پورے میر ولا کو کسی دلہن کی طرح آراستہ کیا گیا تھا ۔۔آج بہت بڑی تقریب کا دن تھا۔۔۔ میر ولا میں تین بیٹوں کی شادی تھی۔۔۔بہوؤں کی رخصتی تھی۔۔ذیبی اور فاریہ نے تو اسی گھر کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں رخصت ہو کر آنا تھا ۔۔مگر کنول کو اپنے گھر سے میر ولا میں قدم رکھنا تھا۔۔اور وہ بھی میر بلال کی دلہن کی حیثیت سے ۔۔۔شمیم ممانی نے بہت ہی عاجزی و انکساری سے کنول کا ہاتھ بلال کے لئے مانگا تھا۔۔بلال خود ان کے لب و لہجے میں اتری مٹھاس اور رسان دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔۔اتنا بدلاؤ ۔۔۔کنول بھی پریشان تھی۔۔اچانک بلال کا رشتہ اس کے لئے آنا سوچ سمجھ سے پرے تھا ۔۔اور پھر جب اس کی رضامندی اس کے والدین کو چھوڑ کر دادو نے پوچھی تو وہ انکار بھی نہ کر پائی تھی ۔۔ویسے بھی بلال تو دل میں بستا ہی تھا۔۔انکار کی گنجائش پھر نہیں نکلتی تھی۔۔۔اور پھر کنول کے والدین کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہی مٹھائی کھلا کر رشتہ پکا کر آئے تھے میر ولا والے ۔۔دادو نے ایک ہی فنکشن رکھا تھا اور وہ بھی گرینڈ تھا۔۔۔شہر بھر سے مہمانوں نے آنا تھا ۔۔بلکہ رشتے دار تو دو دن پہلے ہی میر ولا میں رہنے آ چکے تھے۔۔ ہر طرف روشنیاں ،قہقہے اور خوشیوں کی جھنکار تھی۔۔۔برقی قمقموں ، سجاوٹوں کی آرائش اور پھولوں سے مہکا میر ولا دیکھ ہر نظر میں ستائش واضح دیکھی جا سکتی تھی ۔۔۔ ہر مہمان عش عش کر اٹھا تھا۔۔۔کڑک دار کاٹن کے سوٹ میں ملبوس دادو اتنے خوش نظر آ رہے تھے جیسے لگ رہا تھا انھیں نئی زندگی مل گئی ہو۔۔۔وہ تو پھر سے جوان ہو گئے تھے ۔۔اور کچھ ان کی ملٹری کی ٹریننگ سے بنی قد کاٹھی اور چست وجود کو دیکھ کر کوئی یقین کر ہی نہیں سکتا تھا وہ پچھتر سال کے بوڑھے انسان ہیں ۔۔ہر ایک مہمان کے پاس جا کر گفتگو کرتے ہوئے وہ بیٹوں کی پھرتی کو بھی مات دے گئے تھے۔۔۔خوشی تو ویسے بھی عمر میں اضافہ کر دیتی ہے ۔۔
باہر کے جان پہچان والے مزید مہمان آنا شروع ہو گئے تھے ۔۔اور نایاب صبح سے گھر میں رہنے آئے مہمانوں کی خدمت تواضع میں مصروف تھی۔۔جس میں وہ اپنا آپ بھلائے دل جمعی سے سب کا اہتمام کیئے جا رہی تھی۔۔کسی کو کچھ بھی چائیے تھا آواز نایاب کو لگ رہی تھی ۔۔ویسے تو ملازم بھی دادو نے اور منگوا لیئے تھے۔۔مگر نایاب نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے کچن کا سارا بار اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تھا ۔۔وہ اپنی ذہنی اذیت سے چھٹکارے کے باعث خود کو مصروف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی ۔۔اتنے دن ہو گئے تھے وہ اپنی غلط فہمی اور بدگمانی کی وجہ سے فاریہ اور ذکاء دونوں سے شرمندہ ہو کر میر ولا میں گھوم رہی تھی۔۔جہاں بھی ان دونوں میں سے کوئی نظر آتا وہ وہاں سے فوراً ہٹ جاتی تھی ۔۔۔پشیمانی اور ندامت اتنی تھی کہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اسے منہ چھپائے رہنا پڑ رہا تھا ۔۔وہ فاریہ اور ذکاء دونوں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی۔۔فاریہ نے تو اس سے بالکل منہ نہیں بنایا ہوا تھا ۔۔مگر ذکاء کی سرد مہری میں ان دنوں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔۔۔نایاب کی زندگی درمیان میں ہی کہیں جھولتی رہ گئی تھی۔۔۔ اسے بالکل نہیں معلوم تھا ان کے تعلق کا اب کیا انجام ہونے والا ہے۔۔اپنے دائرے کا حساب نہیں کر پا رہی تھی وہ۔۔۔اور گھر والے بھی ان دنوں بس شادی کی تیاریوں میں ہی مصروف رہے تھے۔۔۔ان کے تعلق پر کسی کا دھیان نہیں گیا تھا ۔۔۔اور نایاب کا اداس وجود صبح سے شام تک کسی مشین کی مانند کام کرتا رہتا تھا ۔۔۔کسی نے محسوس نہیں کیا تھا وہ ان دنوں کتنی کمزور ہو چکی ہے۔۔۔اس کے چہرے کی چمک ماند پڑ گئی ہے ۔۔اس کی ویران آنکھوں میں درد دبے ہیں ۔۔اور چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ کی پرتیں وہ چڑھائے جا رہی ہے۔۔ہر مہمان کی مسکرا کر آؤ بھگت کرنا اور زبردستی مسکرانا بہت دل گردے کی بات تھی۔۔ایسے میں جب بھی کبھی اسے تنہائی میسر آتی تو نئے سرے سے اسے اپنی خطا اور خسارے یاد آنے لگتے اور وہ چپکے سے آنسوں بہا لیتی تھی۔۔۔اس سے زیادہ کچھ نہیں تو کچھ وقت کے لئے اسے دل کا بوجھ ہلکا محسوس ہونے لگتا تھا۔۔۔کچن میں مہمانوں کے لیئے چائے چڑھائے وہ گم صم کھڑی ہو گئی تھی ۔۔آج کل ایسا ہی ہوتا تھا ۔۔کام کرتے کرتے وہ کہیں بہت دور نکل جایا کرتی تھی ۔۔جہاں اسے ذکاء کے نفرت میں ڈوبے وہ لفظ یاد آتے تو اس کا دل چھلنی ہو جاتا تھا ۔۔اس کا ذہنی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔۔وہ مینٹلی ڈسٹرب تھی۔۔۔
”نایاب چائے بن گئی ؟“اقراء ممانی نے کچن میں آتے ہوئے ٹیبل پر سجے بڑے بڑے مٹھائیوں کے ٹھوکروں سے مٹھائی نکال کر تھالوں میں سجانا شروع کر دی تھی۔۔۔مگر نایاب کا دھیان ان کی سمت نہیں تھا۔۔اس کا جواب نہ پاکر وہ حیرت سے مڑیں ۔۔
”نایاب!“اسے پکار کر وہ کچھ دیر اس کے جواب کی منتظر رہیں۔۔پھر چل کر اس کے پاس چلی آئیں ۔
”نایاب کہاں گم ہو؟“انھوں نے اس کا کندھا ہلایا وہ ایک دم گھبرا گئی۔۔
”جج جی!“بد حواسی سے انھیں دیکھ وہ بمشکل بول پائی۔۔
”بیٹا کہاں گم ہو ۔۔کوئی مسئلہ ہے کیا ؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“انھوں نے نرمی سے پوچھتے ساتھ فکر مند ہو اس کی پیشانی کو بھی چھوا تھا۔۔۔
”جی ممانی میں ٹھیک ہوں ۔۔مجھے کیا ہو سکتا ہے ۔۔“اس نے جبراً مسکراتے ہوئے ان کو تسلی دی تھی۔۔ اقراء ممانی نے بغور اس کا چہرہ دیکھا جو پورا اترا ہوا تھا ۔۔پژمردہ اور مرجھایا ہوا ۔
”لگ تو نہیں رہی ٹھیک..میرے خیال سے تم بہت تھک چکی ہو ۔۔۔اتنے دنوں سے مہمانوں کو سنبھالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی تم نے۔۔۔سب کچھ اچھے سے سنبھال لیا ہے بڑی بہو اور بیٹی ہونے کی حیثیت سے ۔۔۔جاؤ تم تھوڑا آرام کر لو۔۔پھر تقریب شروع ہو جائے گی ۔۔ تم نے تیار بھی ہونا ہے ۔۔“انھوں نے اس کے ہاتھ سے کپ چھڑاتے ہوئے خود چائے کو دیکھنے کا ارادہ باندھا تھا ۔۔
