اس اونچی عمارت کے باہر لب کچلتی ہوئی شانی کے انتظار میں کھڑی فاریہ کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔شانی کو اندر گئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا ۔۔اسے فکر بھی تھی اور تشویش بھی ۔۔
مزید کچھ وقت سرکا تو وہ اسے کچھ مایوس سا باہر آتا دکھا تھا۔۔اس کے گم صم چہرے کو دیکھتے ہوئے وہ ایک دم اس کے پاس چلی آئی ۔۔
”کیا ہوا؟ کچھ پتا چلا ؟“اضطراب سے انگلیاں مروڑتے ہوئے وہ بے تابی سے پوچھنے لگی تو شانی نے کندھے جھکا کر سر نفی میں ہلا دیا ۔۔فاریہ کا دل ڈوب کر ابھرا ۔
”کیا مطلب ۔۔؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ۔۔بابا تو اسی کمپنی میں جاب کرتے تھے ۔۔“فاریہ کے حلق میں پھندا پڑا ۔
”ہاں مگر چھ ماہ پہلے ۔۔اس کے بعد انھوں نے یہاں سے ریزائن دے کر کہاں جاب اسٹارٹ کی ۔۔انھیں اس متعلق کچھ خبر نہیں ۔۔میں نے بہت انسسٹ کی ان سے کہ اگر کوئی معلومات فراہم کر سکیں تو پلیززز ۔۔۔مگر انھیں کچھ خبر نہیں ۔۔اب تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔۔یہ آخری امید تھی ہمارے پاس۔۔اب کہاں ڈھونڈوں گا میں تمہارے بابا کو ۔۔۔ پتا ہے تمہارے محلے میں بھی کل گیا تھا میں ۔۔مگر وہاں بھی مجھ سے کوئی ملنے کو تیار نہیں ۔۔اور تمہاری ماں اور بھائی نے تو پھر سے تماشا لگا دیا تھا ۔۔انھوں نے بھی تمہارے بابا کا نیا فون نمبر دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔۔۔ تمہارا کوئی رشتے دار بھی نہیں جس سے ان کا نمبر مل سکے ۔۔اب کیا کریں ؟“شانی نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹیک لگا کر اس کی رائے طلب کی تھی۔۔فاریہ کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔۔اس کی ٹوٹتی امیدیں شانی کو رنجیدگی کا احساس دلانے لگیں ۔۔وہ اس کی آنسوؤں سے بھرتی ہوئی آنکھوں کو دیکھ چکا تھا ۔۔
”کوئی بات نہیں تم فکر نہ کرو۔۔کبھی نہ کبھی تو ہم ان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے ان شاءاللہ ۔۔تم بس ہمت رکھو۔۔اور ویسے بھی تم فی الحال میرے گھر میں ہو ایک محفوظ پناہ میں ۔۔تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔اور تم جب تک چاہے وہاں رہ سکتی ہو۔۔۔ہاں اگر میرے ساتھ چھپ کر رہنے میں پرسکون نہیں ہو تو میں تمہارا انتظام تب تک کسی ہوسٹل میں کرا دیتا ہوں۔۔کیا پتا ہمیں انکل کی تلاش میں مزید کتنا وقت لگ جائے ۔۔کچھ کہا نہیں جا سکتا اور میں جانتا ہوں تمہیں میرے ساتھ رہنے میں کتنا مسئلہ پیش آ رہا ہے ۔۔“
شانی اس کو تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے اسے بہلانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
