”کیا؟“متشبہ لہجے میں دریافت کیا ۔۔”وہی جو مجھ سے کہنے یہاں آئے ہو؟“زکاء نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا اور ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے فرصت سے ٹانگیں ٹیبل پر دراز کیں۔۔۔اس کے انداز ؤ اطوار میں محسوس کن شوخی کا عنصر نمایاں ہوا تھا ۔۔زوار کا منہ کھلا ۔۔”میں تو آپ سے یہ کہنے آیا ہوں کہ ضروری ہے گھر کی لڑکی کو باہر نکالا جائے ۔۔جبکہ گھر میں ہی لڑکے موجود ہیں ۔۔تو کیا ضرورت ہے نایاب کو کہیں اور بیاہنے کی ۔۔ذیبی گھر میں ہی سمٹ گئی ہے ۔۔تو نایاب کے لئے کیوں گنجائش نہیں نکل رہی۔۔“وہ خاصی سنجیدگی اور برہمی سے اظہارِ خیال پیش کر رہا تھا ۔۔ذکاء کے لبوں پہ مدھم سی مسکراہٹ در آئی ۔۔وہ بچپن سے ہی زوار کا لگاؤ اور رحجان نایاب کی طرف دیکھتا آ رہا تھا ۔۔اور پھر مرد ،عورت کی دوستی میں جذبات تو بدل ہی جاتے ہیں ۔۔یہ تو دستورِ ہے دنیا کا۔۔”تو تم چاہتے ہو میں گھر کے بڑوں سے بات کروں تمہارے لیے.“ذکاء کی شوخ نظر اور شرارت سے مزین لہجہ دیکھ زوار کو بری طرح شاک لگا ۔۔وہ کیا سمجھ رہا تھا کہ زوار اس سے اپنی سفارش کرنے آیا ہے ۔۔۔اوہ خدایا ۔۔! اس کا دل چاہا سر دیوار پر دے مارے ۔۔ ”میں اپنی بات نہیں کر رہا بھائی!“وہ جھنجھلا گیا ۔۔کیسے سمجھائے اسے ۔۔نایاب کی اس کے لئے ایثار و محبت کیا اسے سچ میں آج تک نظر نہ آئی تھی ۔۔اور کیوں نہ آئی تھی ۔۔زوار تو بن کہے جان گیا تھا نایاب کے دل کا حال ۔۔ذکاء کو کیوں نہیں دکھتا تھا ۔۔وہ کہنا چاہتا تھا وہ اپنے لئے بات کرنے نہیں اس کے لئے بات کرنے آیا تھا ۔ ”تو پھر کس کی بات کر رہے ہو ؟“ذکاء نے آبرو اچکا کر تیکھے لہجے میں پوچھا ۔۔اسے لگ رہا تھا زوار کہنے سے جھجک رہا ہے ۔۔ظاہر سی بات تھی۔۔نایاب اس سے دو سال بڑی تھی۔۔اور پھر کچھ جھجک اسے گھر والوں سے بھی تھی ۔۔سب کیا سوچتے اس کے متعلق ۔۔کہ گھر کی بچی پر نظر رکھی ۔۔میر ولا میں تو کم از کم یہ حرکت قابلِ سزا ہوتی ۔۔”گھر میں اور بھی مجھ سے بڑے لڑکے ہیں ۔۔“زوار جتا کر نخوت سے سر جھٹک اٹھ کر بالکونی سے نکل گیا ۔۔۔ذکاء نے ناسمجھی سے بھنوؤں پر بل ڈالے الجھ کر اسے تب تک دیکھا تھا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوا۔۔زوار کو آخر مسئلہ کیا تھا ۔اگر اس کے دل میں نایاب کے لئے کچھ ہے تو اسے شئیر کرنا چاہیے۔۔خود کہہ نہیں پا رہا تھا اور بلا وجہ ناراض ہو کر اس سے چلا گیا تھا۔ ۔ ابھی وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں لگنے ہی والا تھا کہ کمرے میں فائقہ ممانی نے قدم رکھا تھا ۔۔ان کے چہرے پر بھی ناراضگی کی ان گنت سطریں درج تھیں ۔۔ذکاء نے گہری آہ بھر لی۔۔ہر کسی کو میر ولا میں اسی سے ہی شکایات تھیں ۔۔اس نے عاجز ہو کر آنکھیں چڑھائیں۔۔۔وہ کیسے ان کی ناراضگی دور کرتا۔۔یہ تو پچھلے کچھ ماہ سے مسلسل چل رہا تھا ۔۔وہ دلی طور پر اس سے ناراض تھیں ۔ وہ جانے کس کام سے آئی تھیں۔۔مگر اب کمرے کی ذرا سی غیر ترتیبی کو ترتیب دیتی ہوئی بالکنی میں بیٹھے اس کے وجود کو نظر انداز کر رہی تھیں ۔۔ذکاء نے ٹانگیں ٹیبل سے اتاریں اور اٹھ کر کمرے میں انکے پاس چلا آیا ۔۔”ماما میں چار دن کے لئے جا رہا ہوں اور شاید ایک ہفتہ بھی لگ جائے ۔۔“اس نے یونہی انھیں مخاطب کر لیا ۔۔”تو مجھے کیوں بتا رہے ہو.“انھوں نے بنا اس کو دیکھے بے لچک انداز میں کہا۔۔وہ آہ بھر کر اعصاب ڈھیلے چھوڑ گیا ۔۔