نایاب کے سسرال سے اس کے نکاح کا جوڑا آیا تھا ۔۔ساتھ جیولری ،جوتے اور بھی بہت سا سامان تھا ۔۔دو دن پہلے ہی انھوں نے سب کچھ خرید کر بھجوا دیا تھا ۔۔ سب لان میں بیٹھے بڑی خوشی سے اس کی چیزیں کھول کر دیکھ رہے تھے ۔۔
”نایاب تمہیں سب پسند آیا ۔۔؟ ویسے میں نے تو کہلوا بھیجا تھا اگر تمہیں کچھ پسند نہ آیا تو ہم تمہیں تمہاری پسند کی چیزیں دلوا دیں گے۔۔پھر تم یہ بری میں رکھ لینا ۔۔۔تمہاری ساس کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔کہہ رہی تھیں بس تمہیں خوشی ملنی چائیے ۔“اقراء ممانی کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی ۔۔نایاب نے ایک نظر وہاں ہر شے پر ڈالی ۔۔سب بہت اعلیٰ اور نفیس قسم کا تھا۔۔اور ویسے بھی اس کی اپنی کیا پسند ہونی تھی۔۔جب شخص ہی اپنی من مرضی کا نہیں مل رہا تھا تو ان ایشیاء کی کیا حیثیت تھی۔۔
”جی ممانی جان سب بہت اچھا ہے.“اس نے مسکرانے کی ادنٰی سی کوشش کر کے سر ہلا دیا تھا ۔۔
”تو اٹھا کر کمرے میں لے جاؤ ۔۔ان شاءاللہ پرسوں یہ سب پہننا ہے تم نے ۔۔ یہاں تو یہ دونوں دیکھ دیکھ کر ہی خراب کر رہی ہیں چیزیں ۔۔“فائقہ ممانی نے سنجیدہ سی نظر اس پر ڈالی اور ذیب مہر کا حوالہ دے کر وہ سب وہاں سے کٹوانا چاہا تھا ۔۔ان کا تو دل ہی جل رہا تھا ۔۔اور اوپر سے ذکاء کو بھی آج چھٹا دن ہو گیا تھا۔۔ مگر موصوف تو وہاں جا کر ایسے مصروف ہوئے تھے کہ شروع کے دو دن ہی ٹھیک سے بات کر سکے تھے۔۔اب تو کل تک نہیں لگ رہی تھی۔ فائقہ ممانی کے غصے اور ناراضگی کا گراف بڑھتا جا رہا تھا ۔۔ اوپر نے نایاب کا نکاح ان کے اعصاب چٹخائے جا رہا تھا ۔۔
من پسند لڑکی ہاتھ سے نکل رہی ہو تو کون ہر معاملات میں پرسکون بیٹھ سکتا ہے ۔۔۔انھوں نے نایاب اور اس کے نکاح کے متعلق کوئی کسی سے زیادہ بات نہ کی تھی۔۔وہ تو مہمانوں میں بھی کم ہی بیٹھی تھیں اور پھر بہانہ لگا کر اٹھ آئی تھیں۔۔۔اب بھی وہ وہاں بیٹھی سبزی کاٹنے میں مصروف ہونے کا تاثر دے رہی تھیں ۔۔سب گھر والوں کو ان کی خاموشی کا اندازہ ہو رہا تھا ۔۔مگر اس خاموشی کی وجہ صرف ذکاء جانتا تھا ۔جو ابھی میر ولا میں نہیں تھا ۔۔ فائقہ ممانی کا دل بار بار ان چیزوں کو دیکھ کر سیاہ پڑ رہا تھا ۔۔نایاب نے احتیاط سے سارا سامان اور باکسز ایک دوسرے پر اکھٹے کیئے۔۔ذیب اور مہر آدھا سامان اٹھا کر اس کے کمرے میں رکھنے چلی گئی تھیں ۔۔اور جیسے ہی بچے ہوئے سامان کو نایاب نے ہاتھ ڈالا تو ۔۔۔
”السلام وعلیکم ۔۔!“دروازے کی سمت سے ایک روح کر جھنجھوڑ دینے والی سنجیدہ سرد آواز ابھری تھی۔۔اور یہ آواز تو نایاب کی روح میں اتری ہوئی تھی۔۔۔
”وعلیکم السلام ذکاء!“ ساری خواتین خوشی سے اپنی نشست سے اٹھیں اور جا کر اسے دعائیں دیں۔۔فائقہ ممانی نے دیکھ کر چہرہ موڑ لیا۔۔ذکاء نے مسکرا کر سب کا وافر پیار بٹورا اور ایک نظر مان کے خفا چہرے کو دیکھا۔۔وہ فون پر بھی تین بار اس سے بحث کر چکی تھیں ۔۔نایاب وہی جم کر بیٹھی رہ گئی ۔۔اسے سمجھ نہ آیا وہی بیٹھی رہے یا اٹھ کر چلی جائے ۔۔ذکاء کو نہ دیکھنے کا قصد جیسے مشکل میں پڑا تھا ۔۔