”مجھے پلیز گھر لے چلیں ۔۔“وہ اس وقت شانی کی کسی دلیل کو نہیں سننا چاہتی تھی ۔۔وہ بس اب کمرے میں بند ہو جانا چاہتی تھی ۔۔اس کی ملتجیانہ بھرائی ہوئی آواز پر وہ ایک دم چپ کر گیا تھا ۔۔اس کی آنکھوں میں جھانکا ،اس کی حالت ایسے ہو رہی تھی جیسے ابھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے گی ۔۔۔ اسے بس رونے کے لئے ایک جائے پناہ چائیے تھی ۔۔شانی نے خاموشی سے سر ہلایا اور اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتا ہوا چل پڑا ۔۔اپنے آنسوؤں پر قابو پاتی فاریہ اس کے پیچھے گئی تھی۔۔۔اسے رونا آ رہا تھا ۔۔کیا واقعی میں اس کے باپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی ۔۔ایک دفعہ بھی اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔کیا وہ سچ میں اسے بدکردار سمجھ کر اس سے تعلق قطع کر چکے تھے ۔۔ایک بار تو صفائی مانگی ہوتی ۔۔ کوئی باپ کیا ایسا کر سکتا تھا کہ زمانے کی باتیں سن کر اسے سزا دے دے۔۔اس کا دل بہت بری طرح سے ٹوٹا تھا ۔۔وہ اترتی شام کے دھندلکوں میں سمٹ کر شانی کے ہم قدم چل رہی تھی ۔۔اور گہرے ہوتے سائے ایک بار پھر اس کی زندگی میں سیاہی لانے والے تھے۔۔۔
••••••••••••••
نیم اندھیرے کمرے میں قدم رکھتے ہی اسے کسی انہونی کا احساس شدت سے ہوا تھا ۔۔مغرب کی آذان کی مدھر آواز ہواؤں کے دوش پر لہراتی ہوئی کمرے کی کھڑکی سے آتی سماعتوں میں گھل رہی تھی ۔۔ اس وقت کمرے کا اندھیرے میں غرق ہونا اسے عجیب لگا تھا ۔۔اس نے مڑ کر لائٹ جلائی تو سامنے ہی اسے نایاب صوفے پر اکڑوں بیٹھی گھٹنوں کے گرد بازوں لپیٹے پیشانی بازوؤں پر ٹکائے بالکل ساکت بیٹھی نظر آئی تھی۔۔ اسے نایاب کی ملیح بکھری ہوئی حالت دیکھ تشویش ہوئی تھی۔۔اپنا سامان بستر پر اچھالتے ہوئے وہ پریشان سا اس کے پاس آیا ۔۔
”کیا ہوا ہے نایاب؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہے ؟“وہ اس کے عین سامنے رک کر کفس موڑتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔۔وہ ہلی تک نہیں ۔۔ذکاء کی پیشانی کے بل گہرے ہوئے ۔۔
”نایاب۔۔!“وہ کف چڑھا چکا تھا ۔۔اسے ہلکے سے ہلا کر پوچھا تو ایک دم اس کے وجود میں نفرت کی لہر دوڑ گئی تھی ۔۔کرنٹ کھا کر اس نے کسی اچھوت چیز کی طرح ذکاء کا ہاتھ جھٹک دیا تھا ۔ وہ ششدر رہ گیا ۔۔
”ہاتھ مت لگائیے مجھے ۔۔اور خبردار اگر میرا نام بھی لیا تو۔۔“ وہ حلق کے بل دھاڑتے ہوئے انگلی اٹھائے مبارزت کر رہی تھی۔۔ذکاء نے ٹھٹک کر نا سمجھی سے اس کا ایک دم تنفر سے پھٹنا دیکھا تھا ۔۔وہ نڈر پن سے اس کے سامنے تن کر کھڑی ہوگئی ۔۔ذکاء کے لئے اس کا یہ رویہ ناقابلِ فہم تھا۔
”کیا ہوا ہے نایاب تم ایسے کیوں چلا رہی ہو؟“ذکاء نے تحمل اور نرمی سے پیش آتے مصلحت سے کام لیا تھا ۔۔
”واہ۔۔۔ آپ شادی کے بعد بھی ایکسٹرا میریٹل افئیر چلائیں اور میں چلاؤں بھی نہ “وہ حقارت سے بھڑکتی ہوئی منہ سے شعلے برسا رہی تھی۔۔ذکاء کا دماغ بھگ سے اڑا تھا ۔۔
”کیا بکواس کر رہی ہو یہ۔۔کونسا افئیر ؟“وہ بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر گراں آواز سے چینخا تھا ۔۔
