Cousin Based

Ye Manzil Aasan Nahin by Kainat Riyaz Episode 3 Classic Novel Saga Online Reading

”دادو آپ کی دوا !“میر مرتضیٰ مظفر اپنیآرام دہ کرسی پر بیٹھے آنکھوں پر چشمہ لگائے کتاب پڑھنے میں مگن تھے ۔نایاب کی آواز پر سر اُٹھایا ۔۔ وہ ٹرے میں پانی کا گلاس اور دوا لے کر حاضر تھی۔۔”ارے ..!“وہ وقت دیکھتے ہوئے سیدھے ہو بیٹھے ۔ ان کے ذہن سے تو نکل ہی گیا تھا انھوں نے کھانے سے پہلے کی دوا نہیں لی۔۔۔اور نایاب کو ہر بات یاد رہتی تھی ۔۔اس کا حافظہ بہت تیز تھا۔۔”آپ بھول گئے تھے نا ۔چلیں اب جلدی سے لے لیں۔۔پھر میں کھانا لے آؤں!“نایاب نے پیار بھری ڈانٹ پلاتے ہوئے ان کی گود سے کتاب اچک کر بند کی اور تپائی پر رکھ دی۔۔ وہ مان سے اسے دیکھنے لگے ۔ کتنی پیاری بچی تھی۔۔پورے گھر میں ہر ایک کی ذمےداری سنبھالتی تھی۔۔”شکریہ بچے!“دوا لینے کے بعد انھوں نے اس کے سر پر پیار کیا تھا ۔۔وہ ٹرے ٹیبل کر رکھ کر ان کے قدموں میں بیٹھی ۔ ”اس میں شکریہ کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض ہے کہ میں آپ کا ویسے ہی خیال رکھوں جیسے آپ میرا رکھتے ہیں ۔ “اس نے ان کا جھریوں زدہ ہاتھ تھام کر بھیگے لہجے میں کہا تھا ۔۔وہ کتنے بڑے سائبان تھے یہ وہ کبھی بیان نہیں کر سکتی تھی۔۔۔کس طرح انھوں نے اس کو پالا اور سنبھالا تھا نایاب سو بار قربان ہو کر بھی ان احسانات کا بدلا نہیں اتار سکتی تھی ۔۔۔ان کی قدر و منزلت اس کے دل میں ہر رتبے سے زیادہ تھی۔۔۔”ارے میں تمہارے لیے کچھ لایا تھا۔۔سب سے چھپا کر!“ان کو اچانک یاد آیا تو رازداری سے کہتے ہوئے واسکٹ کی جیب ٹٹولی۔۔نایاب بے اختیار ہنس دی۔۔وہ بچپن سے ایسا کرتے تھے ۔سب پوتے پوتیوں کے لئے چیزیں لاتے تھے تو نایاب کی الگ سے اسپیشل اور سب سے مختلف لاتے تھے اور ہمیشہ اسے سب سے آخر میں اور چھپا کر دیتے تھے ۔۔تاکہ کوئی اس سے حسد نہ کرے۔۔اور وہ آج تک اپنی اس عادت پر قائم تھے ۔۔انکی مستقل مزاجی دیکھ وہ ہنستی چلی گئی ۔۔”یہ دیکھو تمہارے لئے میں یہ لایا ۔۔“انھوں نے ایک بوکس سامنے کیا جس میں دو سونے کی چوڑیاں تھیں ۔۔اس کی آنکھوں میں اشتیاق اور چمک بڑھ گئی لیکن چہرے پر اداسی کے رنگ بھی بکھرے تھے ۔”دادو یہ ۔۔؟“اس نے ان کے ہاتھ سے بوکس لے کر منہ کھولے ان چوڑیوں کو دیکھا ۔۔”یہ اتنا مہنگا تحفہ لانے کی کیا ضرورت تھی ۔۔“نایاب کو اچھا نہیں لگا تھا ۔۔وہ پہلے ہی بچپن سے ان کے اور ماموؤں کے پیسوں پر زندگی گزار رہی تھی ۔۔زرناب بیگم کا حصہ تھا جائیداد میں مگر انھوں نے کبھی اس کا استعمال کرنے یا مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھیں تھی۔۔جب اتنے پیار اور محبت سے سب ان کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے تو کیا ضرورت تھی حصہ مانگنے کی ۔۔۔