آج شانی صبح ناشتے کے بعد سے ہی کمرے میں موجود سپلی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔۔
سر پر ایک کے بعد دوسری ٹینشن سے حالت ہی بے زار تھی۔۔۔کمرے کے ایک کونے پر سٹڈی ٹیبل اور اس کے سامنے دھری کرسی پر بیٹھا وہ پورے دھیان سے پڑھائی میں مگن تھا۔۔۔فاریہ گم صم سی بیڈ کے ایک کونے میں لگی ہوئی تھی کہ وہ غلطی سے بھی ڈسٹرب نہ ہو اس کی موجودگی سے۔۔۔۔شانی کو پڑھتے دیکھ اس کے دل میں ہوک اٹھی تھی ۔۔اس کا تو میٹرک بھی بیچ میں ہی اٹکا رہ گیا تھا ۔۔ماں کے انتقال پر جو صدمہ لگا تھا تو پورے تین سال تک وہ سنبھل نہیں پائی تھی۔۔۔پڑھائی تو چھوٹی ہی زندگی کے معنی بھی بدل کر رہ گئے تھے ۔۔پورے تین سال ضائع ہو گئے تھے اور اب جب کچھ ہمت کر کے زندگی کی سمت واپس آ پڑھائی جاری کرنے کا سوچا تھا تو مسائل ہی ختم نہیں ہونے میں آ رہے تھے ۔ یکے دیگرے بعد مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا۔۔دل پر عجیب ہی بوجھ ٹہرا تھا ۔۔آنے والے کل کو لے کر سوچوں کی ڈوریاں جانے کہاں کہاں الجھی تھی۔۔۔۔زندگی کی ستم ظریفی اور اچانک سے پلٹا کھانا ، اب تو اپنا آپ ہی اسے تھکا رہا تھا ۔وہ یہاں اس جگہ غیر ضروری سی تھی ۔اسے اپنا آپ بیکار سا محسوس ہوتا تھا ۔کسی پر بھی ایک بوجھ بن کر رہنا ایک خودار انسان کے لیے بے انتہا مشکل ہوتا تھا۔۔اور یہاں فاریہ کے لئے بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے۔۔۔مانا کہ جس شخص کے پلے وہ پڑی تھی وہ بہت اچھا اور مختلف تھا۔۔کسی بات کا طعنہ یا جتانا نہیں کرتا تھا ۔۔مگر وہ جانتی تھی وہ ایک ایسی جگہ پر اس لڑکے کو ملی تھی یا کوئی بھی ملے تو بد کردار ہی سمجھیں جاتی ہے ۔۔وہ تو ابھی شانی کے سامنے اس الزام سے بھی بری نہیں ہوئی تھی۔۔پتا نہیں وہ بھی اس کے متعلق کیا سوچتا ہوگا ۔۔دل میں بات تو ہوگی ہی۔۔ہاں کہتا نہیں تھا ۔۔
بیڈ کی سطح کو یونہی کھرچتی وہ بجھی بجھی سی جانے کہاں گم تھی۔۔۔شانی اچانک اکڑی کمر کے درد کو دور کرنے کے لیے انگڑائی لیتا سیدھا ہوا تو نظر اس پر پڑی ۔۔اسے پریشان دیکھ کر لہجے میں الجھن سمائی ۔۔۔گلا کھنکار کر اسے متوجہ کیا۔۔۔وہ جوں کی توں بیٹھی رہی ۔وہ پریشان ہے یہ لا علمی کی بات نہیں تھی مگر وہ کھوئی کھوئی سی کیفیت میں مبتلا اسے اچمبھے میں ڈال گئی تھی۔
” کیا بات ہے۔۔۔ٹھیک ہو ۔۔طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ؟ “اسے یوں پریشان دیکھا تو پوچھ لیا۔۔۔۔
وہ چونکی۔۔۔۔
”جی ؟“شانی کی سنجیدہ آواز پر وہ جیسے حال میں لوٹتی سیدھی ہو بیٹھی۔۔اس کی جی سوالیہ تھی۔۔