”نہیں ممانی جان ۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔آپ چھوڑ دیں میں کر لوں گی ۔۔۔ “اس نے سٹپٹا کر انھیں پیچھے کیا تھا۔۔۔وہ اس کی تابعداری پر دل سے مسکرائیں ۔۔
”اللہ صدا سہاگن رکھے تمہیں ۔۔“انھوں نے جانے کیوں یہ دعا دی تھی۔۔وہ سوچ میں پڑ گئی ۔۔سب جانتے تھے اس واقعے کے بعد سے اب تک ذکاء اور اس کا کمرہ الگ تھا ۔۔۔ان میں بات چیت نہیں تھی۔۔آمنا سامنا بھی صفر تھا ۔پتا نہیں اس تقریب کے بعد ان کے تعلق کا کیا انجام نکلنا تھا۔۔۔اس نے سنا تھا دادو نے کہا ہے تقریب کے بعد وہ ان دونوں کا معاملہ آر پار لگائیں گے۔۔۔اب اس آر پار میں کون آر رہتا ہے اور کون پار جاتا ہے۔۔یہ تو دادو کے فیصلے پر منحصر تھا،تو پھر اس دعا کا مقصد ۔۔ نایاب اب بالکل امید چھوڑ چکی تھی کہ ذکاء پھر غلطی سے بھی کبھی اس تعلق کو استوار کرے گا ۔۔۔ اسے تو ویسے بھی نایاب کی ضرورت نہیں تھی ۔۔وہ تو زبردستی اور مجبوری کے تحت اس پر مسلط کی گئی تھی ۔۔اس نے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو اندر دھکیلا تھا اور چائے کپوں میں نکالنے لگی۔۔پھر ایک ٹرے اٹھا کر مرد حضرات کی سمت سب سے پہلے چائے پہنچانے گئی تھی۔۔۔مردوں کی بیٹھک ڈرائنگ روم میں لگی ہوئی تھی ۔۔اس کا رخ سیدھا اسی طرف تھا۔۔۔اس نے دروازے پر دستک دی تو سامنے سے نکلنے والا ذکاء تھا ۔۔اسے دیکھ وہ ٹھٹک گئی ۔۔ جھجکتے ہوئے فوراً سر جھکا لیا ۔۔ذکاء نے بھی نظریں ملنے پر آنکھیں جھپک سرعت سے کسی اور جانب مرکز نگاہ ڈھونڈا تھا۔۔
”یہ چائے ۔“نایاب نے گڑبڑاتے ہوئے ٹرے اونچی کی۔۔جسے فوراً ہی اس نے تھام لیا تھا۔۔۔نایاب کو محسوس ہوا ذکاء نے بہت جلدی کی ہے ٹرے پکڑنے میں ۔۔وہ شاید چاہتا تھا نایاب اس کی نظروں کے سامنے سے فوراً ہٹ جائے ۔۔نایاب کے دل کو کچھ بری طرح چبھا۔۔۔وہ یک دم وہاں سے مڑ آئی تھی ۔۔ذکاء کی سنجیدہ سرد نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا ۔۔اور پھر اس کا حلیہ دیکھ کر اس نے لب سختی سے بھینچ لیئے تھے ۔۔ گھر کے نوکروں کی حالت بھی اس سے سو درجے اچھی تھی۔۔۔اس کے مسلے مسلے کپڑے ویران چہرہ اور ملگجا حلیہ رکھ کر مہمانوں کے درمیان میر ولا کی نواسی اور سب سے بڑی بات میر ولا کے پوتے کی بیوی کی حیثیت سے گھومنا ذکاء کو غصہ دلا گیا تھا ۔۔اس کی یہ حالت اسے سب میں سبکی دلانے کے لئے کافی تھی۔۔۔ویسے ہی گھر کے مہمان اور قریبی رشتے دار ان کے درمیان کی دیوار اور فاصلہ محسوس کر کے باتوں ہی باتوں میں کن سوئیں لینے لگے تھے۔۔اور سب ہی ان دونوں کے علیحدہ کمروں میں رہنے پر مذمت بھی کر چکے تھے ۔۔۔جس کا جواب فائقہ ممانی کو دینا پڑا تھا ۔۔۔پھر اس پر نایاب کی ایسی اجڑی ہوئی حالت انھیں مزید چہ مگوئیوں کی دعوت دے رہی تھی۔۔سب کے منہ پر تو یہی بات آتی کہ میر ذکاء کی بیوی کی یہ حالت ہے ۔۔ماسیوں سے بھی بدتر۔۔۔ذکاء کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی ۔۔۔باہر آتے زوار کو ٹرے پکڑا کر مہمانوں کو چائے سرو کرنے کا حکم دیتا وہ تیزی سے باہر نکلا تھا ۔۔۔اس کا رخ عورتوں کے حصے کی سمت تھا۔۔۔پورے ہال میں نظر دوڑاتے ہوئے اس نے ماں کو تلاشا تھا۔۔وہ اسے ایک مہمان عورت کے ساتھ کسی بات میں مگن نظر آئیں وہ فوراً اس سمت گیا ۔۔
”ماما ذرا بات سنیں!“اس نے سنجیدگی سے ماں کو پکارا تھا ۔۔وہ بھی متوجہ ہوئیں اور عورت سے معزرت کر کے اس کی سمت آئیں ۔۔وہ انھیں پکڑ کر ایک کونے میں لے گیا تھا مہمانوں کی چہل پہل سے فاصلے پر۔۔۔وہ اس کی حرکت پر حیرانی کا شکار ہوئیں ۔۔
”ارے کیا ہوا ہے ذکی۔۔۔؟“انھوں نے بھنویں میچ کر پوچھا ۔۔
”ماما آپ نے نایاب کی حالت دیکھی ہے۔۔؟“اس نے لب بھینچ کر سینے پر ہاتھ باندھے دریافت کیا ۔
”نہیں کیوں کیا ہوا؟“انھوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے کئی سوال ایک ساتھ کر دیئے ۔۔
”ماما اسے کہیں حالت سدھار کر گھومے اپنی ۔۔جتنا تماشا اس نے اب تک میرا لگانا تھا نا وہ لگا چکی ہے اور میں سہہ بھی گیا ۔۔اب اسے سمجھائیں کہ برائے مہربانی مزید کوئی تماشا نہ لگائے میرا ۔۔نوکر اس سے اچھی حالت میں گھوم رہے ہیں اور اس کی حالت کوئی کسر نہیں چھوڑی مجھے شرمندہ کرانے میں۔۔ لوگ اسے دیکھ کر جانے کیا سوچ رہے ہوں گے ۔۔اسے کہیں اپنا نہیں تو کم از کم گھر والوں کا ہی خیال کر لے۔۔کس چیز کمی ہے اسے جو وہ یہ حلیہ لیئے پھر رہی ہے سب میں۔۔۔اب مجھے وہ ایسی بودی حالت میں نظر آئی تو میں اسے اٹھا کر میر ولا سے باہر پھینک دوں گا یاد رکھیئے گا!“وہ سارا نزول ان پر گرائے جیسے آیا ویسے ہی چلا بھی گیا تھا ۔۔فائقہ ممانی کو بھی اب غصہ آیا تھا ۔۔وہ فوراً نایاب کو ڈھونڈنے نکل پڑیں ۔۔کچھ ہی دیر بعد انھیں وہ مہمان خواتین میں چائے سرو کرتی نظر آئی تو واقعی میں اس کی حالت دیکھ ان کا منہ کھل گیا تھا ۔۔۔جانے اسے اس طرح دیکھ اب تک کتنی باتیں بن چکی ہونگیں ۔۔۔سب تو یہی کہہ رہے ہوں گے ساس خیال نہیں کرتی۔۔۔فائقہ ممانی نے غصے سے جا کر اس کی بازو پکڑی ۔۔وہ گھبرا گئی ۔۔وہ اس کے ہاتھ سے کپ کھینچ کر ٹیبل پر رکھتی اسے لیئے اسی کے کمرے میں لے گئی تھیں ۔۔نایاب حیران پریشان سی ان کے ساتھ چلتی گئی۔۔جب انھوں نے اسے کمرے کے وسط میں لا کھڑا کیا تھا ۔۔
”نایاب کچھ ہوش کرو۔۔۔خدارا میں نے تو اب تمہاری حالت دیکھی ہے۔۔یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تم نے ۔۔۔اتنے تمہارے نئے کپڑے خرید رکھے ہیں میں نے ۔۔۔ کسی چیز کی کمی نہیں ہے تمہیں ۔۔پھر بھی ایسی حالت ۔۔مہمان کیا سوچ رہے ہونگیں۔۔کس کس کا منہ بند کروں میں بھی آخر ۔۔تمہیں اندازہ بھی نہیں ہوگا ذکاء اور تمہارے ایک کمرے میں نہ رہنے پر مہمانوں کے جن سوالوں کا میں نے سامنا کیا ہے ۔۔اور اب تم نے یہ نیا موضوع پکڑا دیا ہے ان کو۔۔اب اس پر بھی سوال اٹھیں گے کہ ہم نے تمہیں تنگ رکھا ہوا ہے اس گھر میں۔۔ساس اور شوہر اچھا نہیں ہے۔۔اتنی سمجھدار ہو تم ۔پھر بھی ایسی لاپرواہی ۔۔ کچھ تو ذہن میں رکھو تم یہاں کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اب بہو بھی ہو۔۔ ابھی جاؤ! نہاؤ اور نئے کپڑے پہن کر تیار ہو جاؤ ۔۔دوبارہ تم مجھے اس حالت میں نیچے نہ دیکھو سمجھی.“نایاب کی آنکھیں چھلک پڑیں ۔۔انھوں نے کبھی اس سے ایسے ناراضگی سے بات نہیں کی تھی۔۔
