”نایاب!“منجھلی ممانی مصروف سی کچن میں آئی تھیں ۔۔
”جی ممانی!“چائے تھرماس میں ڈالتے ہوئے اس نے پلٹ کر انھیں دیکھا تھا ۔۔فائقہ بیگم ٹیبل پر رکھے باؤل میں دیگچے سے سالن نکال رہی تھیں ۔۔
”بیٹا میں تمہارے ماموں کے ساتھ ذرا ان کے دوست کی عیادت کو جا رہی ہوں ۔۔تم پلیزززز ذکاء کو کھانا دے دو گی۔۔۔وہ ابھی آیا ہے فریش ہونے گیا ہے ۔۔میں اگر اس کے لئے رکی رہی تو تمہارے ماموں کو دیر ہو جائے گی ۔۔“انھوں نے محبت سے کہا تھا ۔۔اور نایاب کا سر بے ساختہ اثبات میں ہلا تھا ۔ذکاء کے سامنے نہ آنے کا عہد ٹوٹا اور وہ انکار نہیں کر سکی تھی۔۔اس نے انکار کرنا سیکھا ہی نہیں تھا ۔۔اور نہ ہی زرناب پھپھو نے اسے انکار سکھایا تھا ۔۔۔
”جی ممانی جان آپ بے فکر ہو کر جائیں ۔۔میں دے دوں گی۔۔بس دادو کو چائے دے آؤں ۔۔۔“اس نے انکساری سے کہتے ہوئے چائے اٹھائی اور کچن سے نکل گئی ۔۔وہ بھی مطمئن ہو کر اوپر چلی گئیں ۔۔جب نایاب جیسی ہر کسی کی ذمےداری اپنے کندھوں پر اٹھانے والی بچیاں گھروں میں موجود ہوں تو بڑی خاتون بے فکر ہو جاتی ہیں ۔
جب وہ چائے دے کر واپس آئی تو ذکاء پہلے سے ٹیبل کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔
فون پر کسی سے مسیج پر بات کرتے ہوئے اس کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ تھی ۔۔وہ اتنا مگن تھا کہ اسے اپنی سرعت سے گزر کر کچن میں جاتی نایاب نہ دکھی ۔۔جبکہ نایاب کا دل ایک دم اچاٹ ہوا تھا ۔۔وہ اکثر اسی طرح کسی سے بات کرتے ہوئے بلاوجہ مسکراتا تھا ،اس کے انداز ؤ اطوار بدل جایا کرتے تھے۔۔اور ایسا کوئی کب کرتا ہے اس کا اندازہ نایاب کو تھا۔۔اس کے اندر خاموشی نے گھر کیا تھا۔۔ وہ شاید کسی کو پسند کرتا تھا ۔۔اور یقیناً اسی سے بات بھی کرتا تھا ۔۔۔ اس نے اکثر اس کے فون پر آتی ایک رنگ ٹون پر الگ گانا لگا دیکھا تھا۔۔ جب بھی اس نمبر پر کال آتی تھی وہ جہاں بھی ہوتا فوراً فون پک کرتا تھا ۔۔ شاید اس نمبر پر الگ رنگ ٹون بھی اسے لئے ہی لگائی گئی تھی ۔۔تاکہ وہ فوراً حاضر ہو سکے ۔۔۔اس کے لئے کھانا گرم کرتے ہوئے وہ مضطرب اور متذبذب کا شکار ہی رہی تھی۔۔
”اگر ایسا ہے بھی تو مجھے کیا۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔“اس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کر کندھے اچکائے تھے۔۔مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی ۔۔جو فرق نہیں پڑتا پر زور دیتے ہیں ۔۔انھیں ہی سب سے زیادہ فرق پڑتا ہے ۔۔