”بس کر دیں ذکاء ۔۔اب تو بس کر دیں۔۔بہت بے وقوف بنا لیا ہے آپ نے مجھے اور گھر والوں کو ۔۔اب تو خدا کے لئے سب کو سچ بتا دیں۔۔آپ ابھی تک بھی اس لڑکی کے رابطے میں ہیں ۔۔اس سے ملتے ہیں ۔۔مجھے لگا تھا مجھ سے نکاح کیا ہے تو پرانا تعلق ختم کر کے کیا ہوگا ۔۔مگر آپ نے تو حد ہی ختم کر دی ہے ذکاء ۔۔آپ نہ کہ اس سے تعلق میں ہیں بلکہ آج تو اسے گھر تک بھی لے آئے ہیں ۔۔کل کو گھر کے اندر بھی لیں آئے گے۔۔اور پھر گھر والوں کے سامنے اپنے ناجائز تعلق کو ڈیفائن بھی کریں گے۔۔۔“وہ چینخ چینخ کے نفرت سے اسے دیکھ بے قابو ہونے لگی تھی۔۔اس کے ہاتھوں سے سب ریت کی طرح پھسل رہا تھا ۔۔وہ کیسے برداشت کرتی سب کچھ۔۔ بغیر پائے کھو دیتی تو شاید اتنی اذیت نہ ملتی جتنا پاکر بھی نہ پانے اور پھر کھو دینے کا خوف اس کے اندر جکڑ چلا رہا تھا ۔۔اسے دیوانہ بنا رہا تھا ۔۔
”نایاب ہوش میں ہو تم۔۔کونسی لڑکی۔۔کیسا ناجائز تعلق ۔۔کیا کہہ رہی ہو تم صاف صاف کہو!“ذکاء کی برداشت اور صبر دونوں ہی اب حد سے سوا ہوئے تھے ۔۔یک دم اس نے نایاب کا بازو دبوچ کر اپنے مقابل کیا تھا ۔۔نایاب نے ایک دم اپنا بازو چھڑا کر اسے پیچھے دھکیلا دیا ۔
”میں نے کہا مجھے ہاتھ مت لگائیں ۔۔مجھے نفرت ہو رہی ہے آپ سے ۔۔“نایاب کے چہرے کا ہر نقش اس کی کراہت کی تحریر بیان کر رہا تھا ۔۔اس کی بات ذکاء کے وجود میں انگارے بھر گئی۔۔جس کا دھواں اس کے گرد پھیلنے لگا تھا ۔۔اس نے راکھ کر دینے والی نگاہوں سے نایاب کو گھورا تھا ۔
”اگر اتنی ہی نفرت ہو رہی ہے ،میرا ہاتھ لگانا برداشت نہیں ہو رہا تو اب تک میرے کمرے میں کھڑی کس بات کا انتظار کر رہی ہو۔۔نکلو نا میرے کمرے سے ۔۔میں نے ذرا سی نرمی کیا دکھانا شروع کر دی تم تو اپنی حیثیت ہی بھول بیٹھی ہو ۔۔ جو منہ میں آتا جا رہا ہے بکتی جا رہی ہو۔۔اور کچھ نہیں ملا تو جھوٹی الزام تراشیاں کرنے لگی ہو۔۔ میرے کردار پر کیچڑ اچھال رہی ہو ۔۔شرم نہیں آ رہی تمہیں ۔۔۔“اس نے ایک جھٹکے سے غیض و غضب کی انتہا کو چھوتے اس کے بال جکڑتے ہوئے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔ وہ درد سے سسکی۔۔اس کا چہرہ اشکبار تھا۔۔وہ بہت دیر سے رو رہی تھی ۔۔اس نے اپنی گدی پر مضبوطی سے جکڑی ذکاء کی مٹھی ہٹانے کی حیل و حجت کی تھی۔۔مگر مقابل تو پہلے ہی پورے میر ولا کے مردوں میں غصے کا تیز مانا جاتا تھا ۔۔اس کی سفاکی آج نایاب کا وجود بھی جلانے لگی تھی۔۔
”چھوڑیں مجھے!“جب کوشش کے باوجود وہ خود کو چھڑا نہیں پائی تو کمزور سا احتجاج کرتے ہوئے چلائی تھی۔۔
”اب تو اپنے کمرے اور اپنی زندگی سے نکال کر ہی چھوڑوں گا تمہیں ۔۔“ذکاء نے پھنکارتے ہوئے اسے پیچھے دھکیل کر چھوڑ دیا تھا ۔۔نایاب نے بپھڑ کر اسے دیکھا ۔۔
”آپ کیا مجھے اپنی زندگی سے نکالیں گے ۔۔میں خود آپ کی زندگی سے نکلنا چاہتی ہوں ۔۔جو انسان شادی کرنے کے بعد بھی غیر عورتوں سے تعلق رکھنے مجھے ایسے شخص کے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے۔۔“نایاب نے روتے ہوئے چینخ کر کہا اور ذکاء کی آنکھوں میں پھر سے انگارے بھرے تھے ۔
”نایاب اب زبان کو لگام دو۔۔میں مزید کوئی بھی اپنے کردار پر غیر مناسب بات برداشت نہیں کروں گا ۔۔میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ ۔۔کیا ثبوت ہے تمہارے پاس اس بات کا۔۔؟“وہ چنگھاڑتے ہوئے دو قدم اس کی سمت لپکا تھا۔۔وہ سہم کر پیچھے ہٹی ۔۔
”اب سارے ثبوت میں دادو اور باقی گھر والوں کو دوں گی۔۔اور اس تعلق کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی میں جا کر ان ہی کو سناؤں گی۔۔“وہ بے خوفی سے کہتی باہر کی سمت بڑھ گئی تھی ۔۔