”جی ممانی جان میں بس کام ختم کر کے آنے ہی والی تھی تیار ہونے.“وہ منمنائی تھی۔۔
”کب ؟ جب ہماری رہی سہی عزتوں کا بھی جنازہ نکل جاتا تب؟“وہ شدید غصے سے بھڑک پڑیں۔۔نایاب کی زبان تالو سے چپک گئی۔۔
”اب اچھے سے تیار ہو کر ہی باہر آنا ورنہ مت آنا ۔۔“وہ پٹاخ سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتی غصے سے پلٹ گئیں اور نایاب ہکا بکا ان کے غصیلے جملوں پر سن کھڑی رہی۔۔
”یعنی کہ اب ان کے دل سے بھی میں اتر گئی ہوں۔۔۔ہاں ٹھیک ہے ۔۔میں نے کونسا اچھا کیا ہے ان کے بیٹے کے ساتھ ۔۔۔انھیں غصہ تو آئے گا ہی۔۔ جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگا کر ان کے بیٹے کو سب کے بیچ ذلیل کیا تھا میں نے۔۔۔تو کیونکہ بھلا اب میں ان کی من پسند بہو رہوں گی۔۔۔ٹھیک ہی ہے۔۔۔میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔۔میں قابل ہی نہیں اس کے کہ کوئی مجھے اچھا سمجھے ۔۔“وہ روتے ہوئے آنسوں جھٹک کر سسکتی ہوئی الماری کے سامنے گئی اور اندر سے ہینگ ہوا لیوینڈر کلر کا بھاری لہنگا نکالا ۔۔جو کہ فائقہ ممانی نے خاص اس کے لئے آج کے دن کے لئے ہی بنوایا تھا ۔۔۔ساتھ ہی میچنگ جیولری اور جوتے بھی الماری سے نکال کر اس نے بستر پر رکھ دیئے تھے ۔۔۔پھر لہنگے کو لے کر باتھ روم چلی گئی تھی ۔۔جو کہ بڑی ہی مشکل سے اس نے اٹھا رکھا تھا ۔۔پندرہ منٹ بعد وہ نہا کر اسی لہنگے کو زیب تن کیئے باہر نکلی تھی۔۔۔بھاری کامدار لہنگے پر سلک کی فل سلیوز کے نگینے لگی گول گلے والی کرتی پہنے وہ حسین تو پتا نہیں لیکن مایوس ضرور لگ رہی تھی۔۔۔آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر جب اس نے چہرہ دیکھا تو اپنا آپ اجنبی سا لگا۔۔۔ایک ہفتے میں ہی اس کا وزن گر گیا تھا ۔۔آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے اور رنگ بھی کافی جل گیا تھا ۔ ۔ وہ خود کو کمزور سی اس لہنگے میں بالکل اچھی نہ لگی۔۔دل بری طرح خود کی حالت دیکھ ٹوٹا تھا۔۔۔وہ یونہی آئنے کے سامنے اسٹول پر بیٹھ کر رونے لگی۔۔۔وہ بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔اسے لگ رہا تھا لہنگا اس پر جچ نہیں رہا۔۔کافی دیر رونے کا شغل فرمانے کے بعد آخر کار اس نے ہمت پکڑی تھی تیار ہونے کی ۔۔سامنے رکھے مختصر سے میک اپ کے پروڈکس اس نے نکالے اور موئسچرائزنگ کریم اٹھائی ہی تھی کہ مہر اندر چلی آئی ۔۔
”واؤ نایاب تم کتنی پیاری لگ رہی ہو اس میں۔۔بڑی ہی چالاک نکلی، ذکاء بھائی کی میچنگ کی ہے نا ۔“وہ چہکتے ہوئے بول کر اسے چھیڑنے لگی۔۔جہاں اس کی تعریف پر وہ پھیکا سا مسکرائی وہیں اس کی اگلی بات پر حیران ہوئی ۔
”نہیں میں نے تو کوئی میچنگ نہیں کی۔۔“
”ارے ذکی بھائی بھی تیار ہو کر آئے ہیں نا ابھی سیم اسی لیوینڈر کلر کی شیروانی پہنی ہے انھوں نے ۔۔ویسے اچھا ہی ہے دونوں ہسبنڈ وائف میچنگ کریں تو بہت خوبصورت لک دیتے ہیں ۔۔چلو آؤ میں تمہیں میک اپ کر دوں.“وہ متاثر ہوتی ایک دم میک اپ پر توجیہی پیش کر گئی۔۔نایاب اس کی بات پر سوچ میں پڑ گئی تھی ۔۔مطلب یہ دونوں کی میچنگ فائقہ ممانی نے ہی کی تھی۔۔اسے تو خبر ہی نہیں تھی ذکاء کی۔۔کہ وہ کیا پہننے والا ہے ۔۔
”چلو آؤ میں تمہیں…“
”نہیں مہر۔۔میں نے اتنا ہیوی میک اپ نہیں کرنا۔۔بس ہلکا پھلکا کرنا ہے وہ میں خود ہی کر لوں گی۔۔“مہر کا ہاتھ اس نے اپنے چہرے کی جانب بڑھنے سے روکتے ہوئے اصرار کیا تھا۔۔
”ارے ۔۔بھئی اتنا بڑا فنکشن ہے۔۔تمہیں اچھے سے تیار ہونا چاہیے ۔۔نیو نیو دلہن ہو ۔۔ میر خاندان کی عزت ہو۔۔تمہیں تو چاہیے ایسا تیار ہو کہ سب کے ہوش اڑا دو!“مہر نان اسٹاپ بولتی ایسے لگ رہی تھی جیسے اس میں بیٹری فٹ کر دی ہو کسی نے۔
”میں نئی دلہن اب نہیں ہوں۔۔ایک ماہ ہو چکا ہے میری شادی کو ۔اور تمہیں پتا تو ہے مجھے ہیوی میک اپ سے کتنی چڑ ہے۔۔میں ہلکے پھلکے سے تیار ہونا چاہتی ہوں۔۔“اس نے مہر کی تصحیح کر کے پھر ٹوکا تھا ۔۔
”نایاب تم نا۔۔اتنا پیارا اور ہیوی لہنگا ہے۔۔اس کے ساتھ تمہیں اچھے سے میک اپ کرنا چاہیے ۔۔ہیوی نہ سہی مگر مناسب تو ہو ۔۔ اور تمہیں میک اپ کا نا بالکل بھی سینس نہیں ہے۔۔اسی لیئے دیکھو خود جلدی سے تیار ہو کر تمہیں تیار کرنے آ گئی ۔۔تم نے تو میک اپ ایکسپرٹ کو بھی واپس بھیج دیا تھا ۔۔اب چپ چاپ بیٹھو ۔۔مجھے ڈسٹرب مت کرو۔۔!“وہ بضد ہوتی اسے گھوری اور اس کے انکار کو پس پشت ڈال کر اس کے چہرے کو سنوارنے میں لگ گئی۔۔وہ بے زاری سے بیٹھ گئی۔۔مہر کو میک اپ اور ہیئر اسٹائلنگ میں کافی مہارت حاصل تھی اور اکثر یوٹیوب ٹیٹوریل کی مدد سے وہ کچھ نہ کچھ سیکھتی رہتی تھی جس کی وجہ سے اس کے کام میں کافی امپروومنٹ آئی تھی ۔۔کم سے کم وقت میں ہی وہ نایاب کو میک اپ کر چکی تھی۔۔مناسب اور بہت خوبصورت بھی۔۔اور پھر جب اس نے لپ اسٹک اٹھائی تو کب سے خاموش بیٹھی اسے اپنی کارکردگی پر کام کرتے دیکھتی نایاب اچھل پڑی ۔
”یہ اتنی ڈارک لپ اسٹک ؟؟“
”ہاں تو اتنا اچھا میک اپ کیا ہے تمہیں اب بھدے سے رنگ کی لپ اسٹک لگا کر بیڑا غرق تھوڑی کروں گی۔۔ میری محنت لگی ہے۔۔چلو منہ بند کرو!“مہر نے دھونس جماتے ہوئے اس کے حیرت سے کھلے منہ پر چوٹ کی تو نایاب بے بسی سے لب بھینچ گئی ۔۔مہر نے لپ اسٹک لگائی اور پھر اس کے لمبے بالوں کو ہلکا لیکن تیکھا سا ہئیر اسٹائل دیا اور لاسٹ میں جیولری پہنا دی۔۔۔نایاب نے خود کو آئینے میں دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئی ۔۔مہر نے تو اس کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا تھا ۔۔وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔مگر ایک کمی سی تھی ۔۔رونق نہیں تھی۔۔اور میک اپ کے باوجود بھی اس کا چہرہ کمزور سا محسوس ہو رہا تھا ۔۔اور اسی بات کو تو وہ دل پر لے کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔تبھی وہ مہر کی مہارت اور اپنی خوبصورتی کو سراہ نہیں پائی تھی۔۔آئینے سے نگاہ پھیر کر وہ چوڑیاں کلائیوں میں اتارنے لگی۔۔۔
