پورا روشن ؤ چمکتا چاند سیاہ آسمان کی وسعتوں میں جگمگاتا بہت حسین لگ رہا تھا ۔۔وہ ٹیرس پر شیروانی تبدیل کر کے آرام دہ سفید سوٹ میں ملبوس کھڑا چہرہ اُٹھائے اس چاند کے سحر میں کھویا ہوا تھا ۔۔اسے بچپن سے ٹیرس پر کھڑے ہو کر چاند کی خوبصورتی کو سراہنا پسند تھا ۔۔۔ پورا چاند اس کی کمزوری تھا۔ وہ چاہ کر بھی اس سے نگاہ نہیں ہٹا پاتا تھا ۔۔ ٹھنڈی مدھم ہواؤں کے سنگ یہ سماں اس کی تھکاوٹ زائل کر دیتا تھا۔۔آج وہ واقعی میں بہت تھک چکا تھا۔۔اور اسے خوشی اس بات کی تھی کہ آج اس کے تینوں بھائیوں کی زندگی بھی نئے سرے سے شروع ہو گئی تھی۔۔اور فاریہ نے بھی باپ کو معاف کر کے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔وہ خوش تھا اس نے باپ بیٹی کو ملا دیا تھا۔۔۔انسان جب کوئی بھی نیک کام اللّہ کی رضا کے لیے کرتا ہے تو ایسے ہی اس کے اندر خوشی بھر دی جاتی ہے۔۔قلبی سکون سے اسے نواز دیا جاتا ہے ۔۔وہ خوش تھا اور مطمئن بھی۔۔مگر کچھ تو جو پھر بھی دل میں کھٹک رہا تھا ۔۔جانے کیا؟ وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ تبھی اسے پیچھے سے ایک کھنکھار نے چونکایا تھا۔۔وہ ٹھٹک کر پلٹا تو پیچھے زوار کے ساتھ تینوں دولہے بھی کھڑے تھے۔۔ٹیرس کے دروازے کے درمیان ایک لائن سے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑے میر ولا کے چاروں ہوتے اسے تیکھی نظروں سے گھور رہے تھے ۔۔انھیں اس وقت وہاں دیکھ وہ حیران ہوا تھا۔ کلائی موڑ کر ٹائم دیکھا رات کا ایک بج چکا تھا۔۔
”زوی تم ابھی تک سوئے نہیں ۔۔صبح کالج ہے نا تمہارا ۔۔۔؟“اس نے بڑے بھائیوں والی سختی دکھائی تھی۔۔
”اور تم تینوں کو اس وقت اپنے کمروں میں ہونا چاہیے ۔۔!“ اس کے بعد اس نے ذمان ،شانی اور بلال کو گھورا تھا۔ انھوں نے آپس میں کچھ ذو معنی تبادلے کیئے اور پھر ذمان پہلے آگے آیا تھا ۔۔
”ہمارے ساتھ اس وقت تمہیں بھی اپنے کمرے میں ہونا چاہیے تھا ۔۔ “ اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔
”مجھے تو نیند ابھی نہیں آ رہی تھی اور پھر میں یہاں چاند دیکھنے چلا آیا ۔۔دیکھو تو کتنا خوبصورت ہے۔۔“اس نے کندھے اچکا کر میکانکی سے جواب دیا تھا ۔۔
”حیرت ہے۔۔اپنے ذاتی چاند کو چھوڑ کر تم یہاں اس چاند کو دیکھ رہے ہو جو سب کے لیے چمکتا ہے ۔۔سب کے لئے ایک سا رہتا ہے ۔۔ہر کسی کا ہے۔۔اور تم اپنے چاند کی چمک کو نظر انداز کر کے یہاں کھڑے ہو اس چاند کو سراہنے کے لئے۔ “یہ شانی تھا جو استہزائیہ ہنستے ہوئے اس کے سامنے آن رکا تھا ۔۔
”مطلب میں سمجھا نہیں ۔۔میرا ذاتی چاند کونسا ہے۔۔“ذکاء نے سر نفی میں ہلا کر ناسمجھی سے پوچھا تھا ۔۔
”نایاب کی بات کر رہے ہیں ہم.“ بلال بھی پاس آیا تھا ۔۔اور ذکاء ایک دم ٹھٹکا تھا۔۔
”نایاب کی؟“اس نے زیرِ لب دہرایا ۔۔۔
”جی بھائی ۔۔نایاب کی.“زوار نے اس کے سوال پر مہر لگاتے ہوئے مضبوط انداز میں اسے دیکھا تھا ۔۔ذکاء نے لب بھینچ لیئے ۔۔۔
”اب کیا کرنا ہے ذکاء تم نے ۔نایاب کو غلط فہمی تھی جو دھل گئی۔۔اب کس بات کی ناراضگی ہے تم دونوں میں؟“ذمان نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