”نایاب!“وہ سلگ کر دھاڑا تھا ۔۔ وہ لزراں کر جہاں کی تہاں تھم گئی۔۔
”اگر تم نے کسی بھی تماشے کے ارادے سے میرے کمرے کی دہلیز پار کی تو دوبارہ کبھی اس کمرے کی شکل نہیں دیکھ پاؤ گی۔۔یاد رکھنا!“
اس نے طیش آور نگاہوں سے اس کی پشت کو گھورتے ہوئے تنبیہہ کی تھی ۔۔اس کا دل ڈوب گیا ۔۔ آنکھیں میچ کر اس نے خود کو مضبوط کیا تھا۔۔ اور پھر سب کچھ پیچھے چھوڑتی وہ تیزی سے دہلیز پار کر گئی تھی ۔۔ذکاء نے سرخ انگارہ آنکھوں سے اس کے قدموں کو اپنے کمرے کی دہلیز چھوڑتے دیکھا تھا ۔۔غصہ پینے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے پیشانی کو انگلیوں سے مسلا۔۔۔ایسا تو ایسا ہی سہی۔۔اب نایاب دوبارہ اس کمرے میں نہیں آئے گی ۔۔اس نے دل میں مصمم ارادہ کیا تھا ۔۔پھر قدموں میں بچھی قالین کو ٹھوکر مار کر باتھ روم میں بند ہوا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد اس کے باہر نکلتے ہی مہر بھاگی بھاگی کمرے میں آئی تھی ۔۔
”ذکی بھائی نیچے ہال میں سب آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔اور نایاب بہت زیادہ رو رہی ہے ۔۔فائقہ چچی بہت غصے میں ہیں ۔۔“پھولی سانسوں کے درمیان بے ربط جملوں کی گردان کرتی مہر ہڑبڑائی ہوئی تھی۔۔ڈریسنگ کے سامنے جاتا ذکاء رکا تھا۔۔ایک شرر بار نظر مہر پر ڈالی ۔۔اس کے گیلے بال پیشانی پر چپکے ہوئے تھے۔۔
”کیا تماشا لگایا ہے اس نے نیچے جا کر؟“اس کا بھینچا جبڑا اور سخت سرد تاثرات دیکھ مہر کا حلق خشک ہوا تھا۔۔
”وہ تو پتا نہیں ۔۔پر سب آپ کو نیچے بلا رہے ہیں ۔۔“وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔۔
”ذکاء نے لب بھینچ کر ہاتھ میں پکڑا تولیہ شدید غصے کے عالم میں زمین پر دے مارا اور تیزی سے مہر کی سرعت پار کر باہر نکل گیا تھا ۔۔مہر کا دل پر ہاتھ پڑا تھا ۔۔جس طرح وہ غصے سے اس کی سمت بڑھا تھا اس کا تو دل ہی اچھل پڑا تھا ۔۔
••••••••••••
وہ دھواں دھار قدم اُٹھاتا تیزی سے سیڑھیاں اتر کر سامنے ہی لگی عدالت میں پیش ہوا تھا۔۔ہال میں سب ہی موجود تھے۔۔۔ساری خواتین اور اور میر ولا کے لڑکے۔۔۔یہ بھی شکر تھا اس وقت دادو اور تینوں ماموں میر ولا میں نہیں تھے۔۔۔مگر تماشا تو لگ ہی چکا تھا۔۔ان تک بھی بات پہنچ ہی جانی تھی۔۔ زرناب پھپھو سامنے ہی صوفے پر عجیب صورتحال میں بیٹھی چہکو پہکو بیٹی کو روتے دیکھ رہی تھیں۔۔ذکاء کو ان کے سامنے بہت شرمندگی ہوئی تھی۔۔ وہ اب صرف پھپھو ہی تو نہ تھیں۔۔ساس بھی بن چکی تھیں ۔۔وہ طوفانی قدم اٹھاتا آیا اور ایک خونخوار نگاہ وسط میں کھڑی نایاب پر ڈالی تھی ۔۔وہ روتے ہوئے نگاہیں پھیر گئی۔۔ذکاء نے سر جھٹکا اور دو قدم مزید آگے جا کر ماں کے سامنے رک گیا ۔۔فائقہ ممانی کی سخت رنجیدہ نظریں اپنے خوبرو بیٹے کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں ۔۔وہ بھی اس لمحے زرناب پھپھو کے سامنے بہت شرمندہ اور ملول تھیں ۔۔۔ذکاء نے ایک نظر زرناب پھپھو کو دیکھا ۔۔ان کے چہرے پر تشویش اور بے یقینی کے تاثرات تھے۔۔۔