”دیکھا اب کتنی حسین لگ رہی ہو ۔۔آج تو بھئی ذکاء بھائی پر بجلیاں ہی گر جائیں گی ۔۔ویسے ہی بہت بنتے ہیں وہ۔۔اب تمہیں دیکھیں گے نا تو ہوش ٹھکانے پر آ جائیں گے ۔۔“مہر اپنی مہارت پر نازاں ہوتی اس کے تعریفیں کر تصور میں ذکاء کا ری ایکشن سوچتے ہوئے ہنس پڑی تھی ۔۔نایاب نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا تھا ۔۔
”ارے یاد آیا ۔۔مجھے تو زیبی کا دوپٹہ سیٹ کرنا تھا ۔۔میں جاتی ہوں اس کے پاس تم بھی ذرا میری ایک ہیلپ کر دو اب۔۔فاریہ بھابھی کی دوپٹہ سیٹنگ بھی رہتی ہے۔۔۔تم ان کا دوپٹہ جا کر سیٹ کر دو ۔۔سب مہمان آ چکے ہیں ۔۔دولہے بھی تیار ہیں ،بس دلہنوں کو نیچے اتارنا ہے ۔۔اور پھر رسمیں ادا ہونگیں۔۔“وہ بعجلت بولتی جا رہی تھی۔۔
”لیکن میں فاریہ کا دوپٹہ کیسے سیٹ کر سکتی ہوں ۔۔مجھے نہیں جانا اس کے پاس.“نایاب نے قطعی انداز میں انکار کر دیا تھا ۔۔
”ارے کیوں نہیں جا سکتی تم۔۔۔بھئی دیورانی ہے تمہاری۔۔اور فکر مت کرو۔۔وہ بہت اچھی ہے۔۔“
”میں تو اچھی نہیں ہوں نا۔۔اور مجھے اس کے سامنے جانے میں جھجک اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔۔میں نے اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا تھا۔۔اتنی بڑی تہمت لگائی تھی ۔۔مجھ سے تو گناہ ہو گیا ہے کسی نیک لڑکی پر میں نے الزام لگایا ۔۔“اس کی آنکھیں لمحوں میں ندامت کے پانی سے بھری تھیں۔۔مہر جاتے جاتے اس کی بات پر رکی ۔۔
”تو کوئی بات نہیں نایاب ۔۔وہ سب غلط فہمی تھی۔۔تم نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا۔۔اللہ سے معافی مانگ رہی ہو نا۔۔ایک بار فاریہ بھابھی سے بھی مانگ لو۔۔۔وہ بہت اچھی ہیں ۔۔فوراً معاف کردیں گی۔۔بلکہ شاید وہ کر بھی چکی ہیں ۔انھوں نے تو اتنے دنوں میں ایک بار بھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔۔جاؤ ان کے پاس ،بات کرو ان سے ۔۔دیکھنا سب ٹھیک بھی ہو جائے گا اور تمہارے دل کو سکون بھی مل جائے گا۔۔ورنہ رہنا تو ایک ہی گھر میں ہے تم دونوں نے۔۔اس طرح منہ کب تک چھپاتی پھرو گی۔۔کبھی نہ کبھی تو سامنا ہوگا ہی ۔۔ اس سے بہتر نہیں کہ آج کے دن ہی ساری کثافت مٹ جائے ۔۔ایک احسان کرو خود پر اور زندگی کو آسان کر لو۔۔!“مہر سے بہت سمجھداری سے اسے سمجھایا تھا ۔۔نایاب نے بے اختیار اسے دیکھا۔۔۔وہ بہت بڑی بڑی باتیں کرنے لگی تھی ۔۔نایاب کو خوشی ہوئی تھی ۔مہر بھی اب لاابالی پن سے نکل کر میچیور باتیں کرنے لگی ہے۔۔۔اور پھر مہر کمرے سے نکل گئی تھی۔۔لیکن وہ سوچ میں پڑ گئی۔۔فاریہ سے سامنا کرنے کی ہمت نہیں جٹ رہی تھی۔۔۔ مہر بھی ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔۔اسے آج کے آج ہی بات صاف کر کے معافی مانگ لینی چاہیے ۔۔اور پھر وہ ساری ہمت مجتمع کر کے ایک گہری آہ بھر بستر سے بھاری کامدار دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالتی باہر نکل آئی تھی ۔۔فاریہ کے کمرے کے سامنے لمحہ بھر کو وہ رکی تھی ۔قدم کانپے تھے۔۔
”بس تھوڑی سی ہمت اور سب ٹھیک ۔۔“اس نے خود سے کہا اور پھر کمرے کے ناب پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔دروازہ ہلکی سی آہٹ سے کھلا اور آئینے کے سامنے عروسی لباس میں تیار کھڑی فاریہ نے شیشے میں نایاب کا عکس دیکھ کر خوشدلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔
”ارے نایاب بھابھی آپ ؟ آئیں نا..“وہ دلہن بنی بالکل کوئی حور لگ رہی تھی۔۔نایاب کی رشک بھری نگاہیں اس کے چہرے پر جم سی گئی ۔۔وہ بہت خوش نصیب دلہن تھی۔۔من پسند شوہر تھا
۔بے انتہا محبت جتانے والا۔۔تو کیسے نہ روپ نکھر کر آتا ۔۔نایاب کو اچھا لگا تھا شانی اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس کی محبت کا نکھار فاریہ کے روپ میں نظر آ رہا تھا ۔۔اب ہر کسی کی قسمت نایاب کی طرح تو نہیں ہوتی ۔۔اور وہ دعا کرتی تھی کسی لڑکی کی قسمت نایاب جیسی ہو بھی نہ۔۔ اللہ کسی کی قسمت نایاب جیسی نہ لکھے ۔۔
وہ مسکرانے کی کوشش کرتی منتظر کھڑی فاریہ کے پاس چلی آئی ۔۔اضطراب سے مٹھیاں مسلتے ہوئے وہ گوناگوں کیفیت سے کھڑی تھی ۔۔فاریہ نے کن اکھیوں سے اس کو کچھ کہنے کے پر تولتے دیکھا تو سر جھٹک کر بے تکلفی سے بولی۔۔
”آپ نے بتایا نہیں میں کیسی لگ رہی ہوں ؟“فاریہ کے سوال پر اس نے سٹپٹا کے سر اٹھایا ۔۔
”بہت حسین ۔۔ماشاء اللّہ اللّہ بری نظر سے بچائے تمہیں “یہ دعا بڑے ہی دل سے دی گئی تھی ۔
”اور آپ کو بھی!“فاریہ نے بدلے میں کہا اور ہنس دی۔۔نایاب کا چہرہ پھر سے متذبذب کا شکار ہو گیا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی بات کہاں سے شروع کرے۔۔وہ اس کا دوپٹہ سیٹ کرنے آئی تھی مگر اس کا دوپٹہ پہلے سے سیٹ تھا۔۔شاید وہ خود کر چکی تھی یا شاید مہر ہی کر کے گئی تھی ۔۔اور اسے بہانے سے فاریہ کے پاس بھیجا تھا۔۔وہ نہیں جانتی تھی۔۔مگر اب اس کے لئے بات کا آغاز کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔اور آغاز ہمیشہ مشکل ہی ہوا کرتے ہیں ۔۔
”فاریہ میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں.“آخر کار اس نے دھیمے لہجے میں آغاز کر ہی دیا تھا۔۔
”کس بات کی بھابھی ؟“فاریہ انجان بنی تھی۔۔نایاب نے نظر اٹھا کر دیکھا۔۔وہ جان بوجھ کر سرسری انداز بنائے کھڑی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
”میں نے جو تمہارے ساتھ کیا۔۔۔تمہیں اور ذکاء ہو ایک ساتھ دیکھ کر جو غلط فہمی مجھے ہوئی اور پھر ۔۔۔“
”بس رہنے دیں بھابھی۔۔۔یہ بات اب پرانی ہو چکی ہے اور صاف بھی۔۔اور جو باتیں صاف ہو جائیں ان کی چرچہ نہیں کیا کرتے۔۔ اب تو سب ٹھیک ہے نا۔۔وہ غلطی تھی۔۔جو کہ سدھر بھی گئی۔۔“
”سدھری ہی تو نہیں ۔۔اسے ہی سدھارنے آئی ہوں۔۔“نایاب نے یک دم اس کی بات کاٹی۔۔