حالانکہ تینوں ماموں اور میر مرتضیٰ مظفر نے ان کا حصہ ویسے کا ویسا ہی محفوظ رکھا ہوا تھا۔۔ایک پائی بھی استعمال نہیں کی تھی۔۔۔مگر نایاب پھر بھی ہوش سنبھالنے کے بعد اپنا بوجھ کم ڈالنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔وہ بلاوجہ چیزوں کی فرمائش نہیں کرتی تھی اور چاہتی تھی کم سے کم خرچہ کروائے وہ ان سے ۔۔مگر کہیں تینوں ماموں اس کے بن کہے کچھ نہ کچھ لا دیا کرتے تھے تو کبھی ممانیاں یہ بار اٹھا لیتی تھیں ۔۔اسے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دیتی تھیں اور باقی کسر میر مرتضیٰ مظفر پوری کر دیتے تھے ۔۔اتنا پیار اور رسان دیکھ کر نایاب خود کو بہت خوش قسمت محسوس کرتی تھی۔۔اس نے سن رکھا تھا بعض جوائنٹ فیملیز میں اس قدر کوئی ساتھ نہیں دیتا ۔۔جس طرح میر ولا میں ان ماں بیٹی کا دیا جاتا تھا ۔۔اس نے ماموں ممانیوں کے ظلم و جبر پر بھی بہت سے قصے سن رکھے تھے۔۔مگر میر ولا میں سب ان قصوں کے الٹ تھا اور اسے یقین ہو گیا تھا ۔۔ہر بار قصے الگ ہوتے ہیں اور ہر گھر میں تربیت کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔۔۔اگر ابھی تک آپ کے گھر میں حسن سلوکی ،صلہ رحمی اور اخلاق ہے تو شکر ادا کریں ان بزرگوں کا جن کا سایہ ان گھروں پر ٹھنڈی چھاؤں ہے۔۔جن کے اصول و قواعد پر گھر کی رونقیں بحال ہیں۔۔”ارے کیوں ضرورت نہیں تھی ۔۔تم میرے ہر ہوتے اور پوتی کے مقابلے میں اتنے اچھے نمبروں سے پاس ہوئی ہوں ۔۔میٹرک میں بھی اچھے نمبر لیئے تھے۔۔تم شروع سے پڑھائی میں بہت اچھی رہی ہو نایاب ۔۔میں تو کہتا ہوں شانی کو بھی دم کر کے کچھ پلایا کرو۔۔پھونک وونک مارا کرو ! اس کی بھی سپلیاں آنا بند ہوں!“ وہ ہنستے ہوئے پیار سے کہتے ہوئے اسے بھی ہنسا رہے تھے۔۔۔”اور بہت مبارک ہو بیٹا ۔ آپکی اس کامیابی نے ہمارا سر ناز سے اونچا کر دیا ہے ۔بھئی ہماری نواسی پڑھائی میں نمبر ون ہے ۔۔“انھیں سچ میں فخر تھا جس کا برملا اظہار کر رہے تھے ۔ان کا ضعیف چہرہ مسرتوں سے لبریز تھا ۔۔”شکریہ دادو!“ نم آنکھوں کو چھپانے کے لئے نایاب نے سعادت مندی سے سر جھکا لیا۔۔”اب تم نا ایک کام کرو۔۔یہ سنبھال کر رکھ لو ۔۔۔اس دن پہننا جس دن تمہاری شادی ہوگی۔۔“انھوں نے بوکس کو اس کے دوپٹے میں چھپاتے ہوئے نصیحت کی تھی۔۔اس کے چہرے پر ایک دم تاریکی چھائی ۔۔اسے تو جانا تھا اس گھر سے ایک دن۔۔وہ صدا اس گھر میں نہیں رہ سکتی تھی ۔ کاش اس کا نصیب بھی زیب النساء کی طرح ہوتا۔۔جیسے وہ زمان سے شادی کر کے اسی گھر میں رہتی وہ بھی ایسے ہی ۔۔۔لیکن نہیں وہ ایسے کیوں رہتی ۔۔۔قسمت ہر ایک بار مہربان نہیں ہوتی ۔ زیبی کا میکہ اور سسرال دونوں میر ولا میں تھا۔۔اس کی مناسبت بچپن سے طے تھی میر زمان سے ۔۔نایاب کا نصیب کسی اور گھر میں لکھا تھا ۔۔یہ بس اس کا میکہ کہلایا جا سکتا تھا ۔۔سسرال نہیں ۔۔ کچھ لڑکیاں واقعی بہت اچھی قسمت لے کر پیدا ہوتی ہیں ۔۔جن کو بنا کوشش اور محنت کے سب کچھ مل جاتا ہے ۔۔ اور کچھ کو محنت سے بھی حاصل کچھ نہیں ہوتا ۔۔زیبی کی نصیب پر اسے جتنی خوشی ہوتی تھی اتنا ہی رشک آتا تھا ۔مگر اپنی قسمت کو اس نے کوسا کبھی نہیں تھا ۔۔وہ جو جیسا ملتا تھا اسی پر خوش ہو جایا کرتی تھی ۔۔صبر شاید اسی کا نام ہے۔ ”ارے کس سوچ میں پڑ گئی ۔ ؟“دادو نے اس کی کھوئی ہوئی صورت دیکھ اچانک پوچھا ۔۔وہ چونکی۔۔”نہیں تو کچھ نہیں ۔۔میں آپ کے لئے کھانا لگاتی ہوں ۔۔!“وہ جیسے کسی پاتال سے واپس آئی تھی ۔۔ اور موضوع سے پیچھا چھڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ دادو نے اس کے چہرے پر یک دم چھا جانے والی اداسی کا نوٹس لیا تھا ۔۔مگر بولے کچھ نہیں ۔۔ ”ہاں لگا دو اور یہ سنبھال کر رکھ لینا!“انھوں نے ہدایت کی تھی ۔۔ وہ مڑ کر ذرا کا ذرا سر ہلاتی کمرے سے چلی گئی ۔۔دادو نے پرسوچ اور الجھی نظروں سے اس کی شکستہ اور ملول پشت دیکھی تھی۔۔۔ ••••••••••••••تینوں ممانیاں اور زرناب پھپھو آج خود کچن میں گھسی ہوئی تھیں ۔۔نایاب کے پاس ہونے کی خوشی میں ڈنر کا انعقاد کیا گیا تھا۔۔ اور سب جوش و خروش اور دل جمعی سے اہتمام کر رہی تھیں ۔۔ہر ایک کچھ نہ کچھ بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ چار قسم کی ڈشز بننی تھیں۔۔اور چھوٹی ممانی نے آج تو زیب کو آڑے ہاتھوں لے لیا تھا ۔۔وہ ویسے ہی اس کی ڈائٹنگ کے شیڈول سے تپی رہتی تھیں ۔۔ اور بڑی ممانی نے مہر کو بھی ساتھ گھسیٹا ہوا تھا ۔۔وہ بھی تو اس کے چہرہ چمکانے اور سارا دن دیسی ٹوٹکوں میں دماغ لڑانے سے نالاں تھیں ۔۔نایاب کو آج مکمل آرام دیا گیا تھا ۔ زیب النساء اور مہر النساء جلے پیر کی بلی کی مانند ماؤں سے ڈانٹ سنتی ہوئی منہ پھلائے ہاتھ بٹانے میں مصروف تھیں۔۔۔”بڑی ہمت ہے بھئی نایاب کی ۔۔کیسے وہ کبھی کبھار اکیلے ہی اتنا سارا کام کر لیتی ہے ۔۔“مہر نے بریانی کے لئے پیاز کاٹتے ہوئے آنکھوں سے بہتے پانی کو جھٹکتے ہوئے دہائی دی تھی۔۔”ہاں وہ تو کر لیتی ہے تم دونوں کو ہی موت پڑتی ہے ۔۔آج کے بعد تم لوگ اس کا ہاتھ بٹاؤ گی۔“اقراء ممانی نے بیٹی کو ڈانٹ کر حکم دیا تھا۔۔وہ بدک گئی۔۔۔وہ گھر کی بڑی بہو تھیں۔۔ان کا رعب بہت تھا۔۔”اور اقراء بھابھی میں تو کہتی ہوں اب نایاب کو ہٹا کر ان پر ذمےداری ڈال دیں ۔ زیب کا آخری سال ہے اور اس کے پیپرز ہو جانے کے بعد میں سوچ رہی تھی اس کی شادی کر دوں ۔۔۔ آپ بس اب اسے اپنے زمان کے ساتھ بیاہنے کی تیاری پکڑیں۔میری ذمےداری ختم ہو ۔“شمیم ممانی نے سنجیدگی سے کہہ کر سر جھٹکا تھا ۔۔زرناب پھپھو نے مسکراتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھی زیب کو شریر مسکراہٹ سے دیکھا ۔۔وہ منہ بسور گئی تھی۔۔پڑھائی کے فوراً بعد شادی کا سن کر۔۔اس کا ارادہ کچھ سال جاب کرنے کا تھا ۔۔زمان بڑا تھا اپنا بزنس سیٹ کر چکا تھا۔۔مگر وہ تو ابھی چھوٹی تھی اور ٹھیک سے اپنی پہچان بھی نہیں بنا پائی تھی۔۔۔اسے اتنی جلدی شادی سے اعتراض تھا۔۔”ہونہہ میں تو کوئی نہیں کرنے والی اتنی جلدی شادی ۔۔“اس نے کڑھ کے سوچتے ہوئے منہ بنا کر ناراضی سے سر جھٹک دیا۔”ہاں میں بھی متفق ہوں ۔۔ گھر کی بچی ہے جتنی جلدی سب سمٹ جائے اتنا اچھا ہے ۔۔اور ویسے بھی اب زمان کی شادی کی عمر ہے ۔“فائقہ ممانی نے بھی قورمے میں چمچہ چلاتے ہوئے سنجیدگی سے مشورہ دیا تھا ۔۔”ویسے بھابھی عمر تو ذکاء کی بھی ہو گئی ہے شادی کی۔۔اور ماشاءاللہ سے دو سال ہوگئے ہیں اسے بزنس کرتے ہوئے ۔۔۔شہر اور شہر سے باہر بھی اس کے بزنس نے قدم جما دیئے ہیں ۔۔اور ماشاءاللہ سے اب تو اس کا آفس دبئی میں بھی بن چکا ہے ۔۔وہاں بھی اس نے اپنی شاخ پھیلا لی ہے ۔ اتنے کم عرصے میں اتنی کامیابی سمیٹی ہے اس بچے نے ۔اب تو وہ بھی سیٹل ہو چکا ہے ۔۔آپ کو اس کی شادی کا بھی کچھ سوچنا چاہیے ۔۔“چھوٹی ممانی نے منجھلی ممانی کو سمجھایا تھا ۔وہ ایک دم مایوسی کا شکار ہوئیں ۔۔ وہ نایاب کا ہاتھ مانگنا چاہتی تھیں ۔۔مگر جانے کیوں جھجکتی تھیں ۔ ۔ کہیں زرناب پھپھو یہ نا سمجھ لیں کہ وہ اپنے احسانات کا بدلہ ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ کر لے رہی ہیں ۔۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کوئی ایسا سوچے ۔۔ نایاب تو شروع سے ہی انھیں بہت پسند تھی ۔۔اچھا تھا اگر وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتیں ۔ مگر مسئلہ ذکاء کا بھی تو تھا ۔۔ وہ ایک دو بار ڈھکے چھپے الفاظ میں اس سے نایاب کے لئے بات کر چکی تھیں۔۔مگر وہ اپنے پروں پر پانی پڑنے ہی نہیں دے رہا تھا ۔ہر بار اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ ابھی وہ اپنے بزنس کی فلاح وبہبود میں مصروف ہے شادی کے جھنجھٹ نہیں پال سکتا۔۔اپنی پسند بھی تو نہیں بتاتا تھا۔۔ وہ ایک دم خاموشی کا لبادہ اوڑھ گئیں ۔۔ذکاء کی مرضی کے خلاف جا کر وہ بات بھی نہیں کر سکتی تھیں اور ذکاء کا انھیں پتا تھا ۔۔بات کر بھی لیتیں تو کہیں وہ منہ چڑھ کر زرناب پھپھو کو انکار نہ کر دے۔ یہ خوف بھی ان کی تربیت پر حرف اٹھاتا ۔۔اسی لیئے سالوں کی خواہش دل میں دفن کیئے بیٹھی تھیں ۔۔اور اب تو اگلے ہفتے نایاب کے لئے بڑے ماموں شامیر کے دوست آ رہے تھے۔۔