”جی ماما آپ نے بلایا ۔۔!“ذکاء نے سنجیدگی سے بات کا آغاز کیا تھا ۔۔
”مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی ذکی ۔۔۔کون ہے وہ لڑکی جس کے ساتھ افئیر ہے تمہارا ۔۔شرم نہیں آئی تمہیں ہمارے خاندان کی عزت ؤ آبرو کو اس طرح یہ گھٹیا حرکت کر کے روندتے ہوئے ۔۔۔ کب سے چل رہا ہے یہ سب۔۔کس لڑکی کی بات کر رہی نایاب.“ ماں کی بے اعتباری دیکھ کر ذکاء کو دھچکا لگا تھا ۔۔وہ کیسے کسی کی بھی کہی سنی بات پر یقین کرکے اس سے نالاں ہو گئی تھیں ۔۔بلکہ ہال میں موجود ہر کسی کا چہرہ اس لمحے بے اعتباری کا آماہ جاگاہ بنا ذکاء کے دل کو مایوس کر رہا تھا ۔۔اقراء ممانی شمیم ممانی ذمان زوار،بلال ۔۔ہر ایک اسے تاسف ؤ ملال سے دیکھ رہا تھا ۔۔ہر نگاہ میں رنج تھا۔۔
”ایسا کچھ نہیں ہے ماما۔۔اسے بہت بڑی غلط فہمی ہو گئی ہے ۔۔بنا کسی ٹھوس ثبوت کے یہ مجھ پر الزام لگا رہی ہے ۔۔میری زندگی میں کوئی دوسری عورت ہے ہی نہیں ۔۔میں ایسا نہیں ہوں۔۔آپ سب جانتے ہیں مجھے ۔۔“اس نے قطیعت سے جھنجھلا کر وضاحت دی تھی ۔۔
”تو پھرکون ہے وہ جو آج صبح گھر تک آئی اور پھر تمہارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر کہیں چلی گئی۔ کون تھی وہ۔۔؟“ذمان نے غصے سے دریافت کیا تھا ۔۔اس کی بات پر ذکاء جھلایا۔۔
”ذمان کون؟ کوئی نہیں تھی۔ میں تو ۔۔ “کہتے ہوئے وہ ایک دم ٹھہر گیا ۔۔صبح کا واقعہ اس کے ذہن کے پردوں پر لہرایا ۔۔جب وہ فاریہ کے ساتھ تھا اور پھر اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گیا تھا ۔۔اف! یا خدایا ۔۔تو کیا نایاب نے اسے فاریہ کے ساتھ دیکھا تھا۔۔اور وہ سمجھ ہی نہیں پایا ۔۔اور بے اعتباری کی یہ آگ پھیل کر ان سب تک پہنچ گئی تھی۔۔اس کا دل چاہا وہ اپنے بال نوچ ڈالے ۔۔اگر نایاب کمرے میں اس بات کا ذکر کرتی تو وہ وہی اسے ساری بات سچ سچ بتا کر کسی طرح سمجھا بجھا لیتا ۔۔مگر اب سب کو کیسے سمجھائے گا وہ۔۔۔ایک دم ہی اس کا دماغ ماؤف ہوا تھا ۔۔اسے اپنے سامنے بالکل اندھیرا محسوس ہونے لگا تھا ۔۔۔۔
”اب بولو۔۔چپ کیوں ہو گئے ہو ۔۔ کون تھی وہ لڑکی ۔۔؟“اقراء ممانی کو اس کا ایک دم چپ ہو جانا کھٹکا تھا۔۔ذکاء نے بے بسی سے انھیں دیکھا تھا ۔۔ عجب پس و پیش کی لہر اٹھی تھی۔۔وہ کیا بتائے ۔۔شانی نے فاریہ کے متعلق سب سے چھپا رکھا تھا۔۔وہ کب اور کیسے سب کو اعتماد میں لے کر اسکے متعلق بتانا چاہتا تھا وہی جانتا تھا۔۔ذکاء اس طرح یہ معاملہ کھول نہیں سکتا تھا ۔۔اور آج اگر وہ نہیں کھولے گا تو سب کی نظروں میں مشکوک اور مجرم بن جائے گا۔۔اور پھر شاید اس کی شادی بھی قائم نہ رہے۔۔۔اس کے سامنے عجیب کشمکش کی صورت آن کھڑی ہوئی تھی۔اس لمحے شانی کو بچائے یا خود کو؟ فیصلہ کر پانا کھٹن مرحلہ تھا۔۔اور وہ اب نکاح کر چکا تھا تو اس رشتے کو نبھانے کی کوشش بھی کرنے کا سوچ چکا تھا۔۔مگر اس وقت اسے نایاب زہر لگ رہی تھی ۔۔جس نے بنا جانچ پڑتال کے نیچے آ کر تماشا لگا دیا تھا ۔۔اس کی رنگت سفید پڑ گئی تھی۔۔نظریں زمین میں گڑھ گئی تھیں ۔۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں ؟“شانی کی تشویش بھری آواز پر سب نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا ۔۔ذکاء بھی چونک کر گھوما تھا۔۔سامنے ہی بیرونی دروازے سے اندر آیا شانی ہونق شکل لیئے کھڑا ہال کا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔ فاریہ خارجی دروازے کے باہر ہی ایک طرف کھڑی ہو گئی تھی ۔۔ اندر کی آوازیں بالکل بھی کسی اچھی خبر کا عندیہ پیش نہیں کر رہی تھیں ۔۔