”تو سمجھیں سدھر گئی ہے اب۔۔۔اپنے دل کا گلٹ نکال دیں نایاب بھابھی ۔۔مجھے کوئی گلہ نہیں ہے آپ سے ۔۔میرا خدا گواہ ہے۔۔میں نے تو یقین جانے جب یہ بات ہو رہی تھی تب بھی آپ کے لئے برا نہیں سوچا تھا۔۔سوچ ہی نہیں سکتی ۔۔بس برا ضرور لگا تھا کہ میں نے آپ دونوں کے رشتے کو خراب کر دیا۔۔۔اور یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی تھی کہ آپ ذکاء بھائی کو لے کر کتنی کونشس ہیں ۔۔ہر بیوی ہی ایسی ہوتی ہے آپ بھی تھیں ۔۔اس میں برائی تو کوئی نہیں تھی۔۔اگر اپنے شوہر کے ساتھ کوئی بھی کسی انجان لڑکی کو دیکھے گی تو وہ ایسا ہی ری ایکٹ کرے گی۔۔یہ بہت عام سی بات ہے ۔۔اسی لیئے آپ بھول جائیں جو بھی ہوا اور میں نے تو یاد ہی کبھی نہیں رکھا اس بات کو تو بھولنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔۔۔ایزی رہیں۔۔۔اور آپ بہت اچھی ہیں ۔۔اور بے حد خوبصورت لگ رہی ہیں ۔۔“فاریہ کی سوچ بہت مثبت تھی۔۔منفی زندگی گزارنے کے باوجود بھی اس کی سوچ پر کوئی نیگیٹو اثر نہیں پڑا تھا۔۔وہ مثبت سوچتی تھی۔۔وہ تصویر کے دونوں رخ دیکھا کرتی تھی ۔۔اور سب سے بڑی بات وہ نرمی سے بات کرنا جانتی تھی۔۔وہ محاسبہ کرنے کی عادی تھی۔۔دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے وہ خود پر اٹھاتی تھی کہ اس نے کہاں پر غلطی کی۔۔ پہلے خود کو سدھارتی تھی وہ۔۔جب آپ پہلے خود پر کام کرے ہیں اپنی اصلاح کرتے ہیں تو دوسروں کی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔۔وہ خود ہی سدھر جاتے ہیں ۔۔نایاب تو سچ میں اس لڑکی پر رشک آ رہا تھا ۔۔وہ حقیقت میں نیک سیرت لڑکی تھی۔۔۔بہت پیاری۔۔بڑے دل کی مالکہ ۔۔اور اب بس نایاب کو بھی دل بڑا کرنا تھا۔۔
”اللہ خوش رکھے!“نایاب نے پیار سے اس نازک لڑکی کی گال پر ہاتھ رکھ کر دعا دی تھی ۔۔
”چلیں نیچے ۔۔!“ اقراء ممانی بہو کو لے جانے آئی تھیں ۔۔
”ارے نایاب تم یہاں ہو۔۔پھر کیا ٹینشن ۔۔چلو بلال اور کنول کا نکاح ہونے لگا ہے۔۔نیچے لے آؤ فاریہ کو۔۔سب آ چکے ہیں ۔۔“وہ مطمئن ہوتی پھر سے الٹے قدموں پلٹ گئیں ۔۔نایاب نے مسکرا کر فاریہ کا لہنگا پکڑا اور پھر وہ دونوں چلتی ہوئی باہر نکل آئیں ۔۔۔نایاب نے اسے اسٹیج پر لا بٹھایا تھا جہاں پہلے ہی زیبی لا کر بٹھا دی گئی تھی۔۔وہ بھی سرخ لباس میں بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔نایاب نے اس کی بھی بلائیں لی تھیں۔۔اور تبھی بلال کے نکاح کا غلغلہ اٹھا تھا ۔۔زرناب پھپھو نایاب کو آوازیں لگا رہی تھیں ۔۔وہ تیزی سے لہنگا پکڑ کر اسٹیج سے اترنے لگی تھی کہ اس کے پاؤں میں لہنگا اٹھا اور وہ منہ کے بل اسٹیج سے گرنے لگی تھی کہ وہیں سے گزر کر نکاح کے لئے مختص مقام کی سمت جاتے ذکاء نے بروقت اس کا ہاتھ تھام کر اسے گرنے سے محفوظ کر لیا تھا۔۔نایاب کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا تھا ۔۔تیزی سے دھک دھک کرتے دل سے اس نے پکڑنے والے کو دیکھا تو رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے ۔۔۔وہ ترچھی نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا ۔۔وہ ایک دم لہنگا پیروں سے نکالتی سیدھی کھڑی ہو گئی۔۔ایک نظر اسے دیکھا۔۔لیوینڈر کلر کی شیروانی میں ملبوس وہ بے حد دلکش لگ رہا تھا ۔۔ نایاب نے اسے دیکھتے ہوئے سر جھکا لیا ۔۔
”آرام سے چلو۔۔کہیں گر گرا گئی تو اس کا الزام بھی مجھ پر لگا دو گی۔۔“وہ کاٹ دار لہجے میں طنز کرتا سر جھٹک آگے بڑھ گیا تھا ۔۔نایاب نے رنجیدگی سے اس کی چوڑی پشت کو دیکھا تھا ۔۔جانے کیوں وہ دل کو ٹھیس پہنچانے والے جملے بولتا تھا۔۔۔ارد گرد مہمانوں کی ریل پیل کو دیکھتے ہوئے اس نے چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور قدم رواں کیئے۔۔آگے گئی تو گھونگھٹ گرائے بیٹھی کنول کو دیکھا۔۔اس کے کچھ فاصلے پر بلال بیٹھا تھا اور ارد گرد دونوں گھرانوں کے مکیں موجود تھے۔۔نکاح خواہ نکاح پڑھانے میں مصروف تھا۔۔۔اور پھر ان دونوں نے چاہتوں اور امنگوں سے جیسے ہی نکاح قبولا تو مبارک باد کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔۔میر ولا کے تمام لڑکے اس وقت بلال کے گلے لگ کر چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔۔نایاب نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھا ۔۔شانی ،ذمان اور بلال دولہے بنے کتنے پیارے لگ رہے تھے ۔۔زوار نے بھی بھائیوں کی شادی میں تیاری کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے تھے ۔۔موو کلر کی شیروانی میں وہ اتنا خوبصورت لگ رہا تھا کہ خاندان بھر کی لڑکیاں اسے نہارتی پھر رہی تھیں ۔۔ایک دو عورتوں نے تو اپنی بیٹیوں کے رشتے بھی ڈال دیئے تھے ۔۔ ویسے تو میر ولا کے تمام پوتوں پر بیٹیوں والی ماؤں کی نظر تھی کہ آج کے دور میں ان جیسے تربیت یافتہ لڑکے ملنا کہاں آسان تھا اور پھر دادو کی اصول پسند تربیت کا نمونہ تھے میر ولا کے پوتے ۔۔ہر کوئی آنکھ بند کرکے بیٹیاں دینا چاہتا ۔ مگر چار پوتے تو پہلے ہی بکڈ ہو چکے تھے۔۔اب سب کی آخری امیدیں زوار سے ہی منسلک تھیں ۔۔مگر بے نیاز زوار صاحب تو ایسے کنی کترائے پھر رہے تھے کہ ہر کوئی حیران تھا ۔۔
”دادو اب اپنے چاروں پوتوں کو ٹھکانے لگا کر ہاتھ مت جھاڑ بیٹھیئے گا ۔۔یہ یاد رکھیئے گا ایک ابھی بیٹھا ہے کنوارا!“ زوار نے چہکتے ہوئے جھینپ کر اپنا مقدمہ بھی ساتھ چلا دیا تھا ۔۔سب نے حیرانگی سے ہنستے ہوئے اس کو دیکھا تھا۔۔ اس نے پہلی بار ایسی کوئی بات کی تھی ۔دادو نے بھرپور جاندار قہقہہ لگایا تھا ۔۔
”بھئی تمہارا بھی سوچ چکا ہوں ۔۔اور لڑکی بھی چن لی ہے۔۔“دادو نے معنی خیزی سے سر دھنا تھا ۔۔ ہر ایک میں تجسس پھیل گیا ۔۔
”ارے واہ ۔۔کون ہے وہ دادو!“مہر نے دلچسپی سے پوچھا تھا۔
”سامنے ہی کھڑی ہے وہ.“ دادو نے مہر کی سمت اشارہ کیا ۔۔مگر وہ سمجھی نہیں ۔۔باقی سب سمجھ کر ہنس پڑے تھے۔۔
”سامنے؟ پر سامنے کون کھڑا ہے.؟“اس نے دادو کے سامنے دیکھا تو اس کے علاؤہ کوئی لڑکی وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔
”تمہاری بات کر رہے ہیں.“ اقراء ممانی نے شریر مسکراہٹ سے اس کو سمجھایا تو اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔۔
”ہائے اللہ! میں؟“وہ چینخ کر دانتوں میں انگلی داب کر ہونق شکل سے دادو کو تکنے لگی۔۔اور دادو کی ہنسی نے اسے سب کے درمیان شرمسار کر دیا تھا ۔۔وہ شرما کر ہاتھوں میں منہ چھپائے وہاں سے بھاگ نکلی تھی ۔۔زوار نے کن اکھیوں سے اسے وہاں سے جاتے دیکھا تھا۔۔۔
”چلو بھئی آج سے زوار اور مہر کا رشتہ بھی پکا سمجھو!“ دادو نے اعلان کیا اور اقراء ممانی فائقہ ممانی کے گلے لگ گئیں ۔۔۔