”کوئی ناراضگی نہیں ہے زمان۔۔سب ٹھیک ہے۔۔“اس نے بلا وجہ ہنستے ہوئے کندھے اچکا دیئے تھے ۔۔
”سب ٹھیک نہیں ہے ذکاء ۔۔بس کر دو یہ ڈراما ۔۔تم اپنے دل کی بات شروع سے کسی کو نہیں بتاتے ۔ تمہاری شخصیت ایسی ہے کہ چاہ کر بھی کوئی تمہارے اندر نہیں اتر سکتا ۔۔یا تم اترنے ہی نہیں دیتے ۔۔۔کوئی تمہیں آج تک جان نہیں سکا۔۔جس بات کا اندازہ لگاتے ہیں سب تم اس کا کچھ الٹ ہی کر گزرتے ہو۔۔۔تو آن ہم سب تم سے پوچھنے آئے ہیں تم کیا چاہتے ہو۔۔؟“
”میں کچھ نہیں چاہتا ۔۔تم سب بے فکر رہو اور اپنی نئی زندگی کو انجوائے کرو۔۔!“
اس نے ذمان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔۔
”بھائی آپ کیا کسی اور سے محبت کرتے ہیں ؟“زوار نے متشبہ انداز میں اچانک پوچھ لیا تھا ۔۔ذکاء اس سوال پر ساکت رہ گیا ۔۔سب اس کے چہرے پر کھوج لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
”نہیں۔۔کوئی اور عورت میری زندگی میں نہیں ہے زوی۔۔۔ اس بات سے بے فکر رہو ۔۔!“اس نے صاف گوئی سے کہا تھا۔۔
”تو پھر کیا مسئلہ ہے تمہارا ۔۔تم نایاب کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے ؟“شانی جھنجھلا گیا تھا ۔۔وہ کوئی سیدھی بات نہیں پکڑاتا تھا۔۔وہ شروع سے اپنی شخصیت میں سب کو الجھا کر گھما دیتا تھا ۔۔ اور خود مطمئن ہو کر نکل جایا کرتا تھا ۔۔
”نہیں اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔۔اور اس متعلق ابھی میں نے کچھ سوچا نہیں ۔۔جب سوچوں گا تو تم سب کو پتا چل جائے گا ۔۔اور شانی میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔۔مجھے اچھا لگا تم لوگوں نے میری فکر کی۔۔مگر نایاب میری بیوی ہے اور میں چاہتا ہوں ہمارے ذاتی معاملات میں کوئی بھی مداخلت نہ کرے۔۔ مُجھے آگے اپنے اور اس کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ میرا کام ہے سوچنا۔۔۔اور میں ابھی وہی سوچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔کوئی یہ مت سوچیں کہ میرے اور نایاب کے درمیان فاصلے اس کی وجہ سے آئے ہیں ۔۔میں یہ بات صاف کر دینا چاہتا ہوں کہ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔ہمارے درمیان فاصلے شروع سے ہیں ۔۔اور وہ کیوں ہیں یہ سوچنا میرا کام ہے۔۔اور میں اس بات کی پیورٹی دیتا ہوں بہت جلد میں کسی فیصلے پر پہنچ کر تم سب کو اس ٹینشن سے چھٹکارا دلا دوں گا ۔۔۔ “اس نے بڑے ہی ٹھہرے ہوئے انداز میں ان چاروں کو دیکھ کر تسلی کرائی تھی۔۔وہ ناخوشی سے ایک دوسرے کو تکنے لگے ۔۔۔
”چلو بھئی جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔تم یہاں پر بھلے سے ساری رات کھڑے ہو کر دیکھو یہ چاند ۔۔۔ بھئی ہمیں تو ہمارے چاند بڑے عزیز ہیں۔ تمہیں ہی اب جب اپنے چاند کی قدر نہیں ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔“شانی اسے جتاتے ہوئے انداز میں کہتا سر جھٹک کر وہاں سے چکا گیا تھا ۔