”بتاؤ ذکاء کون تھی وہ لڑکی ۔۔اور کب سے تعلق ہے تمہارا اسکے ساتھ ۔۔؟“شانی کے سوال کو اس وقت اہمیت نہ دیتی فائقہ ممانی کی پھر اونچی آواز گونجی تھی ۔۔
”ماما کوئی تعلق نہیں ہے میرا اس سے ۔۔آپ بس ختم کریں ابھی کے ابھی یہ معاملہ ۔۔“
ذکاء نے شانی اور پھر دروازے کے باہر کھڑی فاریہ کی جھلک دیکھ کر تیزی سے بات سمیٹنا چاہی تھی۔۔شانی بھی دو قدم آگے بڑھا تھا ۔۔
”کیا ہوا ہے ذکی؟“شانی نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا ۔۔اس نے سر نفی میں ہلایا۔۔
”نہیں یار ! کچھ نہیں ۔۔سب ٹھیک ہے ۔۔تم جاؤ!“اس نے ہلکا پھلکا تاثر دیتے ہوئے اسے وہاں سے بھیجنا چاہا تاکہ فاریہ بھی ہٹ جائے وہاں سے ۔۔۔اسے اس لمحے خود سے زیادہ اس لڑکی کے کردار کی فکر ہوئی تھی۔۔۔وہ بے قصور لڑکی کیوں پستی درمیان میں ۔۔۔مگر نہ شانی ہٹا اور نہ فاریہ کا وجود۔۔۔اس سنگین صورتحال پر سب ہی پریشان تھے ۔
”دماغ درست ہے تمہارا ذکی۔۔تمہارا افئیر چل رہا ہے،تمہاری بیوی نے تمہیں اس کے ساتھ صبح گاڑی میں بیٹھ کر جاتے دیکھا ہے۔۔“ان کے الفاظ جیسے ہی باہر کھڑی فاریہ کی سماعتوں میں پڑے اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔تو کیا یہاں یہ عدالت اس کے لئے لگی تھی۔۔ نایاب نے اسے ذکاء کے ساتھ جاتے دیکھا اور اسے غلط فہمی ہو گئی تھی ۔۔اس نے بے اختیار منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔ ذکاء جس نے اس کے لیئے کیا کچھ نہیں کیا۔۔یہاں تک کہ شانی کو بھی اس سے نکاح کرنے اس کا سہارا بننے کو راضی کیا تھا۔۔وہ تو اسے بھائیوں والا مان دینے لگی تھی۔۔مگر یہاں اس کے ساتھ ذکاء کے تعلق کو اتنی غلط نظروں سے پرکھا جا رہا تھا ۔۔اس کا دل چاہا وہ خود کو ختم کر ڈالے۔۔کیوں وہ سبکے لیے مشکلات پیدا کر دیتی تھی۔۔کیوں اس کا وجود ذکاء کے لئے آزمائش بن گیا تھا ۔۔وہ تو کبھی ذکاء کے لئے کوئی مشکل نہیں کھڑی کرنا چاہتی تھی ۔۔مگر وہ خود ہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا فتنہ بن گئی تھی۔۔ اس گھر میں اس کے وجود کا موجود ہونا ذکاء اور نایاب کی زندگی تباہ کرنے والا تھا۔۔اب ساری زندگی نایاب کو شک رہے گا۔۔شک کا بال تو کبھی نہیں جاتا دل سے ۔۔۔ وہ ان کی شادی شدہ زندگی کا سب سے بڑا روگ بن گئی تھی۔۔اس کا جسم ہانپنے لگا تھا ۔۔صدمہ۔۔ بے حد صدمہ تھا۔۔
اسے اب وہاں نہیں رہنا چاہیے تھا ۔۔وہ کیوں اس گھر پر آفت بن رہی تھی۔۔وہ نمکین پانی سے بھری آنکھوں کو پونچھتے ہوئے وہیں سے پلٹ گئی تھی۔۔۔واپس اس گھر میں کبھی نہ آنے کے لئے ۔۔اور اندر کھڑا کوئی فرد یہ نہیں جان سکا تھا۔۔وہ جیسے خاموشی اور غیر متوقع طور پہ ان کے گھر لائی گئی تھی ۔۔وہ ویسے ہی خاموشی اور غیر متوقع ان کے گھر سے چلی بھی گئی تھی۔