” نایاب اب مہر تمہاری دیورانی بنے گی۔۔“ زیبی نے ہنستے ہوئے نایاب کو کندھا مارا تھا ۔۔وہ بھی ہنس پڑی ۔۔ لیکن زوار پر نظر ٹکائے بیٹھی خاتونوں کا دل ٹوٹ گیا۔۔۔
پھر سب نے دعاؤں کے حصار میں اس جوڑے کو مبارک باد دی تھی جن کا ابھی ہی نکاح ہوا تھا۔۔بلال اور کنول ایک دوسرے سے شرمائے لجائے کھڑے سب سے دعائیں وصول رہے تھے۔۔بلال کی نظر تو محبوب پر پڑنے کی جرات نہیں کر پا رہی تھی ۔۔عجیب سا سرور سا حاصل زیست کا۔۔پہلو میں کنول تھی اور دھڑکنیں منتشر ہو رہی تھیں ۔۔
”مٹھائی کھلاؤ بھئی۔۔!“کہیں سے کھنکتی ہوئی کسی خاتون کی آواز سماعتوں میں پڑی تھی۔۔نایاب نے سامنے ٹیبل پر رکھی مٹھائی سے ایک ٹکڑا اُٹھا کر بلال اور کنول کا منہ میٹھا کیا تھا۔۔ اور پھر ذمان اور شانی کو بھی لگے ہاتھوں مبارک دے کر ان کے منہ میں بھی مٹھائی رکھ دی۔۔۔
”ارے نایاب ذرا اپنے شوہر کو بھی کھلا دو مٹھائی.“ شانی کی شوخ آواز پر وہ چونکہ تھی ۔۔اس کے پیچھے کھڑا ذکاء ان ہی کو مٹھائی کھلانے آگے آ رہا تھا ۔۔شانی کی زبان کی کجھلی پر کڑے تیوروں سے گھورا ۔۔وہ منہ زوار کے پیچھے چھپائے مسکراہٹ دبا گیا تھا ۔۔نایاب کو ان کے ہنسی مذاق میں اپنا ردعمل بھول گیا ۔۔مسکرانے کی اچھی اداکاری کرتے ہوئے وہ وہاں کھڑے سب کے درمیان سے ہٹ آئی تھی ۔۔۔مڑ کر ایک نظر ذکاء کو دیکھا وہ اس کی سمت متوجہ نہیں تھا۔۔۔اس کے اندر کچھ بری طرح ٹوٹا ۔۔وہ تو ایک نظر کرم اس پر ڈالنے کو بھی تیار نہیں تھا ۔۔کیا فائدہ اتنی تیاری کا ۔ جب اس نے اس نظریے سے دیکھا بھی نہیں تھا اسے ۔۔۔وہ وہاں سے مایوس دل لیئے نکل آئی ۔۔اور پھر جانے کیوں اسے محسوس ہوا تھا وہ کسی کی نگاہوں میں قید ہو رہی ہے ۔اس کے بعد جب تک تینوں جوڑوں کو ایک ساتھ بٹھا کر رسومات ادا نہیں ہوئیں وہ مہمانوں کے انتظامات سنبھالنے میں مصروف رہی تھی۔۔بہت گرم جوشی سے ہر ایک کی آو بھگت کر رہی تھی ۔ہر ذمےداری بہت اچھے طریقے سے سنبھالی ہوئی تھی ۔۔اس کے بعد فوٹو سیشن شروع ہوا تھا۔۔۔ اور پھر سب نے اسے آوازیں لگائی تھیں ۔۔اس کا دل نہیں تھا وہاں جانے کا لیکن مہر اسے کھینچ کر لے گئی تھی ۔۔
”نایاب کہاں رہ گئی تھی۔۔؟“زرناب پھپھو نے بیٹی کو گھرکا تھا ۔۔اسے اس وقت سب گھر والوں کے درمیان رہ کر رسومات میں شرکت کرنی چاہیے تھی ۔۔مگر وہ رسومات کے تمام ہونے تک غائب رہی تھی ۔اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔۔خاموشی سے سب کے ساتھ کھڑے ہو کر اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے دوران بہت سی تصاویر کھنچوائی تھیں ۔۔تینوں جوڑوں کے ساتھ بھی دو تین تصویریں بنوائیں اور پھر کسی کام کا بہانہ کر کے وہ اٹھنے لگی تھیں کہ فائقہ ممانی نے روک لیا۔۔
” نایاب تم اور ذکاء اپنا الگ سے بھی فوٹو سیشن کرا لو۔۔۔ جاؤ!“ان کی بات پر وہ غیر آرام دہ نظر آئی ۔۔انکار بھی نہ کر پائی اور اقرار کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں تھی ۔۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی ۔۔
”ذکاء جاؤ جلدی سے تم بھی!“انھوں نے پاس سے گزرتے بیٹے کو بھی متوجہ کیا ۔۔وہ فون پر مسیج ٹائپنگ میں مصروف وہاں سے گزر رہا تھا ۔۔نایاب نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا ۔۔اور رخ موڑ لیا۔۔ جبکہ ذکاء نے ماں کی بات پر فوراً مسیج سینڈ کر کے فون چہرے کے سامنے سے ہٹایا تھا ۔
”جی !“اس نے مؤدب سا کہہ کر فوٹوگرافر کو پکارا تھا ۔۔نایاب نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔۔۔وہ مان کیسے گیا تھا ۔۔حیرت سی حیرت تھی۔۔
اس کے بلاوے پر فوٹو گرافر آیا اور کیمرہ سیٹ کیا ۔فائقہ ممانی انھیں مسکرا کر دیکھتی وہاں سے چلی گئیں ۔۔نایاب کی الگ حالت خراب ہوئی تھی۔۔۔سر جھکائے کھڑی رہی جب ذکاء کچھ اس کے قریب کھڑا ہوا تھا ۔۔وہ جھجھک گئی۔۔
اور پھر فوٹوگرافر نے انھیں رومانٹک سے کپل پوز بتائے تھے ۔۔ جسے سنتے ہوئے نایاب کا چہرہ شرم سے لال پڑا تھا۔۔جبکہ ذکاء بھی گڑبڑا گیا تھا ۔۔
”کچھ آسان سا بتاؤ بھئ۔۔یہ نہیں ہو پائے گا۔۔اتنے لوگ ہیں آس پاس!“ ذکاء نے سنجیدگی کے لبادے میں اپنی شرمندگی اتار کر اسے ٹوکا تھا۔۔اصل میں اس کے بتائے گئے پوز پر وہ نایاب سے بھی خجل ہوا تھا۔۔
”اچھا ٹھیک ہے۔۔آپ ایک کام کریں بس ان کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور کچھ اور پاس ہو جائیں ۔۔“فوٹو گرافر نے کچھ رعایت کی تھی۔۔بلکہ پہلے کے بتائے پوز سے کافی زیادہ رعایت کی تھی۔۔۔
”یہ کمر پر ہاتھ والا بھی ہٹائیں ۔۔!“ذکاء نے مزید رعایت طلب کی اور کچھ اس کے قریب کھڑا ہو گیا ۔۔نایاب کو جانے کیوں اس کا قریب ہونا اچھا نہیں لگا تھا ۔۔اور ویسے بھی جب ان کی علیحدگی طے تھی تو کیا ضرورت تھی دنیا والوں کے سامنے اس ڈرامے کی۔۔
”مجھے سیشن نہیں کروانا سوری!“وہ ناگواری سے فوٹوگرافر سے معزرت کرتی اچانک وہاں سے جانے لگی تھی کہ ذکاء نے اس کی کلائی پکڑ کر ایک جھٹکے سے موڑا تھا ۔۔وہ لڑکھڑائی تو بے اختیار ذکاء نے اسے کمر سے پکڑ کر سنبھال لیا تھا اور عین اسی نادانستہ بنے پوز پر فوٹوگرافر نے کلک کر کے ان کی سب سے بہترین فوٹو کیمرے میں قید کرلی تھی۔۔۔
”میں بھی کوئی شوق سے یہ سب نہیں کر رہا ماما کی خواہش تھی ہمارا الگ سے فوٹو سیشن ہو۔۔اور پھر کچھ وجہ مہمانوں کی بھی ہے۔۔جن کی نظر کب سے ہم دونوں پر ہے ۔۔۔میں مزید کسی کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دینا چاہتا ۔۔بہتر ہوگا تم بھی اس میں میرا ساتھ دو ۔۔اور اگر پہلے کی طرح ہی میرا تماشا لگانے میں انٹرسٹڈ ہو تو وہ بھی بتا دو۔۔یہاں آج تو لوگ بھی کافی زیادہ ہیں ۔۔تمہارے تماشے لگانے کا کوٹا اچھے سے پورا ہوگا ۔“وہ دانت پیس کر سرگوشیاں لب و لہجے میں بولتا طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا ۔۔نایاب نے ملال سے اسے دیکھا ۔۔پہلے ہی اس ستم گر کی پکڑ نے کمر کی ہڈیاں چٹخی دی تھیں اس پر متضاد اس کے کاٹ دار جملے نے اس کا دل غم سے بھر دیا تھا۔۔۔وہ لب بھینچ کر ظاہر و باطن میں اٹھتی ٹھیس کو دباتی ہوئی کچھ نارمل ہوئی تھی ۔۔ذکاء نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا اور اپنی شیروانی کو درست کیا۔۔