” میں نے پوچھا.. پریشان لگ رہی ہو۔سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔“ شانی کے لہجے میں ہمدردی اور فکر ساتھ بولی تھی۔۔
”جی میں ٹھیک ہوں .بس“ آگے وہ دانستہ پھیکا سا مسکرا کر خاموش ہو گئی۔۔۔
”بس۔۔۔؟ “ وہ سوالیہ بھنویں اچکائے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ترچھا انداز فاریہ کو شرمندہ کر گیا ۔۔
”کیا کچھ چاہیے.“ شانی نے نرمی سے دریافت کیا ۔وہ اور پریشان ہو اٹھی ۔۔
”نہیں نہیں ۔..کچھ نہیں چاہئے ،آپ پریشان نہ ہوں ۔“وہ جلدی سے سر نفی میں ہلاتی یونہی قمیص کا دامن درست کرنے لگی ۔۔شانی کی نظر مردانہ سوٹ کے دامن کی شکنوں پر جم گئیں ۔
اسے افسوس ہوا۔۔۔آج وہ پورا دن فری نہیں رہا تھا تو اس کے لئے سامان نہیں لا سکا تھا۔۔۔ورنہ اس نے سوچ رکھا تھا فری ہو کر اس کی ضرورت کی چیزیں خرید لائے گا ۔۔۔
”آئم سوری ۔۔تمہیں دو دن سے میرے سوٹ میں رہنا پڑ رہا ہے ۔۔یہ بہت انکمفرٹیبل ہوگا نا۔۔آئی نو۔۔۔بس تم صبح تک مینیج کر لو ۔۔میں کل ہی جا کر تمہاری ضرورت کی چیزیں لا دوں گا۔۔ تم نا مجھے لسٹ بنا دینا ۔۔“
اپنے لیے اس نیک دل شخص کو اتنی فکر مندی اور مشکلات اٹھاتے دیکھ وہ واقعی میں اپنے آپ میں شرمندگی محسوس کرتی تھی ۔ وہ بے چارا تو بلا وجہ ہی گھن چکر بن گیا تھا۔۔۔تمام گھر والوں کا ان نازک حالات میں سامنا کرنا ، اس کا بھی خیال رکھنا ،اس پر متضاد پھر ایسے ہی موقع پر سپلی کا سر پر ہونا ان سب کاموں کو وقت پر انجام دینا کوئی آسان کام تو نہ تھا۔وہ دل سے ممنون ہوتی تھی اس کی ہمت پر ۔ اس کے احساس پر ۔اور ایسے احسان پر جو اس پر انجانے میں وہ کر رہا تھا ۔ اس کے علاؤہ اسے افسوس بھی ہوتا تھا اس کے حالات پر۔۔
”تم بور ہو رہی ہو شاید ۔۔۔ایک کام کرو نا تم یہ میرا لیپ ٹاپ لو اور اس پر پروگرام ، کوئی ٹاک شو وغیرہ دیکھ لو ۔۔یا تمہیں جو بھی پسند ہو مووی ڈرامہ وہ دیکھ لو..“شانی سٹڈی ٹیبل سے لیپ ٹاپ اٹھا لایا اور اس کے سامنے بیڈ پر رکھ دیا۔۔۔۔فاریہ نے نرمی سے اسے دیکھا تھا ۔کتنا سادہ سا شخص لگتا تھا وہ کبھی کبھی۔۔۔اور بےحد معصوم بھی۔۔۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔ارے ذہن بٹ جائے گا۔۔بوریت بھی دور ہو جائے گی.“
اس کے ایسے دیکھنے پر وہ مسکرایا تھا ۔لیکن اس نے اپنی طرف سے کم و پیش یہی اندازہ لگایا تھا کے شاید وہ ایک کمرے میں بند رہنے کی وجہ سے اچاٹ دل ہورہی ہے۔۔۔فاریہ نے متعجب ہو کر اسے پھر سامنے رکھے اس لیپ ٹاپ کو دیکھا۔۔۔چہرے پر خفت سی لہرائی اسے وہ چلانے ہی کہاں آتا تھا۔۔۔اس کے پاس تو فون تک نہیں تھا تو یہ مواصلاتی آلات استعمال کرنا تو دور کی بات تھی۔۔۔اس کی سوالیہ نظروں پر اثباتاً گردن ہلا دی وہ مسکراتا پلٹ گیا۔۔پھر الماری کی سمت آیا ۔۔پڑھائی کرتے ہوئے کچھ بے زار سا ہوا تھا تو بریک لے کر سوچا الماری ہی سیٹ کر لے۔۔ویسے بھی فاریہ کے سامنے اس الماری سے ابلتے کپڑوں کے طوفان نے بڑا شرمندہ کرایا تھا ۔۔