”کیسی ہیں ماما؟“ وہ خود چل کر سامنے آیا تھا ۔۔نایاب نے اپنی پشت پر اس کے جوتوں میں مقید قدم رکتے دیکھے تھے۔۔۔اس نے آنکھیں میچ کر خود کو سنبھالا تھا ۔۔
”ٹھیک ہوں ۔۔تم کیسے ہو؟“ فائقہ ممانی چھ دن بعد گھر لوٹے بیٹے کا جگہ سے اٹھ کر استقبال تو نہ کیا ہاں گھر والوں کی نظر میں آرام سے فارمیلٹی ضرور نبھائی تھی۔۔۔
”جی ٹھیک ہوں۔۔۔ سوری میں دو دن کے بعد ایسا بزی ہوا تھا کہ پھر آپ سے بات نہیں کر سکا۔ پھر سوچا ایک ساتھ ہی مسلسل کام ختم کر کے واپس آ جاؤں ۔۔“وہ لب بھینچ کر سر ہلاتے ہوئے کہہ کر ریسٹ واچ کھولنے لگا ۔۔ ٹیبل کر پاس بیٹھی نایاب نے ذرا کا ذرا چہرہ اُٹھایا تھا ۔۔
بلیک ڈریس پینٹ میں ملبوس کوٹ کہنی پر لٹکائے اس کی وجیہہ شخصیت کا چارم دل میں کھب گیا تھا ۔۔نایاب نے سر جھٹکا اور سامان کے باکسز اُٹھائے تیزی سے نکل جانا چاہا ۔
”مبارک ہو نایاب ۔۔خوشی ہوئی تمہارے نکاح کا سن کر!“اس نے جاتی ہوئی نایاب کے قدم زنجیر کیئے تھے۔۔۔ماں نے شکوے سے نظر اٹھائی ۔۔جبکہ اس کی بے نیاز آواز نے نایاب کے قدموں سے جان کھینچ لی تھی۔۔۔کیا کوئی اس سے زیادہ ستم گر تھا۔۔ آنکھیں میچ کر بنا پلٹے اس نے حلق میں اٹکے آنسوؤں کو پیا تھا۔
”شکریہ..“پھر دھیرے سے کہہ کر آگے بڑھ گئی تھی ۔۔نہ پلٹی اور نہ پیچھے پلٹنے کو کچھ بچا تھا۔
”سنو میں روم میں جا رہا ہوں پلیززز چائے بنا دو ایک کپ!“ اس نے پھر پیچھے سے اسے پکارا تھا ۔۔نایاب کے لئے یہ سب سے مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔۔۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی رہی ۔۔
”اب وہ کچھ دن کی مہمان ہے تو اسے کام سے چھٹی کرا دی ہے سب نے۔۔تم اب اس کے ہاتھ کا ذائقہ بھول جاؤ!“ فائقہ ممانی سبزی اٹھا کر صوفے سے کھڑیں ہوئیں اور ہال میں موجود لوگوں کی وجہ سے دھیمی آواز میں جتاتے ہوئے کچن کا رخ کر گئیں ۔۔ذکاء نے لب بھینچ کر پر تکان آہ میر ولا کی فضا میں تحلیل کی۔۔۔
پتا نہیں اب یہ ناراضگی کتنے دن مزید سہنی پڑنی تھی ۔۔وہ خاموشی سے سر جھٹک کمرے میں چلا گیا تھا ۔۔۔جب نایاب نے اس گھر سے جانا تھا اب تب ہی کچھ حالات اس کے موافق آنے تھے ۔۔اس کے ہوتے تو ناممکن تھا۔۔اس نے تو زوار کے لئے بھی کہا تھا ۔مگر انھیں تو اسی کے پلے باندھنا تھا اسے ۔۔ اور زوار کا جانے کیا حال ہوگا ۔۔اس نے کیا واقعی میں اب تک اپنے لئے بات نہیں کی تھی ۔ذکاء حیراں تھا۔۔زوار نے کیسے نایاب کے کسی اور سے نکاح کو اتنی آسانی سے قبول کر لیا تھا ۔
”مجھے زوار سے یا زوار کے لئے سب سے بات کرنی چاہیے ۔ “کمرے میں جاتے ہوئے اس نے گمبھیر انداز میں سوچا تھا۔۔۔
”کیا کرنے لگی ہو نایاب ؟“ فائقہ ممانی سالن بھون رہی تھیں ۔۔جب نایاب کو دُودھ نکال کر لاتے دیکھا سختی سے پوچھ لیا۔۔