”تم بہت غلط کر رہے ہو نایاب کے ساتھ ۔۔میں بس یہی کہوں گا کہ تم کوئی جلدی سے فیصلہ کرو اور اسے اس بے معنیٰ رشتے سے آزاد کر دو ۔اس کی بھی ذہنی اذیت ختم ہو اور وہ خوش رہ سکے ۔۔تم نے شاید اس کی حالت پر غور نہیں کیا۔۔صدیوں کی بیمار لگ رہی ہے وہ زکی! تم ہر بات میں شروع سے ہی پرفیکٹ رہے ہو۔۔ہم سب کو تم پر ناز ہے۔۔مگر افسوس تم اس معاملے میں زیرو رہ گئے ۔۔ اس کے جذبات بھی سمجھو ذکی۔۔اسے اتنا مجبور مت کرو کہ وہ زندگی گزارنا بھی چھوڑ دے ایک دن۔۔۔اگر تمہیں اس سے محبت نہیں ہو پا رہی تو میں دعا کروں گا تمہیں اس سے محبت ہو جائے ۔۔“ذمان اس کو ملامت کرتا شانی کے پیچھے ہی وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔
”اگر آپ کو ایسا ہی کرنا تھا بھائی تو پھر آپ کو نایاب سے شادی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔کیوں کر دی اس کی زندگی برباد ۔۔ نکاح ٹوٹ گیا تھا نا اس کا۔۔دادو خاندان میں کسی سے بھی اس کی شادی کرا دیتے ۔۔کم از کم آج وہ مکمل اور خوشحال زندگی تو گزار ہی رہی ہوتی ۔۔اسے کوئی قدر کرنے والا اسے سمجھنے والا شوہر ملتا ۔۔ آپ بہت اچھے ہیں بھائی مگر آپ نے نایاب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔“زوار ملال سے اسے کہتا دل برداشتہ ہو کر چلا گیا تھا ۔۔وہ سر جھکائے کھڑا سنتا رہا ۔۔
”ذکی مجھے نہیں پتا تمہارے دل میں کیا ہے۔۔مگر میرا دل کہتا ہے تمہارا دل جب فاریہ کے لئے اتنا اچھا سوچ سکتا ہے تو نایاب تو پھر بھی تمہارے نکاح میں ہے تم اس کے لئے بھی اچھا ہی سوچو گے۔۔۔ بس میری اس امید کو توڑنا مت۔۔اور اس کے ساتھ اب مزید کچھ برا مت کرنا۔ ۔ “بلال اس سے التجا کرتے ہوئے پلٹ گیا تھا ۔۔پیچھے تنہا ٹیرس پر وہ اکیلا سر جھکائے کھڑا رہ گیا ۔۔
•••••••••••••
”نایاب تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟“فائقہ ممانی ماموں کے لئے چائے بنانے واپس اتری تھیں جب انھیں وہ صوفے پر سمٹ کر بیٹھی نظر آئی ۔۔
”جی ممانی ویسے ہی بیٹھ گئی تھی ۔!“اس نے صوفے کو چھوڑتے ہوئے اٹھ کر ان کو جواب دیا تھا۔۔۔فائقہ ممانی کے چہرے پر کچھ سختی امڈی۔
”نایاب اس طرح کونوں کھدروں میں بیٹھنا چھوڑ دو۔۔۔گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے ۔۔سب دیکھ کر سوال کرتے ہیں کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے۔۔تم خوش نہیں ہو۔۔کم ازکم باہر والوں کے سامنے تو خوش رہو ۔۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے گھر آئے مہمان تمہیں اور ذکاء کے رشتے کو لے کر کتنی باتیں بنا رہے ہیں ۔۔“وہ چل کر اس کے پاس آئیں ۔۔نایاب نے خجالت سے سرخ پڑتے چہرہ جھکا لیا ۔
”جی میں آئندہ خیال رکھوں گی اور کوشش کروں گی کسی کو باتوں کا موقع نہ دوں ۔۔“وہ یہی کہہ سکی تھی۔۔ان کے چہرے کی سختی کچھ کم ہوئی ۔۔
”بہتر۔۔اب جاؤ اپنے کمرے میں۔۔“انھوں نے حکم جاری کیا اور وہ لب کچلتی ہوئی اس کی سرعت سے نکلی اور سیڑھیاں چڑھ گئی ۔۔وہ اسے نیچے کھڑے ہوئے ہی تب تک تکتی رہی جب تک اس نے تمام سیڑھیاں چڑھ نہ لیں۔۔اور پھر جب اس کا رخ انھوں نے اپنے کمرے کی سمت مڑتا دیکھا تو پھر سے ان کے چہرے کا تناؤ بڑھتا گیا ۔۔