سب راضی تھے کسی کو اعتراض ہوتا بھی کیوں۔۔مگر وہ دل سے خوش نہیں تھیں ۔۔ہاں خاموش ضرور تھیں ۔۔اور ذکاء سے خفا بھی ۔۔انھوں نے ایک نظر زرناب پھپھو کو دیکھا۔۔وہ سر جھکائے خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھیں ۔۔فائقہ بیگم کا دل بے کیف ہوا تھا۔۔وہ چولہا بند کر کے کچن سے نکل گئیں ۔۔سامنے ہی انھیں ایک کونے میں فلور کشنز پر نایاب میر بلال اور زوار کے ساتھ بیٹھی نظر آئی ۔۔وہ دونوں نوٹس بنانے میں میر بلال کی مدد کر رہے تھے۔ ”نایاب!“انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے پکار لیا.“اس نے پلٹ کر انھیں دیکھا ۔۔”جی ممانی جان!“اس نے سر پر دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے بعجلت اٹھ کر سائیڈ پر اتارا جاتا واپس اڑسا تھا ۔۔اس کی یہی سعادت مندی ان کے دل میں اتری ہوئی تھی ۔۔وہ فوراً سے ہر کسی کا حکم بجا لانے کو پیش پیش رہتی تھی ۔۔”بیٹا ذکاء کو کل کی فلائٹ سے دبئی جانا ہے ۔۔چار دن کے لئے ۔۔ اس کے کپڑے میں نے استری اسٹینڈ پر رکھے ہیں ۔۔تم انھیں سیٹ کر کے اس کی پیکنگ کر دو گی ۔۔میرے خیال سے آدھی سے زیادہ تو وہ خود کر چکا ہوگا ۔۔بس وہ کپڑے دیکھ لو۔۔اور جاتے ہوئے اس کے لئے چائے لیتی جاؤ ۔۔اس نے کافی دیر پہلے مانگی تھی ۔۔میرے ذہن سے نکل گیا ۔۔“انھیں جانے کیا خوشی ملتی تھی ذکاء کی ذمےداری اس پر ڈال کر۔۔۔جانتی تھیں یہ عجیب اور بے معنیٰ حرکت ہے مگر کیا پتا زیادہ آس پاس رہنے سے وہ اس میں دلچسپی لینے لگ جاتا۔۔۔ دل بڑا ہی خوش فہم تھا۔ ۔۔”جی میں کر دیتی ہوں!“نایاب ان کے کہنے پر لب کچلنے لگی تھی ۔۔وہ کیسے انھیں کہے کہ وہ ذکاء کے کام اسے نہ سونپا کریں۔۔۔اس کے لئے اپنے دل کو مضبوط رکھ پانا دوبھر ہو جاتا ہے ۔۔ دل میں پھر سے اس کے سنگ عمر گذارنے کی تمنا جاگ اُٹھتی ہے ۔۔جسے سلانا اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔۔وہ بار بار ٹوٹ کر جڑنے کی تکلیف نہیں اٹھانا چاہتی تھی ۔۔۔وہ تو کہہ کر چلی گئیں مگر اس کے لئے قدموں کو اٹھانا بھاری کر گئیں ۔۔۔ •••••••••••••••اس نے چائے کے ساتھ اس کے دروازے پر دستک دی تھی ۔۔۔ ”کون !“اندر سے اس کی سنجیدہ آواز سنائی دی ۔۔”جی میں ہوں“اس نے بمشکل حلق سے آواز نکالی تھی ۔۔ ”آجاؤ!“کچھ دیر کے بعد اسے اجازت مل گئی تھی ۔ دروازہ کھول کر دوپٹہ اچھی طرح سیٹ کرتے ہوئے وہ اندر چلی آئی ۔۔کمرے میں نظر دوڑائی تو وہ بستر سے ٹیک لگائے نیم دراز فون پر ٹائپنگ میں مصروف تھا ۔ نایاب نے خاموشی سے سائیڈ ٹیبل پر آواز کے ساتھ کپ رکھا تاکہ وہ متوجہ ہو اسے آواز نہ دینی پڑے ۔۔اور ایسا ہی ہوا وہ آواز پر چونکا تھا ۔۔