”واہ بہترین پوز!“ فوٹوگرافر اپنی لی گئی تصویر کو سراہ رہا تھا ۔۔اس کے بعد نایاب نے ناچاہتے ہوئے بھی خاموشی سے ذکاء کی مرضی اور فوٹوگرافر کی ہدایت پر تصاویر کھنچوائی تھیں ۔۔
فوٹو سیشن کے بعد کھانا کھایا گیا تھا ۔۔اور پھر بالآخر رخصتی کا شور اٹھا تھا۔۔۔دلہنوں نے دل تھام لیئے ۔۔۔رخصتی کی رسم ادا ہوتی اس سے پہلے ہی کوئی آتا ہوا اسٹیج کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔۔میر ولا کا ہر فرد ناسمجھی سے کھڑا اس شخص کو دیکھنے لگا ۔۔
”بابا!“ اسٹیج پر بیٹھی فاریہ کے لبوں سے سکتے میں ڈوبی آواز نکلنے سے پہلے ہی دم توڑ گئی تھی۔۔جبکہ شانی کے اندر غصے کے ابال اٹھے تھے۔۔ولید سلطان وہاں کیوں آیا تھا ؟ فاریہ کی خوشیوں میں پیوند لگانے۔۔؟
باقی سب کے چہروں پر تناؤ پھیلتا گیا تھا ۔۔
”آپ کو کس نے دعوت دی تھی یہاں آنے کی۔۔یہاں کسی کو آپ کی ضرورت نہیں ہے۔۔چلے جائیں یہاں سے۔۔۔کس نے بلایا آپ کو؟“سب سے پہلے شانی کھولتے ہوئے صوفے سے اٹھا تھا ۔۔
”میں نے بلایا ہے شانی.“ ذکاء کی آواز پر سب نے تعجب سے اس کی سمت گردنیں موڑیں تھیں ۔
”لیکن کیوں ذکی ؟“شانی نے سخت ناگوار لہجے میں پوچھا تھا ۔۔ فاریہ کو وجود تو ہلنے سے بھی قاصر تھا۔۔۔شانی نے اسے بالکل اب تک یہ بات نہیں بتائی تھی کہ وہ اس کے باپ کو ڈھونڈ چکا ہے ۔۔اور نہ ولید سلطان کو کہ فاریہ اسے مل چکی ہے۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا فاریہ اپنے کم طرف باپ سے دوبارہ کبھی بھی ملے۔۔۔وہ اسے اس تکلیف سے بچانا چاہتا تھا جو آج وہاں بیٹھی فاریہ کے دل میں اٹھ رہی تھی۔۔۔وہ خوش نہیں ہوئی تھی۔۔ہاں مگر حیران تھی ۔بہت حیران ۔۔
”کیونکہ یہ تمہاری بیوی کا باپ اور تمہارا سسر ہے شانی ۔ ۔ اور اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کا پورا حق ہے انہیں ۔۔“
ذکاء نے سنجیدگی اور معاملہ فہمی سے کام لیا تھا۔۔۔گھر کے بڑے اور دادو چپ تھے۔۔وہ بس ذکاء کو سن رہے تھے ۔۔اور ذکاء سمجھدار تھا۔۔اس کے کسی عمل میں مصلحت ضرور ہوتی تھی ۔۔
”آج تک کونسے حق نبھائیں ہیں انھوں نے ذکی۔۔جو یہ حق اُنھیں میں دے دوں گا.“شانی کے کنپٹی سلگ اٹھی تھی ۔۔ذکاء کو اس شخص کو چلانے سے قبل اس سے پوچھ لینا چاہیے تھا ۔۔
”اس کا حق تم نہیں دو گے انھیں شانی۔۔فاریہ دے گی۔۔آج تک انھوں نے بیٹی کے کوئی حق ادا نہیں کیئے۔۔۔اسی لئے میں نے آج انہیں بلا لیا ہے کہ آخری حق پورا کر لیں۔۔ ورنہ اس سے بھی محروم رہ جائیں گے ۔۔اور پھر وہ اپنے کیئے پر شرمندہ بھی ہیں ۔۔انھیں احساس ہو گیا ہے ۔۔وہ بیٹی کے لئے اتنے دنوں سے تڑپ رہے تھے بے چین تھے۔۔مجھ سے دیکھا نہیں گیا تو میں نے انھیں سب سچ بتا دیا کہ فاریہ پہلے کی طرح اب بھی میر ولا میں ہے ۔۔وہ اگر چاہیں تو اسے رخصت کرنے آ سکتے ہیں ۔۔“ذکاء نے سبھاؤ سے سمجھایا تھا اسے۔۔شانی نے گلے سے پھولوں کی مالا نکال کر غصے سے ٹیبل پر پھینکی ۔
”نہیں ذکی۔۔یہ اگر اب چاہیں بھی تو فاریہ کو رخصت نہیں کر سکتے ۔۔ان کے پاس یہ حق بھی نہیں ہے۔۔اور نہ یہ اس حق کے قابل ہیں ۔۔میں انھیں اجازت نہیں دیتا کہ یہ اب میری بیوی سے کوئی بھی نامی تعلق رکھیں۔۔۔آج کے بعد فاریہ کی شکل بھی نہیں دیکھیں گے یہ۔۔“شانی بھڑک اٹھا تھا ۔فاریہ ساکت بیٹھی رہی ۔۔
”میرے خیال سے اس بات کا فیصلہ فاریہ کو کرنے دینا چاہیے ۔۔یہ ان باپ بیٹی کی جنگ ہے شانی۔۔انھیں ہی لڑنے دو۔۔آخری فیصلہ بے شک فاریہ کا ہی ہوگا ۔۔اگر وہ آج کے بعد ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہے گی تو یہ بھی فاریہ کی مرضی ہوگی اور اگر آج وہ اپنے باپ کو دل بڑا کر کے معاف کر دیتی ہیں اور انھیں اپنی رخصتی کا حق دیتی ہے تو تم بیچ میں نہیں بولو گے شانی کیونکہ یہ لڑائی اسی کی تھی۔۔ختم بھی اسے ہی کرنا ہے۔۔۔وہ اپنے باپ سے تعلق رکھنے یا توڑے یہ اسی کی مرضی ہونی چاہیے ۔۔اس کے شوہر کی نہیں ۔۔تم رکاوٹ نہ بنو ۔۔اس کے فیصلے میں اس کا ساتھ دو۔۔“ذکاء نے سنجیدگی اور ٹھہراؤ بھرے انداز میں بات مکمل کی تھی۔۔۔شانی نے لب بھینچ لیئے ۔۔ایک نظر ولید سلطان کو دیکھا وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح سر جھکائے کھڑے حقیقت میں بہت شرمندگی کا شکار تھے۔۔وہ اچھے باپ نہیں بن پائے تھے۔۔مگر اب کوشش کرنا چاہتے تھے ۔۔انھیں ایک موقع تو ملنا ہی چاہیے تھا ۔سب گھر والے ذکاء کے عمل پر فخر محسوس کر رہے تھے۔۔اس نے بہت اچھا کام کیا تھا۔۔ آج کے دن باپ اور بیٹی کو ملوا دیا تھا۔۔
شانی نے نخوت سے سر جھٹکا اور رخ موڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔ذکاء خاموشی سے اسٹیج پر چڑھا اور زیبی کنول کے درمیان ہاتھ گود میں رکھے بیٹھی سر جھکائے بے آواز سسکتی فاریہ کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔
”فاریہ۔۔۔! تم میری بہنوں کی طرح ہو۔۔ شروع دن سے میں نے تمہیں اپنی بہنوں کی جگہ پر رکھ کر سوچا ہے۔۔اور آج بھی وہی کیا ہے۔۔دیکھو فاریہ اگر آج تم اپنے بابا کو معاف کر کے انھیں ایک موقع دیتی ہو اپنی خطاؤں کو سدھارنے کا تو تمہارے اس درگزر کا بڑا انعام اللہ نے سوچ رکھا ہوگا ۔۔اور اگر آج تم انھیں یہاں سے نامراد لوٹا دیتی ہو تب بھی تم حق پر ہوگی ۔۔اس میں تم غلط بالکل نہیں ٹھہرائی جاؤ گی، خود کو جج مت کرنا۔ کیونکہ جنہوں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے انھیں سزا ملنی چاہیے ۔تم اپنی عدالت میں مقدمہ جیت جاؤ گی۔مگر جو بھی فیصلہ کرو یہ ذہن میں رکھ کر کرنا کہ تمہارا باپ اپنے کیئے پر شرمندہ ہے۔۔ان سے جو بھی خطائیں ہوئی ہیں انھیں اس بات کا احساس ہے آج ۔۔وہ اس وقت بہت عاجز و بے کسی کا شکار ہیں ۔۔۔انھیں پچھتاوا ہے ۔۔ندامت ہے۔۔۔وہ اپنی غلطیاں مان چکے ہیں اور ان کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں ۔۔اس میں اگر تم ان کا ساتھ دیتی ہو اور موقع بھی تو تم اللّہ کی نظروں میں اس کے بہترین بندوں میں شامل ہو جاؤ گی۔۔معاف کرنے سے زیادہ مشکل معافی مانگنا ہوتا ہے ۔۔تم تو آج بھی آسانی پر کھڑی ہو فاریہ ۔۔ کہ تم معاف کرنے کے عمل پر ہو اور کوئی تم سے معافی مانگنے آیا کھڑا ہے۔۔اللہ نے تمہیں کتنا مارجن دے دیا ہے۔۔ہے کہ تمہیں معافی مانگنے والوں میں نہیں معاف کرنے والوں کی صف میں شامل کیا ہے۔۔اور یہ صفت اللّہ پاک کی ہے۔۔۔اب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تمہیں اپنے عدالت کی سرخروئی چائیے یا اللّہ کی ۔۔۔تم جو بھی فیصلہ کرو گی ۔میرے اور اپنے شوہر کے سمیت پورے میر ولا کو اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی ۔۔ ہم ہر فیصلے میں تمہیں ہی سپورٹ کریں گے۔۔“