”مجھے اپنا وقت ان پر ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔۔“وہ سر جھٹک کر خود کو ملامت کرتی کھانا ٹرے میں سجا مضبوط قدم اٹھاتی باہر آئی اور بنا اس کی طرف دیکھے کھانا ٹیبل پر لگانے لگی۔۔اس کے پاس آنے پر وہ چونکا تھا ۔۔اور ایک دم فون ٹیبل پر پلٹ کر رکھ سیدھا ہو بیٹھا تھا ۔اس کا فون پلٹنا نایاب کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا تھا۔۔اس کے دل میں گرہ پڑی ۔۔
”کس نے بنایا ہے آج کھانا؟“اس نے جانے کیوں بلاوجہ اسے مخاطب کیا تھا ۔۔شاید اسے یہ ڈر تھا نایاب اسے اپنی اسپیشل ون سے بات کرتے ہوئے دیکھ چکی ہے۔ اسی لیئے اسے باتوں میں الجھانا چاہا تھا ۔۔نایاب کو تو کم از کم اس کے بات کرنے کے پیچھے یہی وجہ لگی۔۔
”جو روز بناتا ہے.“اس نے سپاٹ تاثرات سے مختصر جواب دیا ۔۔ذکاء نے اس کا انداز ملاحظہ کرتے ہوئے اسے اپنے سامنے سالن کی پلیٹ رکھتے دیکھا ۔۔
”کبھی مہر اور زیبی کو بھی ساتھ لگایا کرو اپنے ۔۔انھیں بھی کچھ سکھاؤ ۔۔کل کو ان کی شادیاں بھی ہونی ہے۔۔“اسنے روٹی کا ٹکڑا توڑتے ہوئے ہدایت کی تھی ۔۔نایاب کو حیرانی ہوئی۔۔آج وہ اس سے بات کر رہا تھا اور وہ بھی وہ بات جو اس کے منہ سے اگر کوئی اور سن لیتا تو غش کھا کر گر پڑتا ۔ ذکاء بھی گھر کے معاملات پر نگاہ رکھتا تھا ۔۔مگر پھر اتنا غافل کیوں رہتا تھا ۔
”چھوٹی ہیں وہ ابھی ۔۔آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گی ۔ “اس نے حیرانی کو چہرے پر آشکار نہیں کیا تھا ۔۔نارمل لہجے میں جواب دیا اور پانی کا جگ بمعہ گلاس اس کے قریب رکھا ۔۔اسے اکثر کھاتے ہوئے ٹھسکا لگ جاتا تھا ۔۔۔یہ بات پورا میر ولا جانتا تھا ۔۔
”تم بھی تو چھوٹی ہو اور چھوٹی عمر میں ہی سب کچھ سیکھا ہے۔۔اور ویسے دیکھا جائے تو زیبی تم سے بڑی ہے ۔اسے بھی اب گھر داری سیکھنی چائیے ۔۔تم ہی سارا دن اکیلی لگی رہتی ہو ۔۔ تائی امی سے بات کر کے اسے ساتھ لگاؤ ۔۔مانا کہ اسے زمان سے شادی کے بعد اسی گھر میں رہنا ہے۔۔مگر گھر داری تو سیکھے گی نا..“وہ کھانے کے لقمے بھرتے ہوئے اسے سنجیدگی سے سمجھا رہا تھا ۔۔
”جی میں ممانی سے کہوں گی..“اس نے مروت سے پیش آتے ہوئے کہا اور پلٹی۔۔
”نایاب مُجھے بھی پلیززز کھانا ڈال دو!“زوار نے اسے باہر سے آتے ہوئے پکار لیا تھا ۔۔وہ مسکرا کر رکی اور اس کے لئے پلیٹ تیار کرنے لگی۔۔
ذکاء نے سنجیدگی سے اسے اپنے عین سامنے کرسی سنبھالتے دیکھا تھا ۔۔
”زوی تمہاری پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔۔؟“اس نے بڑے بھائیوں والے رعب سے پوچھا تھا ۔۔اس کی بات گھر والوں سے کم ہوتی تھی لیکن جب ہوتی تھی تو ایک ایک کر کے سب کے معاملات پر بات کرتا تھا ۔
”اچھی جا رہی ہے بھائی ۔۔اور اگر آپ کچھ دیر میں میری فیملی بزنس کے متعلق برین واشنگ کرنے والے ہیں تو ایڈوانس میں سوری ۔میں پاپا کے بزنس کو مزید اسٹیبلش کرنے کے لئے کوئی آپ کا ہاتھ نہیں بٹانے والا ۔۔مجھے نہیں کرنا یہ خاندانی بزنس ۔۔!“وہ اس کی تمہید کا مفہوم سمجھتا مصلحت سے ہاتھ کھڑے کر گیا تھا ۔۔ذکاء نے لب بھینچ لیئے ۔۔
”تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔پاپا تمہیں میڈیا اسٹڈی سے روکتے تو نہیں ہیں ہاں اگر وہ چاہتے ہیں کہ میری طرح تم بھی اپنا خاندانی بزنس دیکھو تو یہ اچھی بات ہے ۔۔شعور ہی آئے گا ۔۔تم میں گٹس بڑھیں گے۔۔کبھی نہ کبھی اگر سوشل میڈیا سے دل اکتایا تو تمہارے پاس چوئس اور تجربہ ہوگا اپنے بزنس کا۔۔۔زوی ایک بات یاد رکھو کبھی کچھ بھی زندگی میں سیکھا ہوا رائیگاں نہیں جاتا ۔۔آپ کے ہر ہنر کی ضرورت آپکو کبھی بھی پڑ سکتی ہے ۔۔اسی لئے زندگی میں ایک ہی کام میں وقت اور وسائل لگانے سے اچھا ہے دو تین تجربات کرلو ۔ ایک کام نہ آئے تو دوسرا آپشن ہوتا ہے ہمارے پاس۔۔۔“نایاب نے کھانا زوار کے سامنے رکھتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔ وہ بہت سمجھداری بھری گفتگو کرتا تھا ۔۔میر ولا کے سب لڑکوں سے زیادہ ذمےدار اور سمجھدار تھا وہ ۔نایاب کا دل ڈوبا تھا کہ وہ شخص اس کی دسترس میں نہیں تھا ۔۔زوار سر جھکائے اس کی سن رہا تھا ۔۔ نایاب گھوم کر واپس ذکاء کی پلیٹ میں روٹی رکھنے گئی۔۔
”اب خاموشی سے بیٹھ کر کھانا ہی مت کھاؤ میری بات کا جواب دو! کچھ بولو ۔۔“زوار کی چپی نے اسے غصہ دلایا تھا ۔۔
”سلاد اٹھا دیں!“اس نے غیر سنجیدہ سے ذکاء کو اشارہ کیا اور نایاب نے آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھا تھا ۔ زوار کی ڈھٹائی عروج پر تھی۔۔ذکاء نے اسکی عدم توجہ پر لب بھینچے ٹیبل پر کہنیاں ٹکا کر ہاتھوں کی مٹھیاں لبوں پہ رکھ اسے گھورا اور پھر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک دم اس کے حلق میں مرچی کا پھندا لگ گیا تھا ۔۔اور ایسا زبردست لگا تھا کہ لمحوں میں کھانسی سے بےحال ہوتے ہوئے اس کی آنکھیں سرخ پڑ گئی تھیں ۔۔منہ کے سامنے مٹھی جمائے وہ بری طرح کھانس رہا تھا ۔۔نایاب ایک دم گھبرا گئی ۔۔کچھ سمجھ نہ آیا کیا کرے۔۔۔زوار اطمینان سے بیٹھا کھانا کھا رہا تھا ۔۔۔
نایاب کا وجود بے چینیوں میں مبتلا ہوا۔۔پس و پیش سے بے قرار ہو تیزی سے گلاس بھر کر اس کے سامنے رکھا۔۔مگر اس کا زور بس کھانسنے پر تھا۔۔ نایاب نے مدد طلب نظروں سے زوار کو دیکھا ۔۔وہ مکمل تجاہل عارفانہ بن گیا ۔۔وہ بےچاری پریشانی سے کھڑی ہو گئی ۔۔جب زینے سے اترتی پرس اور شال پہنے تیار فائقہ بیگم کی نظر اس طرف پڑی تو ایک دم فکرمندی سے بھاگ کر اتریں ۔۔ان کے بیٹے کو ٹھسکے کا دوری پڑا تھا ۔۔
”یا اللہ!“وہ دل پر ہاتھ رکھ کر تشویش سے اس کے پاس آئیں ،پرس پھینک کر تیزی سے اس کی پیٹھ مسلنے لگیں ۔۔۔
