کہا تھا۔۔اس نے مڑ کر نایاب کو فریج میں جھکا دیکھا۔۔۔
”ایک بات بتاؤ ۔۔۔! دادو تو ہم سب کے ہیں نا وہ۔۔تمہارے تو وہ نانو ہیں ۔۔پھر تم دادو کیوں بلاتی ہو انھیں ۔۔؟“اس نے آخر کو یہ سوال آج پوچھ ہی لیا تھا ۔۔وہ اکثر سوچا کرتا تھا ۔۔نایاب بھی ان کی دیکھا دیکھی بچپن سے ہی انھیں نانو کہنا چھوڑ چکی تھی ۔۔وہ بھی ان کی طرح ہی اب انھیں دادو کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھی ۔۔
اس کے سوال پر وہ دودھ نکال کر پلٹی ۔۔
”تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔میں انھیں دادو کہوں یا نانوں ۔۔اس سے رشتے تو نہیں بدلتے اور نہ ہی پیار ۔۔اور ویسے بھی گلاب کے پھول کو کوئی بھی نام دے لو رہتا تو وہ گلاب کا پھول ہی ہے نا۔۔۔اور اگر ہم کسی بھی پھول کو گلاب کہہ لیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گلاب کا پھول گلاب نہیں ہے۔۔۔نام بدلنے سے پہچان نہیں بدلتی۔۔“
اس نے فلسفیانہ جواب دیتے ہوئے سادگی سے مڑ کر چائے چڑھائی تھی۔۔۔
”ہممممم!“زوار نے کچھ سوچتے ہوئے متاثر ہونے کا تاثر دے متفق ہو سر ہلایا ۔۔پھر کچھ کہنے کو سیدھا ہو بیٹھا ۔۔
”مطلب اگر ہم پھول گوبھی کو گلاب کا نام دے دیں تو گوبھی کو اچھا اور گلاب کو برا نہیں لگے گا ۔۔“اس کی لگی لپٹی پر نایاب نے حیرت سے مڑ کر اسے دیکھا تھا ۔۔وہ اکثر بے فضول کی گفتگو کرکے سب کو ذچ کرتا رہتا تھا ۔
”صرف براہی نہیں لگے گا ۔اگر اس کے ہاتھ پیر ہوتے تو ڈنڈا لے کر پیچھے بھاگتا تمہارے ۔۔“ نایاب نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا تھا ۔۔
”ارے تم نے خود ہی تو کہا ہم کسی بھی پھول کو گلاب کہہ سکتے ہیں ۔۔تو گوبھی کے پھول کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ۔۔؟“وہ آج بحث و مباحثے کے پورے موڈ میں تھا ۔۔۔مگر نایاب فری نہیں تھی ۔۔
”تم فضول کی ہانکنا چھوڑو اور یہ کھیر دے آؤ ۔۔کنول نے منگوائی تھی ۔۔“اس نے سختی سے ڈپٹ دیا ۔۔
”اور تم سے بڑی ہوں میں ۔۔مگر پھر بھی تم میری بات نہیں مانتے ۔۔“وہ چائے میں پتی ڈالتے ہوئے شکوہ کر رہی تھی۔۔
”دو سال ہی بڑی ہو ۔۔اس بات کے طعنے تم نے دو سو بار دے دیئے ہیں ۔۔اور ڈھائی سو بار ایموشنلی بلیک میلنگ کر کے گھر کے ہزار کام نکلوا چکی ہو ۔ حد ہو گئی ۔دو سال بڑی کیا ہو مجھ سے ۔۔۔میری تو ویلیو ہی گرا دی۔۔۔“وہ شکایات کی پٹاری کھولے بولتا ہوا کھیر کا ڈبہ اٹھا کچن سے واک آؤٹ کر گیا تھا ۔۔۔ نایاب نے سر جھٹک کر چائے پر دھیان لگا دیا ۔
ہال سے گزر کر باہر جاتے ہوئے اس کی نظر سامنے بلال پر پڑی تھی ۔وہ پڑھائی میں مصروف تھا۔۔زوار کو شرارت سوجھی۔۔
”نایاب یہ کھیر کنول کو دے کر آنا ہے نا؟“کچن کی سمت منہ کر کے جان بوجھ کر اونچی آواز میں پوچھا گیا تھا ۔۔کنول کے نام پر بلال نے چہرہ اُٹھایا ۔۔۔مطلب نایاب اسے کنول کے گھر کھیر دے آنے کا کہہ رہی تھی ۔۔اف ۔۔۔! وہ پوری بات سن تو لیتا ۔۔اب وہ پچھتاوے سے زوار کو دیکھ رہا تھا ۔۔جو اس کی سامنے سے اٹھلا کر گزرتے ہوئے باہر نکل گیا تھا ۔۔جس کو سنانا مقصود تھا سنا گیا تھا ۔۔اس نے کتاب ایک طرف پھینکی اور تیزی سے کپڑوں کی شکنیں درست کرتا سامنے لگے آئینے میں اپنی سرسری صورت دیکھ انگلیوں سے بال سنوار اس کے پیچھے بھاگا تھا ۔۔