”جی ممانی جان وہ ذکاء کے لئے چائے بنانے لگی تھی ۔۔انھوں نے چائے کا کہا تھا نا ۔۔“اس نے سادگی سے بتایا ۔۔ان کا چہرہ تن گیا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔تم جاؤ پہلے اپنا سامان سمیٹو اور پھر دیکھو پارلر سے بکنگ ملی ہے یا نہیں ذیب کو ۔۔۔ کل مہندی لگوانے بھی جانا ہے تم نے ۔۔“انھوں نے اس کے ہاتھ سے پتیلی کھینچ لی ۔۔وہ کچھ متذبذب کا شکار ہوئی ۔۔
”جاؤ جلدی ۔اپنے کام سمیٹو ۔۔باقیوں کو چھوڑ دو ۔یہاں کسی کو کسی کی کیا پرواہ ۔۔ بس اپنا الو سیدھا رہے۔۔“ذکاء کچن کے دروازے پر ماں کو ہی چائے کا کہنے آ رہا تھا ۔۔فائقہ ممانی نے اسے دیکھ کر نظر انداز کر دیا اور طنزیہ لہجے میں تاک کر نشانہ بھی سادھا تھا۔۔نایاب اس صورتحال پر ذکاء کو دروازے پر کھڑا پاکر شرمندہ سی ہو گئی ۔۔جبکہ ذکاء نے آنکھیں بے زاری سے چڑھا کر ان کا کڑوا طنزیہ لہجہ بھی شہد جان کر پی لیا تھا ۔۔وہ آج تک سمجھ نہیں پایا تھا ۔۔سب اسے غصیلا اور جذباتی کہتے تھے ۔۔برداشت کی کمی کے باعث وہ شروع سے ہی ہر جگہ مرکزِ موضوع رہا تھا۔۔مگر سب سے زیادہ لوگوں کے رویوں کو اسے ہی برداشت کرنا پڑتا تھا ۔۔کیا یہ زیادتی نہ تھی ۔
”نایاب تم جاؤ ۔۔جو ماما نے کہا ہے وہ کرو ۔۔ویسے بھی تمہاری وجہ سے مجھے کافی کچھ سننے کو ملتا رہتا ہے۔۔“وہ ضبط کی لالی چہرے پر لیئے تیزی سے اندر داخل ہوا اور لب بھینچ کر سیدھا فریج کی سمت چل دیا ۔۔نایاب نے ناسمجھی سے اس کی بات سن فائقہ ممانی کو دیکھا تھا ۔۔اس کی بات نایاب کے سر پر سے گزر گئی لیکن فائقہ ممانی کے سر پر بجی تھی۔۔۔اب نایاب کے سامنے اس بات کا ذکر کر کے کیا ثابت کرنا چاہتا تھا وہ۔۔ان کا تو مزید پارہ چڑھا۔۔
”لو اب سارا غصہ بن باپ کے بچی پر اتارو اپنا تم ۔۔۔ مجھ سے بات کرو نا تو پتا چلے کہ میری ہی اولاد ہو ۔۔“انھوں آنکھیں ماتھے پر رکھ کر بیٹے کو گھورا تھا ۔۔
”اب تک تو آپ کی خواہشات ادھوری ہیں ،پتا چل جانا چاہیے تھا کہ آپ کی ہی اولاد ہوں ۔۔ “اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے تپ کر بنا مڑے دوبدو جواب دیا تھا ۔۔
نایاب ایک دم ان ماں بیٹے کے درمیان پھنس سی گئی ۔۔وہاں کیا گفتگو ہو رہی تھی وہ تو سمجھ سے پرے تھی ۔۔
”مجھ سے بحث مت کرو ذکی!“ وہ ذچ ہو کر رخ موڑ سالن میں چمچہ چلانے لگیں ۔۔
”آپ ہی بار بار موقعے ڈھونڈتی ہیں ۔۔آتے ساتھ نہ ملی نہ سیدھے منہ بات کی اور شروع ہو گئی ہیں ۔۔بیٹا جب اتنے دن باہر رہ کر گھر آتا ہے تو ماؤں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔۔یہاں تو دنیا سے ہی مختلف ماں بیٹھی ہوئی ہیں ۔۔“وہ خفگی سے جتاتے ہوئے چوٹ کر رہا تھا ۔۔نایاب ان کے درمیان چڑھی جنگ پر اکورڈ محسوس کرتی کچن سے باہر نکل گئی تھی ۔۔۔
اسے پیچھے بھی دونوں کی باتیں سنائی دیتی رہی تھیں ۔۔مگر اب موضوع مختلف تھا ۔
”پتا نہیں ممانی جان کس بات پر اتنی خفا رہتی ہیں ۔۔“وہ سوچتے ہوئے کمرے میں بند ہو گئی تھی ۔۔
•••••••••••••