ذکاء نے پر شفیق لب و لہجے میں فاریہ کو سمجھایا تھا ۔۔فائقہ ممانی کے لبوں پہ مسکراہٹ در آئی ۔۔ان کا بیٹا بلا شبہ ایک بہترین شخص تھا۔۔کاش وہ بھی اس بات پر عمل کرے اور نایاب کو معاف کر سکے ۔پورے میر ولا کو اس پر ناز تھا ۔۔دادو کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں ۔۔ان کے پوتے ان کی پرورش کا صحیح استعمال کرتے تھے ۔۔کہ ان کا ہر عمل ان کا خون سیروں بڑھا دیتا تھا۔۔۔
وہ اسے سنجیدگی سے دیکھ کر اٹھا اور اسٹیج سے اتر گیا ۔۔فاریہ نے لبالب بھری آنکھیں اٹھا کر عین سامنے کھڑے باپ کو دیکھا تو آنسوں بھل بھل کر اس کی رخساروں پر بہہ نکلے۔۔شانی نے مڑ کر اسے دیکھا ۔اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے ۔وہ کچھ کہہ نہیں پا رہی تھی ۔ شانی نے غصہ ضبط کر لیا تھا۔۔ صرف اور صرف فاریہ کے لئے ۔۔وہ اس کے فیصلے میں اپنے غصے کی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ۔۔فاریہ نے ایک لاچار نظر اس پر ڈالی اور شانی نے نرمی سے مسکرا کر اسے خاموش سے تسلی کرا دی ۔۔اور بس فاریہ کا ضبط ٹوٹ گیا تھا ۔۔وہ ایک دم اٹھی اور اسٹیج سے اترتے ہوئے باپ کی آغوش میں سمٹ گئی تھی۔۔۔ولید سلطان بھی بیٹی کو اپنی پر شفقت اور محفوظ پناہ میں سمیٹ کر رو دیئے۔۔۔بڑا ہی جذباتی سا منظر تھا ۔۔۔ باپ بیٹی کا ایسا دل سوز ملاپ سب کی آنکھوں میں نمی اتار گیا تھا ۔۔وہ معافی تلافی کر کے رہے تھے اور فاریہ ان کے جڑے ہاتھ پکڑ کر سر نفی میں ہلاتی روتی جا رہی تھی۔۔۔ایک اور بچھڑا ہوا رشتہ تھا جو سنور گیا تھا ۔۔دادو اور تینوں ماموں آگے آئے اور ولید سلطان سے بغل گیر ہوئے تھے۔۔جب فاریہ نے انھیں معاف کر دیا تھا تو ان سب کا حق بنتا تھا انھیں عزت و احترام دینا۔۔۔پھر دادو نے شانی کو اشارہ کیا تھا۔ وہ سر جھکا کر اسٹیج سے اترا اور پاس چلا آیا ۔۔ولید سلطان نے اس گلے سے لگا کر ڈھیروں دعائیں دی تھیں۔۔اب وہ دونوں بازوؤں کے حلقے میں شانی اور فاریہ کو لپٹائے کھڑے تھے۔۔۔دادو نے پھر فوٹوگرافر کو بلوا کر ولید سلطان کے ساتھ ان کی تصاویر بنوائیں اور پھر رخصتی کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔۔جو پہلے ہی ایک گھنٹہ لیٹ ہو چکی تھی ۔۔
تینوں دلہنوں کی رخصتی کی رسم ادا کی گئی تھی۔۔سب ہی خوش و خرم تھے۔۔۔میر علا کے کونے کونے میں خوشیاں رقصاں تھیں۔۔دلہنوں کے الگ گھر تو تھے نہیں ۔۔تبھی گاڑی میں بٹھا کر محلے کا ہی ایک چکر لگایا گیا تھا۔۔۔یہ آئیڈیا بھی زوار کا تھا ۔۔اب یہ کیا بھئی کہ رخصتی کے نام پر نیچے سے اوپر کمروں میں پہنچا دیا جائے ۔۔تھوڑا تو ہلا گلا ہونا چاہیے تھا ۔۔اس کے بعد بڑے ہی جوش و خروش سے ایک ساتھ تین گاڑیاں میر ولا میں داخل ہوئیں تھی اور مہمان حضرات دروازے پر ہی ان کا پرجوش استقبال کرنے کے لئے پھولوں کے تھال لیئے کھڑے نظر آئے تھے ۔ان کے گاڑی سے نکلتے ہی سب نے پھولوں کی برسات کر دی ۔اور تینوں جوڑے چاہتوں اور امنگوں کے دم بھرتے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے مسکراہٹوں اور خوشیوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے تھے۔۔۔بچی رسموں کی ادائیگی کے بعد دلہنوں کو ان کے کمروں میں پہنچا دیا گیا تھا ۔۔۔اور مہمانوں نے بھی رخصت لی تھی ۔۔میر ولا کے مہمان تو تھکے ہوئے تھے۔۔فوراً کمروں میں سونے گھس گئے ۔۔سارا شور شرابا تھما اور ہال خالی رہ گیا ۔۔۔اور ہال کے وسط میں کھڑی نایاب بھی۔۔
وہ بہت تھک چکی تھی۔۔صبح سے کسی مشین کی طرح تو مہمانوں کا خیر مقدم کر رہی تھی۔۔ اب تھکنا تو بنتا تھا۔۔۔ میر ولا کے مکین بھی تھکے ہارے کمروں میں گم ہو گئے تھے۔۔۔پورے ہال کی کچھ لائٹس بند ہو گئی تھیں ۔۔اب کہیں کہیں کی جلتی لائٹوں کی مناسب سی روشنی ہال میں پھیلی ہوئی رات کی خاموشی کو واضح کر رہی تھی ۔۔ایسی ہی ایک خاموشی اس کے اندر بھی اتری ہوئی تھی ۔۔میلوں تک پھیلی گمنام خاموشی۔۔ نایاب نے گردن موڑ کر میر ولا کو دیکھا ۔۔وہ شاید اب یہاں سے چلی جاتی۔۔کہیں بہت دور۔۔۔ ذکاء سے علیحدگی کے بعد وہ کیسے اب یہاں رہ سکتی تھی ۔۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ ماں کو لے کر یہ گھر چھوڑ دے گی ۔۔سب کچھ سارے رشتے پیچھے چھوڑ دے گی۔۔جو سناٹے اس کے اندر باہر پھیلے ہوئے ہوئے انھیں وہ ابھی زندگی کا حصہ نہیں بنانا چاہتی تھی ۔۔وہ ذکاء کی زندگی سے چلی جائے گی۔۔تاکہ وہ اپنی مرضی کی لڑکی کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی شروعات کر سکے ۔۔وہ اس کی راہ کا کانٹا تھی۔ اور وہ اب اس کانٹے کو نکال باہر کرنا چاہتی تھی ۔۔ہاں اسے سب کچھ بھلانے میں وقت لگے گا۔۔مگر وہ جانتی تھی ایک دن وہ یہ بھی کر لے گی۔۔۔ کچی عمر کی محبت تھی ذکاء سے اسے۔۔اور یہ مسئلہ اس کا اپنا تھا ۔۔ذکاء کا تو نہیں ۔۔اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔اسے بھی پورا حق ہے اپنی مرضی کا ہمسفر چننے کا ۔۔۔وہ تو بلا وجہ ہی اس پر تھوپ دی گئی تھی ۔۔اس نے گردن اٹھا کر اوپر ان تین کمروں کی سمت دیکھا تھا۔۔جن کے اندر بیٹھی دلہنیں کتنی خوش قسمت تھیں۔۔اور کتنے پیار کرنے والے شخص اللّہ نے انھیں عطا کیئے تھے۔۔۔پتا نہیں ان کی کونسی نیکی کا یہ اجر تھا۔۔۔نایاب تو سب کی خدمت گزاری کر کے بھی ان جیسی قسمت نہیں پا سکی تھی۔۔۔اس نے استہزاء سے خود پر ہنس کر سر جھٹکا اور اس خالی ہال میں صوفے کے کنارے لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔نیند تو ابھی نہیں آنی تھی۔۔وہ ہاتھوں کو پھیلا کر یونہی ہلکی روشنی میں لکیروں میں اپنی آسانیاں تلاشنے لگی۔۔
••••••••••••••
Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Last Episode