”یہاں ہم سب تم سے جواب مانگ رہے ہیں اور تم اس بات کا خلاصہ کرنے کے بجائے ایسے کھڑے ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔۔“ان کی آواز اونچی نہ تھی مگر سخت اور بے یقین ضرور تھی۔
”ماما صرف اس نے جاتے ہی دیکھا ہے نا مجھے ۔۔اور تو کچھ نہیں دیکھا۔۔اگر میں کسی بھی لڑکی کے ساتھ دکھوں گا تو اس کا فوراً سے یہ مطلب لیا جائے گا کہ میرا افئیر چل رہا ہے ۔۔آپ کی من پسند بہو کا دماغ خراب ہے ۔۔عقل کی اندھی ہے یہ۔۔میں اسی لئے اس سے شادی کرنے سے منع کرتا تھا آپ کو۔۔یہ ہے ہی فسادی عورت!“وہ بھڑک پڑا تھا۔۔جو منہ میں آیا بولتا گیا ۔۔اور یہی پر فائقہ ممانی کا ضبط جواب دے گیا تھا ۔۔زرناب پھپھو کے سامنے وہ ان کی بیٹی کے لئے کس قسم کے الفاظ استعمال کر رہا تھا ۔۔ایک دم وہ ذکاء پر ہاتھ اٹھانے آگے ہوئی تھیں کہ زرناب پھپھو نے اٹھ کر ان کو پکڑ کر روکا تھا ۔۔
”کیا کر رہی ہیں بھابھی۔۔! اب ذکاء بچہ نہیں رہا ،خود مختار اور شادی شدہ بچہ ہے۔۔جوان بیٹے پر ہاتھ اٹھائیں گی کیا آپ اب؟“
”جوان بیٹے نے کام ہی ایسا کیا ہے زرناب آپا! اس نے تو مجھے آپ کے سامنے بھی نظر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔۔شرم آ رہی ہے مجھے اسے اپنا بیٹا کہتے ہوئے ۔۔یہ فخر تھا میرا ۔۔مان تھا۔۔مگر اب یہ میرا کچھ نہیں ہے۔۔اور بے شرم ڈھیٹ انسان کھڑا کیسے ہے یہاں سب کے سامنے ۔۔کوئی اور ہوتا تو ڈوب مرتا۔۔“وہ غضب اور رنجیدگی سے چلاتے ہوئے رو پڑیں تھیں ۔۔ذکاء نے بے بسی اور دکھ سے انھیں دیکھا۔۔ پسیجتے دل سے انھیں تھامنا چاہا تو انھوں نے نفرت سے ہاتھ جھٹک دیئے اس کے۔۔
”ماما میری بات تو سنیں۔۔یقین کریں میرا ۔۔کوئی لڑکی نہیں ہے میری زندگی میں آپ کی بہو کے علاؤہ ۔۔اس بات کی قسم کھاتا ہوں میں ۔۔اور جس لڑکی کے ساتھ اس نے مجھے دیکھا وہ صرف اس کا دھوکا تھا۔۔“ذکاء نے ماں کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی ۔۔جبکہ شانی ورطہ حیرت میں مبتلا کھڑا ابھی تک معاملے کی تہہ تک بھی نہ پہنچ سکا تھا ۔۔وہ تو آج سوچ آیا تھا سب کو فاریہ کے متعلق بتا دے گا۔۔مگر یہاں آتے ہی ایک نیا کٹا کھل گیا تھا ۔۔اور پھر اچانک اسے فاریہ کا خیال آیا تھا ۔۔ایک دم سے ٹھٹک کر مڑتا وہ لپک کر دروازے کی سمت گیا تھا ۔۔جہاں کی خالی جگہ نے اس کا منہ چڑا کر اسے بڑی شدت سے کسی ان دیکھی مصیبت کا احساس دلایا تھا۔۔
”فاریہ!!“ اس کے لبوں پہ یہ نام حرف آخر بن کر آیا تھا اور پھر وہ بوکھلا کر اسے تلاشنے کو باہر لپکا تھا ۔۔وہ اندر نہیں آئی تھی۔۔وہ کمرے میں بھی بنا شانی کی مدد کے نہیں جا سکتی تھی ۔وہ باہر ہی گئی تھی۔۔۔اور شانی فوراً باہر ہی بھاگا تھا ۔
”کوئی دھوکا نہیں ہوا مجھے ۔۔میں نے جو دیکھا وہ سب حقیقت تھا۔۔آپ میری بات جھٹلا نہیں سکتے.“نایاب نے رونا چھوڑ کر ایک دم چینختے ہوئے ذکاء کو دیکھا تھا ۔۔وہ روتی ہوئی فائقہ ممانی کو چپ کرانے کے چکروں میں ہلکان ہو رہا تھا ۔۔اس کی بات پر تلملا کر دانت پیس ایک جھٹکے سے گھوما ۔
”زبان بند کرو اپنی تم بے وقوف عورت۔۔۔ اب اگر تمہاری آواز نکلی نا تو میں ۔۔۔“وہ ضبط نفس سے اس کے منہ پر دھاڑا تھا ۔۔وہ بے اختیار ڈر کر پیچھے ہٹی تھی ۔۔
