جن میں سے ایک نے شانی کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ۔ شش و پنج میں گھر کر شانی نے ان اہلکاروں کو دیکھا تھا ۔وہ دونوں ہونق شکل لیئے انھیں تکتے معاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔ ان دونوں کی عقلیں دنگ تھیں۔۔اور تاثرات اس جنجالی صورتحال کی جمع تفریق میں مصروف ۔۔۔”سوری۔۔بٹ کیا ہوا ہے ۔ !“شانی نے ناسمجھی سے دریافت کیا تھا۔ جبکہ فاریہ کا سانس سینے میں اٹکا تھا ،دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ ان پولیس والوں کو دیکھ اس کی ٹانگوں سے جان نکلی ۔۔اس کی چھٹی حس نے باور کرایا تھا وہ کسی بڑی مشکل میں پھنس چکی تھی۔۔وہ حواس کھو رہی تھی۔۔”لو ایکٹنگ تو دیکھو۔۔لڑکی کو لے کر اس وقت رنگ رلیاں منا رہے ہوں اور پوچھ رہے ہو کیا ہوا ہے ۔۔ہم نے ریڈ ماری ہے اس اڈے پر جہاں یہ فحاشی اور دھندے چلتے تھے۔۔وہیں لے کر جا رہے تھے نا اس لڑکی کو ۔۔“الفاظ تھے یا خنجر۔۔جو اتنی سفاکی سے بولے گئے تھے کہ ان دونوں کے منہ کھل گئے تھے ۔۔اس طرح کی شرمناک بات سن کر ان کے کانوں سے دھواں نکلا تھا ۔۔شانی نے بوکھلا کر اس لڑکی کو دیکھا ۔۔جبکہ وہ بھی سکتے میں کھڑی فوراً رونے والی ہو گئی تھی ۔۔”دیکھیئے سر آپ کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے ۔۔میں ویسا لڑکا نہیں ہوں ایک شریف آرمی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں ۔۔۔ میں اس لڑکی کو بھی نہیں جانتا اور آپ جن کے پیچھے تھے۔ وہ سب بھاگ گئے ہیں ۔ میں تو یہاں بس اپنے دوست سے ملنے…“شانی نے مصلحت سے سرد پڑتے چہرے سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔۔برف کی لپیٹ تو فاریہ کے وجود کو بھی جکڑ گئی تھی ۔”بس بس بہت ہوا ۔۔پکڑے جانے پر سب ہی شریف خاندان سے نکلتے ہیں ۔۔۔ چلو سیدھے طریقے سے پولیس اسٹیشن ۔۔!“وردی بردار نے پاٹ دار آواز میں اسے ٹوکتے ہوئے نخوت سے سر جھٹکا تھا ۔۔شانی بھونچکا رہ گیا ۔۔”دیکھیئے میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔میں تو یہاں آیا بھی پہلی دفعہ ہوں اور مجھے نہیں پتا یہاں کوئی ایسی ویسی جگہ بھی ہے ۔۔یقین کریں میرا ۔۔۔ “شانی اُنھیں پھر سے سمجھانے کی تک و دد کر رہا تھا اسی اثناء میں ایک پولیس اہلکار فاریہ کے قریب آیا تھا ۔۔وہ بدک کر شانی کی سمت ہوئی ۔۔بات کرتا شانی چونکا تو اس آدمی کو فاریہ کے پاس کھڑا دیکھ اپنی بات روک کر تیزی سے بازو کچھ فاصلے سے ان کے درمیان حائل کر فاریہ کا بچاؤ کیا تھا ۔۔”آپ پلیززز دور رہ کر بات کریں ۔۔لڑکی کے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔“اس کا لہجہ تمیز دار مگر آنکھوں میں کڑا پن جھلکا تھا ۔۔وہ بہت ضبط سے کام لے رہا تھا ۔۔وہ لڑکی جو بھی تھی اس پہر اس کے لئے قابلِ احترام تھی۔۔اور اس کی مردانہ انا اسے گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ وہاں کھڑا بس اپنی ذات کا بچاؤ کرے۔۔۔فاریہ نے ممنونیت سے اس کا بچاؤ کرتے اس اجنبی کو دیکھا تھا ۔۔اونچا لمبا قد ،چوڑے شانے ، وجیہہ شخصیت ۔چمکتی رنگت پر تیکھے نقوش جو اب کہ غصے میں ہونے کے باعث کچھ اور تیکھے ہوگئے تھے۔۔