”زوی۔۔۔زوی!!“میر ولا سے نکل کر سامنے والے گھر کی سمت کان لپیٹ کر چلتا جاتا میر زوار مکمل طور پر اسے ان سنا کر رہا تھا ۔۔جب بلال نے دوڑ کر اس کا کندھا پکڑا تھا ۔۔
”رک نا ۔۔میں کب سے آوازیں دے رہا ہوں۔ “
بلال نے جھنجھلا کر اسے روکا تھا ۔۔
”اوہ اچھا ۔۔نہیں میں نے نہیں سنا۔ سوری۔۔وہ میں کنول کو کھیر دینے جا رہا ہوں نا۔۔اور سنا ہے آج کنول اکیلی ہے۔۔آنٹی بھی کہیں گئی ہوئی ہیں ۔۔“زوار نے بھولپن کا مظاہرہ کر کنول نام پر زور دیتے ہوئے مبالغہ آرائ کی تھی۔۔بلال کا دل دھڑکا تھا۔۔۔
اگر ایسا تھا تو موقع اچھا تھا ۔۔آج تو وہ کنول سے اپنے دل کی بات کہہ دیتا ۔۔
”تم جاؤ ۔۔میں دے آتا ہوں کھیر!“اس نے بے اختیار کھیر کی سمت ہاتھ بڑھائے تھے ۔جو زوار نے پیچھے کر لیا ۔۔وہ بھی تو سنبھل کر کھڑا تھا ۔
”کیوں بھئی ۔ اب کیوں دے آتے ہو ۔۔۔پہلے کیوں انکار کیا تھا ۔۔“اس نے اپنا حساب بھی تو دیکھنا تھا ۔ بلال نے سر جھٹکا ۔۔
”سوری یار ۔۔مجھے نہیں پتا تھا یہاں دینے آنا ہے ۔۔پر اب کوئی نہیں ۔۔تم دے دو نا میں دے آتا ہوں.“وہ شرمندگی سے کہتا مصر ہوا تھا۔۔زوار نے گردن اکڑائی۔۔
”اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔میں ویسے بھی گھر کے سامنے پہنچ چکا ہوں ۔۔چند قدم اندر جا کر دے بھی آؤں گا ۔۔تم پڑھائی کرو جس کر ٹھیک ہے.“اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے ستایا تھا ۔۔
”سوری نا زوی ۔۔دے دے یار ۔بھائی ہے نا میرا ۔۔پلیزززز!“بلال نے منت بھرے لہجے میں کہا تو زوار کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔ بلال کی صورت ہی دیکھنے لائق تھی۔۔
”دے نا!“بلال نے اسے خود پر ہنستا دیکھ خفگی سے کھیر مانگی ۔۔
”چل یہ لے ۔۔کیا یاد کرے گا بھائی کو۔۔!“اس نے ناز سے کہتے ہوئے ڈبہ اس کو تھمایا تھا ۔۔بلال نے اسکی شوخی پر مسکرا کر گھر کی سمت قدم بڑھا دیئے تھے ۔۔۔
”اور سنو ۔۔آج کنول کو بتا کر ہی آنا ۔۔کہ تم کتنے سالوں سے اس کے پیچھے خوار ہو۔۔!“زوار نے پیچھے سے اسے بلند آواز میں سمجھایا تھا ۔۔بلال نے مڑ کر اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔۔زوار بھی تب سے ہی اس کے دل کا حال جانتا تھا جب سے بلال کے دل میں کنول کا بسیرا ہوا تھا ۔۔۔ اگر کنول کی ایک سال پہلے شادی نہ ہوئی ہوتی تو اب تک بلال اس راز کو کھول چکا ہوتا۔۔مگر دل کی بات دل میں رہ گئی اور کنول کی سولی اٹھ گئی ۔۔ پھر حالات ایسے تھے کہ سسرال میں نہ بننے کے باعث اس کے شوہر نے اس کے ماتھے پہ طلاق کا دھبہ لگا کر اسے واپس بھیج دیا تھا ۔۔ایک سال بھی شادی نہ چل سکی تھی اسکی۔۔۔اور واپس میکے آ بیٹھی تھی ۔۔یہ قسمت کی ستم ظریفی ہی تھی کہ کنول جیسی نیک اور پیاری لڑکی کے ساتھ یہ ہوا تھا ۔۔ اور پھر یہ معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ طلاق شدہ لڑکی کو یہ قبول نہیں کرتا۔۔۔وہ داغدار ہو کر رہ جاتی ہے ۔۔قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اسے ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے ۔۔کنول کی کہانی بھی روائتی سی ہی تھی ۔ ۔
•••••••••••••