”میں کیوں بند رکھوں زبان اپنی ۔۔آپ اب اس سچ کو دبا نہیں سکتے ۔۔مان جائیں سب کے سامنے ۔۔کیوں اب بھی جھوٹ بول کر سب کو دھوکا دینا چاہتے ہیں آپ ۔۔سچ کیوں نہیں بتاتے سب کو.“نایاب بے خوفی سے بولی تھی ۔۔ذکاء کی آنکھوں میں آتشی لاوا ابھرا تھا۔۔اس کی چلتی زبان اب اس کی برداشت سے باہر تھی۔۔
”نایاب!“ وہ یک دم اس کی گل افشانی پر اس کو تھپڑ مارنے کے لئے آگے بڑھا ۔۔ہاتھ ہوا میں لہرایا ہی تھا کہ فائقہ ممانی نے ایک دم نایاب کو پیچھے کر کے اپنے ہاتھ کا طمانچہ ذکاء کے گال پر جڑ دیا تھا ۔۔ہال میں موجود ہر فرد سن کھڑا رہ گیا ۔۔خواتین نے دل تھام لیئے ۔۔اور لڑکے ہکا بکا کھڑے رہ گئے ۔۔یہ ہنگامہ پہلی بار میر ولا میں لگا تھا۔۔وہ بھی اس قدر سنگین نتائج کا۔۔جبکہ نایاب کے حلق میں چینخ دب گئی تھی۔۔ذکاء نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا تھا۔۔اسے طمانچے کی جلن نہیں تھی۔۔اس کی آنکھوں میں چبھن بس اس بات کی تھی کہ وہ پہلی بار ماں سے طمانچہ کھا چکا ہے ۔۔وہ بھی ایک بے معنی سی غلط فہمی کی بناء پر۔۔۔پھر اس کی غضب ناک نظر ماں کے ساتھ دبکی کھڑی نایاب پر اٹھی تھی ۔۔اس کے چہرے پر اب بس پچھتاوا تھا۔۔۔وہ یہ تو کبھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کا شوہر ماں سے مار کھائے۔۔ ہاں مگر وہ یہ ضرور چاہتی تھی کہ اب ان کا معاملہ آر پار لگا دیا جائے ۔۔اور اگر ذکاء اس ہی لڑکی کو اپنی زندگی میں لانا چاہتا تھا تو بہتر تھا آج ہی اس بات کا خلاصہ بھی ہو جاتا۔۔۔مگر یہاں تک پہنچ کر بات بڑھ نہیں بگڑ گئی تھی۔۔اس نے چبھتی نظروں سے نایاب کو گھورا اور خاموشی سے مڑ کر سیڑھیاں پھلانگ گیا ۔۔فائقہ ممانی نے بیٹے کو روکنا چاہا تھا مگر ہمت نہ پڑی ۔۔لیکن نایاب ایک دم اس کے پیچھے بھاگی تھی۔۔باقی سب اپنی جگہ پر ہی جمے رہ گئے تھے۔۔۔منتشر ہوا ماحول ایک دم تھم سا گیا تھا ۔۔ نایاب بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے آئی تھی ۔۔وہ کمرے میں گھسا اور مڑ کر نفرت سے اسے گھورتے ہوئے اس کے منہ پر دروازہ دھڑام سے بند کر دیا تھا ۔۔ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔۔۔اور پچھتاووں اور افسوس میں گھری نایاب باہر ہی کھڑی رہ گئی تھی۔۔۔لیکن اس بات کا انکشاف ہو چکا تھا اس پر کہ اب اس کمرے میں نایاب کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔۔اور نہ اس کی زندگی میں کوئی گنجائش ۔۔۔جانے کیوں اب نایاب کو لگ رہا تھا اس نے اس معاملے میں بہت جلد بازی سے کام لے لیا ہے۔۔۔اور اب یہ معاملہ دادو تک پہنچ کر پتا نہیں کس رنگ میں سامنے آتا ۔۔اس کا دل بری طرح پریشان ہو اٹھا تھا ۔۔ایک بے بس نظر ذکاء کے کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر وہ آنسوں پیتی ہوئی اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔۔۔اتنے دن ذکاء کے کمرے میں رہنے کے بعد اب اپنا کمرہ اسے اجبنی لگنے لگا تھا۔۔وہ جاتے ہی بستر پر گر کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔۔
••••••••••••
جاری ہے