”نایاب تم کھڑی کھڑی کیا شکل دیکھ رہی ہو ۔۔نظر نہیں آ رہا تمہیں اس کی حالت کیا ہو رہی ہے۔۔؟“ایک دم بیٹے کی حالت دیکھ وہ اس پر بگڑ پڑی تھیں ۔ وہ سن کھڑی ہونق شکل سے انھیں تکنے لگی ۔
”پر ممانی میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔“اس نے معصومیت سے دریافت کیا تھا ۔اس وقت اس صورتحال میں وہ سچ میں الجھی کھڑی تھی ۔
حنان نے کھانسی کو کنٹرول کرتے ہوئے پانی سے بھری سرخ آنکھوں سے نایاب کو خاموشی سے دیکھا تھا ۔نایاب تھم گئی۔۔۔ان نگاہوں میں شاید شکایت تھی۔۔۔
”لو بندہ پیٹھ ہی سہلا دیتا ہے تاکہ آرام آ جائے ۔۔!“ممانی نے سر جھٹک کر اسے ڈانٹا۔۔اسکے تو ہواس ہی گم ہو گئے ۔۔
”جی میں پیٹھ سہلاؤں؟“حیرت و بے یقینی سے اپنی سمت انگلی کر ایسے پوچھا تھا جیسے اس نے سننے میں یا شاید انھوں نے کہنے بھی غلطی کر دی ہو ۔۔
”حد کرتی ہو کبھی کبھار تم نایاب ۔۔اتنی سمجھدار ہو پھر بھی ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی مجھے تم سے ۔۔“وہ پانی کا گلاس اٹھا کر ذکاء کے منہ سے لگاتی اس پر افسوسناک انداز میں برہم ہوئیں ۔۔ذکاء اب کافی بہتر ہوا تھا۔۔۔ماں کے ہاتھ سے پانی پیتے ہوئے اس نے گلا کھنکار کر صاف کیا تھا ۔ نایاب نے شرمندگی سے کف افسوس ملا ۔۔ اسے سچ میں اندازہ نہیں ہو سکا تھا اس وقت اسے ذکاء کی پیٹھ سہلانی بھی چائیے تھی یا نہیں ۔۔۔ ہاں مگر اس نے پانی دینے کی کوشش تو کی تھی ۔۔مگر ذکاء کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ خود کچھ کرتا یا اسے کرنے دیتا ۔۔
”زوی تم تو کچھ کر لیتے ۔۔بھائی کی حالت خراب ہو رہی تھی اور تم سکون سے کھانا کھا رہے تھے ۔ “اب ان کی توپوں کا دہانہ چھوٹی اولاد کی سمت تھا ۔۔
”ماما مجھے لگا نایاب ہے مجھ سے دو سال بڑی ۔۔سنمبھال لے گی.“اس نے اطمینان سے نایاب پر چوٹ کرتے ہوئے اپنا بچاؤ کیا تھا ۔۔نایاب نے غصے سے اسے گھورا ۔۔ایسے موقعے پر بھی موصوف طعنہ دینے سے چوکے نہیں تھے۔۔
”بس کریں ماما ۔۔میں اب ٹھیک ہوں!“جب وہ دوبارہ سے اس کی پیٹھ مسلنے لگیں تو اس نے پیار سے ان کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور کرتہ جھٹک کر کھڑا ہوتا فون اٹھا کھانا ادھورا چھوڑ کر اوپر چلا گیا تھا ۔۔۔فائقہ ممانی نے سر جھٹکا کر پرس پکڑا اور باہر نکل گئیں ۔۔ گاڑی میں شاہ ویر صاحب ان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔نایاب نے خجل ہو کر منجھلی ممانی کو باہر جاتے دیکھا اور پھر ذکاء کی پلیٹ کو ۔جہاں اس کا ادھورا کھانا اسکا منہ چڑا رہا تھا ۔۔اسکا دل ندامت کی گرفت میں آیا تھا ۔۔ اعصابوں پر ایک دم کچھ بوجھ سا آن پڑا۔۔۔
••••••••••••
جاری ہے