اس نے جیسے ہی الماری کے پٹ کھولے تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ حیرانیوں کی لہریں تھی جنہوں نے فوراً شانی کے چہرے کو چھوا تھا ۔۔کبرڈ کی ہر ایک چیز کپڑے یہاں تک کہ جوتے بھی نفاست اور بے حد ترتیب سے سیٹ تھے۔۔ اور اسے پتا تھا یہ بھی فاریہ نے ہی سر انجام دیا ہوگا۔۔وہ آہستگی سے واپس مڑا رسانیت سے پوچھا ۔۔
”یہ تم نے کیا ۔۔۔؟؟ “لیپ ٹاپ کی اس سیاہ پڑی سکرین کو ابھی تک تکتی وہ متوجہ ہوئی۔۔۔۔
”جی !“یک لفظی جواب دے کر وہ ہمہ تن گوش تھی۔۔۔
”کب کیا ؟“وہ بنا پٹ بند کیئے اداسی سے چل کر اس کے پاس آیا ۔۔
”جب آپ کھانا کھانے نیچے گئے تھے تب جلدی سے سمیٹ دی۔۔“اس نے عام سے لہجے میں بتایا ۔۔
”مت کیا کرو یار۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔تم نا اس طرح مجھے سست بنا دو گی۔۔پھر مجھے اپنے کام تم سے کرانے کی عادت پڑ جائے گی ۔۔اور عادت پڑ جانا پڑا خراب ہوتا ہے ۔۔ “وہ بے تکلفی سے کہتے ہوئے اس کے پاس کچھ فاصلہ پکڑ کر بیٹھا تھا۔۔فاریہ نے کن اکھیوں سے وہ فاصلہ دیکھا۔۔یہ گریز اسے اچھا لگا تھا ۔۔
”جب تک یہاں ہوں تب تک بگڑنے دیں عادت ۔۔پھر دوبارہ سے سدھار لیجئے گا خود کو۔۔“اس نے دوستانہ انداز میں تجویز دی تھی ۔۔وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا ۔۔فاریہ کے لئے یہ بڑا دلکش نظارہ تھا ۔۔
”شانی نہیں سدھرتا اتنی جلدی لڑکی!“وہ آہ بھر کر اٹھا اور جا کر پٹ بند کر دیئے ۔۔اب تو اسے خود پر رشک آ رہا تھا ۔۔
”ایک بات بتاؤ ۔۔تم وہاں اس جگہ کیا کرنے گئی تھی جہاں ہم پہلی بار ملے تھے؟“وہ سامنے صوفے پر جا بیٹھا اور یونہی بات بڑھانے کو پوچھ بیٹھا ۔۔فاریہ نے ٹھٹک کر اسے دیکھا ۔۔مطلب اس کے دل میں بات تھی۔۔جو زبان پر آئی تھی ۔۔مگر فاریہ کو برا نہیں لگا تھا اس کا پوچھنا ۔۔وہ خود بھی اسے وضاحت دینا چاہتی تھی ۔۔
”مجھے وہاں اس جگہ سے پچھلی گلی میں جو آفس ہیں ۔۔ادھر کسی نے جاب کے لئے بتایا تھا ۔۔میں وہاں جاب کا پتا کرنے گئی اور غلطی سے وہاں پہنچ گئی تھی ۔۔میں ویسی لڑکی نہیں ہوں ۔۔جیسا مجھے سمجھا گیا.“اس نے سر جھکائے پہلی بار مضبوط اور پُراعتماد انداز میں بات کی تھی۔۔۔