صبر و برداشت سے اس کا چہرہ تمازت کی سرخیوں میں ڈھلا ہوا لگ رہا تھا ۔۔اور گلے کی کنٹھ حرکت کر رہی تھیں ۔۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا وہ اس وقت ضبط کی انتہا پر کھڑا ہے ۔وہ جو بھی تھا اس نے اپنے اچھے اور شریف خاندان سے ہونے کا ثبوت دے دیا تھا ۔ جان پہچان نہ ہونے کے باوجود بھی وہ فاریہ کے لئے کھڑا ہو گیا تھا ۔ فاریہ نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا عورتوں کو عزت دینے والا مرد دیکھا تھا۔ ورنہ تو اس کی زندگی کا محور ان دو مردوں کے گرد گردش کرتا تھا۔۔ایک باپ جو تین سال سے اس کی خیر خبر لینے کو راضی نہ تھا اور دوسرا سوتیلا بھائی جس کے نزدیک فاریہ کبھی بھی عزت کے قابل نہیں رہی تھی۔۔وہ بات بے بات اسے بے عزت کردیا کرتا تھا اور اس کے کردار پر بات کرنا تو جیسے فرض تھا اس پر۔۔وہ چٹکیوں میں اپنی غلاظتیں اگلتی زبان کے تیروں سے اس کے نازک وجود کو نشانہ بنا، آئے روز چند افئیرز کی من گھڑت کہانی بُن اسے رسوا کر دیتا تھا۔۔۔”کیا مرد ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ ؟“فاریہ نے خود سے سوال کیا تھا۔ کیا کسی مرد کی تربیت اتنی اچھی بھی ہوتی ہے ۔۔؟ کیا ہی خوش نصیب ہوگی وہ عورت جو اس کا نصیب ہوگی۔ ۔۔ اور آسماں پر ایک صدا پہنچی تھی۔۔نصیب کی تختی پر برسوں سے لکھی سطر میں مہر لگی تھی ۔۔۔ ”لو مجنوں کو غصہ آ گیا ۔۔جب خود اسے ایسی جگہ لا رہا تھا ۔۔تب خیال نہیں آیا تھا ۔۔اور اب دیکھو تو اس لڑکی کو منہ کیسے چھپا رہی ہے۔۔۔یہ بھی لڑکیوں کی چالاکیاں ہیں ۔۔امیر لڑکوں پر جال پھینکتی ہیں اور ۔۔“اس نے فاریہ کو سرتاپا تولتی نظر سے دیکھتے ہوئے طنز کیا تھا ۔۔فاریہ کا چہرہ دھواں چھوڑتا گردن سے لگ گیا ۔۔آنکھیں میچ کر سسکی بھری تھی۔۔۔اس کی تمسخراہٹ پر شانی کے دل میں ابال اٹھے تھے۔۔من چاہا اپنے خاندان کی سکھائی تربیت کو چھوڑ چھاڑ اس وردی میں ملبوس شخص کا جبڑا توڑ کر رکھ دے۔۔وہ چپ تھا تو بس میر خاندان کی عزت میں۔۔۔ورنہ نڈر پن سے دنگے فساد کرنا اور اس طرح نچلی لیول پر اترے اور معیار سے گرے اوچھے مردوں کو ان کی اوقات یاد دلانا اسے آتا تھا ۔۔آرمی خاندان سے تھا۔۔۔بریگیڈئیر دادا کا خون شامل تھا۔۔آرمی آفیسر نہیں تھا تو کیا ۔۔ولولہ اور جذبہ تو ورثے میں ملا تھا۔۔۔”تمیز سے بات کیجئے ۔۔کسی عورت پر اس طرح بہتان نہیں لگا سکتے آپ ۔۔کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ہمارے خلاف ۔۔آپ کو کوئی حق نہیں ہے کسی پر اس طرح الزام تراشیاں کرنے کا۔۔“شانی نے تلملاتے ہوئے باز پرس کی تھی۔۔”بتاؤں کیا ابھی تمیز سے بات کیسے کی جاتی ہے ۔ “دوسرا پولیس والا جارحیت سے چینختا شانی پر ہاتھ صاف کرنے آگے آیا تھا ۔۔فاریہ کا دل کسی شکنجے میں آیا ۔ ”سر پلیززز!“وہ ایک دم آگے آ گئی ۔۔شانی نے سٹپٹا کے اسے دیکھا تھا ۔۔فاریہ نے ایک خاموش نظر اس اجنبی پر ڈالی اور پھر ان سے مخاطب ہوئی ۔۔”دیکھیئے سر یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ ۔ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے ۔۔