گردن موڑ کر کپ کو دیکھ ایک اچپٹی نظر اس پر ڈالی اور پھر سے فون میں لگ گیا۔۔۔نایاب نے اس کی ٹانگوں کی طرف پائنتی پر اس کا سوٹ کیس دیکھا تھا ۔۔آدھے سے زیادہ پیکنگ وہ کر چکا تھا ۔۔بس شاید کپڑوں کا انتظار کر رہا تھا ۔ زپ بھی شاید اسی لئے نہیں چڑھائی تھی ۔نایاب خاموشی سے مڑی اور کمرے سے نکل کر کپڑے اٹھا لائی ۔۔اس نے اچھے سے استری کر کے پہلے ہی تیار کر دیئے تھے ۔۔اس کا کام وہ خوشی خوشی کرتی تھی ۔دل سے ۔۔پھر بھلے کتنی ہی تھکی ہوئی کیوں نہ ہوتی ۔۔اکثر رات دیر تک آتا تھا وہ اور ممانی اس پر اسے کھانا دینے کی ذمےداری ڈال کر سونے چلی جایا کرتی تھیں ۔ ۔وہ ایک بجے آتا یا اسے رات کے تین بج جاتے ۔۔وہ اس کے لیئے جاگتی رہتی تھی۔۔۔یہ تک بھلائے کہ اسے صبح جلدی بھی اٹھنا ہوتا تھا ۔۔ اس نے کپڑے بستر پر احتیاط سے رکھ کر سوٹ کیس کا ڈھکن پیچھے الٹا ہی تھا کہ ذکاء نے سر اٹھایا ۔ ”کیا کر رہی ہو ؟“فون چہرے کے سامنے سے ہٹا کر بھنوؤں پر بل ڈالے استفسار کیا تھا ۔۔وہ اس کے سوال ؤ انداز پر گڑبڑا گئی۔”جی وہ ممانی جان نے کہا تھا آپ کی پیکنگ میں ہیلپ کر دوں.“اس نے صاف گوئی سے جواب دیا ۔اس کے چہرے پر تناؤ آیا ۔۔”نہیں رکھ دو میں خود کر لوں گا ۔۔۔ !“اس نے دوٹوک انداز میں کہا اور بات ختم کر پھر سے فون میں مگن ہو گیا ۔ نایاب کے دل کو ٹھیس پہنچی ۔۔ خاموشی سے پلٹ کر اس نے آنکھوں کی نمی جھٹک دی۔۔۔اور متوازن قدم اٹھاتی باہر کی سمت چل پڑی ۔۔”دروازہ بند کرتی جانا!“عقب سے اسے اس بے نیاز کی ویسی ہی درشت اور سنجیدہ آواز سنائی دی تھی ۔۔۔ وہ بنا مڑے دروازہ اپنے پیچھے زور سے بند کرتی ہوئی چلی گئی ۔۔فون پر مگن ذکاء دھاڑ کی آواز پر بری طرح اچھلا تھا ۔۔حیرت سے اس نے بند دروازے کو دیکھا، جسے دھاڑ سے مارنے والی جا چکی تھی۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر بے یقینی کی کیفیت میں دروازے کو تکتا رہا تھا ۔۔ •••••••••••••”آہم آہم!“ٹھنڈی ہواؤں کے مست جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ بالکنی کی ٹیبل کرسی پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر میل ٹائپ کر رہا تھا ۔۔جب بالکنی کے دروازے پر کسی کی کھنکار نے اس کا ہیجان بھٹکایا تھا ۔ زوار کواڑ سے کندھا ٹکائے بےزار سا کھڑا تھا ۔۔”آؤ۔۔کچھ کہنا ہے..؟“اس نے سرسری لہجے میں پوچھا اور پھر سے مصروف ہو گیا ۔ زوار کو کچھ برا لگا ۔۔وہ ہمیشہ ہی مطلب کی بات جانے کیوں کرتا تھا ۔ ”کیوں؟ میں ایسے ہی نہیں آ سکتا کیا اس کمرے میں ؟“وہ خفگی جتاتا آگے بڑھا اور اس کی نشست سے کچھ ہی فاصلے پر چھت سے ٹنگے swing چئیر باسکٹ جھولے میں گھس بیٹھا ۔۔ذکاء نے ایک نظر اس کا گہری سوچ میں ڈوبا کچھ متذبذب چہرہ دیکھا اور پھر ٹائپ شدہ میل مطلوبہ ایڈریس پر سینڈ کر دیا ۔ ”کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہے ہو ۔کچھ کہہ دیا کیا کسی نے.“اپنے چھوٹے بھائی کی اداس شکل دیکھ ذکاء کو اچھا نہیں لگا تھا ۔۔مانا کہ خود سر تھا ۔۔اپنی کرنے والا لڑکا تھا ۔کسی کی سنتا نہیں تھا ۔۔مگر تھا تو اس کا چھوٹا بھائی ۔اسے فکر تھی اس کی ۔لیکن ذکاء کو کبھی فکریں جتانا نہیں آیا تھا ۔ وہ عجیب انا پرست شخص تھا ۔۔”آپ کو پتا ہے ۔۔دو دن بعد نایاب کے رشتے کے لئے تایا ابو کے دوست تشریف فرما رہے ہیں ۔۔“زوار کی اداسی کی جگہ غصے نے لی تھی۔۔انداز ایسے تھا جیسے اطلاع کم اور شکایت زیادہ لگ رہی ہو ۔۔نایاب ذکاء کے لئے جذبات رکھتی تھی اور اسے خبر تک نہ تھی۔ ۔۔ ذکاء کی یہ غفلت زوار کو تاؤ دلانے کے لیے کافی تھی ۔۔”ہاں تو ۔۔یہ اچھی بات ہے۔۔نایاب اب شادی کے لائق ہو چکی ہے ۔۔اور سب نے مل کر اس کے لئے اچھا ہی سوچا ہوگا ۔۔“وہ بے نیازی سے ہنسا تھا ۔۔زوار کے دل میں تلملاتی لہر اٹھی ۔۔”ہاں اچھا سوچا ہوگا ۔۔مگر کیا کسی نے نایاب سے بھی پوچھا ہے وہ کیا چاہتی ہے ۔۔کیا پتا اس کے دل میں کوئی اور ہو ۔؟“زوار نے اشارے کنائے سے ذکاء کی سمت اشارہ کیا تھا ۔۔وہ چاہتا تھا ذکاء بن کہے نایاب کے دل کی چاہت بھانپ لے بس کسی طرح ۔۔۔”ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے۔۔مگر یہ تو بڑوں کو سوچنا چاہیے کہ پہلے اس کی مرضی پوچھ لیں ۔۔لیکن میں نے سنا ہے نایاب نے خود حامی بھری ہے۔۔ان لوگوں کو گھر بلانے کے لئے ۔۔وہ راضی ہوگی تبھی ایسا کہا ہوگا ۔۔“ذکاء نے کاندھے اچکا کر ہلکا پھلکا تاثر دیا تھا ۔۔زوار نے تاسف اور چھچھلتی نگاہ سے اسے دیکھا ۔۔”وہ لڑکی ہے کبھی خود سے کچھ نہیں کہے گی۔۔اس نے بس سب کی خوشی کے لیے آسانی سے حامی بھر لی ہے بھائی ۔۔آپ کیا جانیں ۔۔“اس نے تلخی سے سر جھٹکا تھا ۔۔ذکاء نے گہری نظروں سے اس کے بے چین چہرے کا محاصرہ کیا ۔۔”تو تم کہہ دو سب سے ۔ “ذکاء نے شریر مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔زوار ایک دم ٹھٹکا ۔۔اس کا انداز کچھ اور تھا۔۔وہ کیا سمجھ رہا تھا ۔۔

Zoila

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Classic Novels Cousin Based

Pehli Mohabbat By Ibraam Malik Libra (Complete PDF)

You Can Download The Novel From The Following Media Fire Link Or Read Online From Drive Link. Click The Novel
Classic Novels Comedy Novels Cousin Based Uncategorized

Khushgawar Zindagi By Sani Writes (Complete PDF)

You Can Download The Novel From The Following Media Fire Link Or Read Online From Drive Link. Click The Novel