”ہاں۔۔تم ایسی نہیں ہو۔۔مگر لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے والی ضرور ہو۔۔۔کوئی کچھ بھی ایسا کہے جو آپ کو تکلیف پہنچائے تو یہ غلط ہے ۔۔لیکن اگر کسی کے کہنے پر تم دل چھوٹا کرتی ہو تو یہ اس سے بھی زیادہ غلط ہے ۔۔۔ لوگوں کی زبانیں پکڑنے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔بس خود کو مطمئن اور پرسکون رکھنا اہم ہوتا ہے ۔۔اور جو یہ کر جاتے ہیں نا نفسیات کے مطابق وہ دنیا میں آدھی سے زیادہ مشکلات کو اکیلے سہنے کی طاقت دوسروں سے زیادہ رکھتے ہیں ۔۔۔تمہیں پتا ہے نا ہمارے نبیوں پر کتنے الزامات لگے تھے ۔۔لوگوں نے تو ان پر بھی باتیں بنائی تھیں ۔۔جو لوگ نبیوں کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے وہ ہم جیسے خاکسار کے لئے کیونکر رعایت کریں گے۔۔تب بھی وہی لوگ تھے ۔آج بھی وہی لوگ ہیں ۔۔یہ لوگ ہی ہیں جو اس دور اور اس دور میں سچے لوگوں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں ۔۔اور حقیقت تو یہ ہے غلط ہمیشہ سچا ہی ٹھہرایا جاتا ہے ۔۔منافق اور جھوٹے تو بڑے آرام سے نکل آتے ہیں ۔۔غلط کے خلاف اٹھنا اور لڑنا ہمارا کام ہے۔۔۔ اور ہم یہ کام کرتے رہیں گے ۔۔ اسی لئے اب پھر کبھی اس واقعے کو مت سوچنا۔۔۔اور کیا پتا اس میں اللہ کی کیا مصلحت تھی۔۔“
وہ اسے رسان سے سمجھاتے ہوئے اٹھا اور اچانک سے اس کے پاس آ بیٹھا ۔۔فاریہ نے چونک کر اسے دیکھا۔۔وہ لیپ ٹاپ کو اپنی سمت کر کے اسے آن کر رہا تھا۔۔۔ فاریہ نے تحیر سے اسے دیکھا۔۔کیا اسے پتا چل گیا تھا اسے لیپ ٹاپ چلانا نہیں آتا ۔کیا بن بن کہے سمجھ جاتا تھا ۔۔
وہ جلتی اسکرین کی روشنی پر کچھ سرچنگ کر رہا تھا ۔۔فاریہ نے بڑے قریب سے اسے دیکھا ۔۔اتنا قریب سے کہ اس کی آنکھوں کا ہلکا بھورا رنگ بھی اسے واضح نظر آ رہا تھا ۔۔بے ساختہ ہی اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں ۔۔۔اور جب یوں اچانک دل دھڑکنے لگے ۔۔ ذرا سی نزدیکی جان پر بن جائے اور مسلسل دیکھا تک نہ جائے تو اسے کیا کہنا چائیے ۔۔شانی کے کلون کی خوشبو فاریہ کے حواس پر سوار ہوئی تھی ۔۔اسے اپنی سانس کا تسلسل باندھے رکھنے میں بڑی دشواری پیش آئی تھی ۔۔
”یہ لو ۔۔یہ کارٹون مووی ہے ۔۔بہت فنی اور فینسٹی والی۔۔تم اسے دیکھو گی تو موڈ اچھا ہو جائے گا ۔۔“وہ لیپ ٹاپ کا رخ اس کی سمت کرتا اس کے پاس سے اٹھا تو فاریہ کی سانس میں سانس آئی تھی۔۔
جانے کیوں اسے اپنے جذبات سمجھ نہیں آ رہے تھے ۔۔کہیں یہ شخص اسے ہپناٹائز تو نہیں کرتا ۔
وہ اٹھ کر واپس پڑھنے بیٹھ گیا تھا ۔۔مووی چل رہی تھی ۔۔مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی اس کا دھیان اس پر نہیں لگ سکا تھا ۔۔
••••••••••••••