اور میں ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔۔میں یہاں جاب کا پتا کرنے غلطی سے غلط پتے پر اتنی دور آ گئی تھی ۔۔بس اس کے علاؤہ مجھے اس جگہ کا کوئی علم نہیں ۔۔پلیزز سر ہمیں جانے دیجئے ۔۔“فاریہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائی تھی۔۔شانی نے لب بھینچ لیئے ۔۔وہ لڑکی بہت معصوم اور کم عمر تھی ۔۔اور اس سے بھی زیادہ نیک اور دردمند دل کی مالکہ ۔۔۔۔شانی نے ایک ہی نظر میں اسے پرکھ لیا تھا ۔۔ ”ایسے کیسے جانے دیں۔۔چپ چاپ تھانے چلو ۔۔ریڈ میں پکڑے گئے ہو۔۔۔“وہ ہتھے سے اکڑ چکے تھے ۔۔فاریہ کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا ۔۔۔گھبرا کر نفی میں سر ہلایا ۔۔”سر ہم ان میں شامل نہیں تھے۔“اس نے شدت سے روتے ہوئے اپنی سی کوشش کی تھی ۔”چلو چلو تھانے وہاں جا کر صفائیاں پیش کرنا۔۔اور اپنے گھر والوں کو بھی بلانا ۔۔انھیں بھی تو پتا چلے گھروں سے جھوٹ بول کر کہاں کیسی جگہوں پر موج مستی کرنے آتے ہو۔ “انھوں نے اس کی ایک نہ سنی اور زبردستی پولیس وین میں بٹھانے لگے ۔۔۔”دیکھیئے اس طرح بنا کسی لیڈی کانسٹیبل کے انھیں لے جانا غیر قانونی ہے۔۔۔آپ کے پاس کوئی لیڈی کانسٹیبل نہیں ہے ۔۔اور پی پی سی کے مطابق کسی لیڈی کانسٹیبل کے بنا کسی عورت کو اریسٹ کرنا یعنی قانون توڑنا ہے ۔۔“شانی نے اُنھیں تنبیہ کی تھی۔۔”ہمیں قانون کے پاٹ پڑھانے سے اچھا تھا چند کتابیں خود پڑھ لیتے تو لڑکی کو لے کر اس جگہ نہیں ملتے ۔۔“اس نے تنفر سے کہتے ہوئے اسے جیپ میں دھکیلا تھا ۔۔اتنے میں ایک لیڈی کانسٹیبل تیزی سے بھاگ کر وہاں آئی تھی ۔۔”سوری سر لیٹ ہو گئی ۔۔“اس نے آتے ہی سیلوٹ کیا اور شانی کے ساتھ فاریہ کے چہرے پر بھی خوف سمٹ آیا تھا ۔ مطلب اب وہ نہیں بچ سکتی تھی ۔۔لیڈی کانسٹیبل آ گئی تھی اور اسے لے کر جا بھی سکتی تھی ۔۔جواز ختم ہو گیا تھا ۔ شانی نے لب بھینچ کر اس لڑکی کو دیکھا تھا۔۔جس کا سانس اٹکا ہوا تھا ۔۔”کوئی بات نہیں ۔۔لڑکی کو گاڑی میں بٹھاؤ ۔۔“اس کرخت چہرے والے وردی بردار نے بگڑ کر کہا ۔اس نے مڑ کر بنا فاریہ کی منت سماجت پر کان دھرے اسے زبردستی گاڑی میں دھکیلا تھا ۔ ”میں آپ کو کتنی بار کہوں میں اس جگہ صرف اپنے دوست سے ملنے آیا تھا ۔۔“شانی کے تیور غصیل ہوئے تھے ۔انھوں نے کان لپیٹے روتی بلکتی ناکردہ گناہ کی معافیاں مانگتی فاریہ کو بھی اندر بٹھایا اور چل پڑے ۔۔فاریہ کے موٹے موٹے آنسوں اس کی ہتھیلیوں پر گرنے لگے۔۔۔جیپ تھانے کی سمت تیزی سے رواں تھی۔۔۔گمبھیر کشیدہ فضا نے پولیس جیپ کی لوہے کی دیواروں سے لپٹی خاموشی کو سیاہیوں میں اتارا تھا۔۔شانی کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو رہی تھی ۔۔اس کے چہرے کی پراگندگی اس قدر بھیانک لگ رہی تھی کہ فاریہ اپنے سامنے بیٹھے اسے دیکھ رہی تھی تو دل بند ہو رہا تھا ۔۔ان کے ذہنوں میں انتشار مچا ہوا تھا۔۔۔ اب کیا ہوگا ۔۔۔؟ اس نے سوچتے ہوئے اس اجنبی کے گمبھیر خاموشی سے سنے چہرے سے نظر ہٹائی اور بے چینی سے باہر دیکھا۔ پرسکون چلتی ٹریفک رات کے اندھیروں میں گڈ مڈ ہو رہی تھی ۔۔اس نے کانپتے ہاتھوں کی مٹھی لبوں میں رکھی۔۔۔ بد