”نایاب میں نے کہا اپنے کمرے میں جاؤ!“ انھوں نے کھنچاؤ بھرے سرد تاثرات لیئے اسے بلند آواز لگائی تھی۔۔وہ ٹھٹک کر رکی۔۔مڑ کر نیچے سیڑھیوں کے کنارے پر ایستادہ انھیں دیکھا۔۔
”جی میں اپنے ہی کمرے میں جا رہی ہوں ۔۔“اس نے سادگی سے جواب دیا ۔۔انھوں نے آنکھیں میچ کر اس کی معصومیت پر کچھ ضبط کیا تھا۔۔اور واپس سیڑھیاں چڑھ کر اس کے پاس آئیں ۔۔وہ سوالیہ نظروں سے انھیں ہی دیکھ رہی تھی ۔
”نایاب اپنے کمرے میں یعنی اس کمرے میں جاؤ جس میں بیاہ کر لائی گئی تھی۔۔اپنے شوہر کے کمرے میں ۔۔۔سب اس وقت گھر میں موجود ہیں میں اب نہیں چاہتی کہ کوئی اس بات پر ایشو بنے۔۔ آج سے تم ذکاء کے ساتھ ہی رہو گی۔۔تم دونوں میں کیا معاملہ چل رہا ہے اسے بات کر کے ختم کرو بیٹا۔۔ اس طرح الگ کمروں میں رہنے سے میاں بیوی کے معاملات نہیں سنبھلتے ۔۔اور تم بیوی ہو ذکاء کی ۔۔وہ نہیں جھک رہا تو تم جھک جاؤ ۔۔۔عورتوں کے لئے اکڑ ایک حد تک ہی اچھی لگتی ہے نایاب۔۔۔ہاں ٹھیک ہے عورت ناز سے بنی ہے اور اس کا شوہر سے ناراض رہنا اس امید پر کہ شوہر اسے منائے ۔۔اس کا حق ہے ۔۔مگر جہاں بات بن نہ رہی ہو وہاں اپنا گھر بچانے کے لئے تمہیں اگر آج جھکنا پڑ رہا ہے تو جھک جاؤ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔۔۔شادی کو ابھی ایک ماہ ہوا ہے ۔۔ابھی ہی تو زندگی کے اتار چڑھاؤ دیکھنے ہیں تم لوگوں نے ۔۔۔اور یقین جانو آج جھک جاؤ گی نا تو اگلی ساری زندگی وہ تمہیں جھکنے نہیں دیگا۔۔وہ میرا بیٹا ہے۔۔میں جانتی ہوں اسے۔۔جو کسی غیر لڑکی کے حق کے لئے اٹھ سکتا ہے ،اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیتا وہ اپنی بیوی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرے گا۔۔تمہیں غلط فہمی ہوئی تھی نا۔۔وہ تو کب سے صاف بھی ہو گئی ۔پھر اب کیا مسئلہ ہے تم دونوں کا۔۔۔میں اب مزید کوئی فضول کی ناراضگی نہیں دیکھوں گی تم دونوں کی ۔حد ہو گئی اتنے دنوں سے برداشت کر رہی ہوں کہ آج خود ہی ٹھیک ہونگیں کل ہونگیں ۔۔دیکھتے دیکھتے ہی یہ دن آن پہنچا ہے کہ رشتے داروں کی زبانیں کھل گئی ہیں ۔۔ یہ ذکاء مجھے ملے صبح اس کے بھی کام کھینچتی ہوں میں۔۔“وہ درشت انداز میں آبرو چڑھا کر کبھی نرمی تو کبھی گرمی سے نایاب کو سمجھا رہی تھیں ۔۔گھر کے باقی بیٹے اپنی نئی زندگی کو شروع کر چکے تھے ۔۔ان کا لخت جگر کیوں ایسے ہی رہتا۔۔انھوں نے اس کے تعلق کو بھی سنوارنا تھا ۔تبھی آج وہ سوچ کر بیٹھی تھیں نایاب کو سمجھانے کا۔۔اور شو مئی قسمت نایاب انھیں تنہا یہاں مل گئی تھی تو فوراً اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنا دیا تھا ۔۔وہ سر جھکائے سنتے ہوئے کھڑی رہی۔۔ہاں ٹھیک ہے اس کی غلطی تھی ۔۔وہ معافی مانگنا چاہتی تھی مگر وہ اس تعلق کو بنائے رکھنے کے لئے اس کے سامنے جھکنا اور گڑگڑانا نہیں چاہتی تھی ۔۔وہ کیوں اس کی زندگی میں زبردستی داخل ہو جب وہ اس کو اپنے ساتھ رکھنا ہی نہ چاہتا ہو تو۔۔وہ بس معافی مانگ کر بات ختم کر دے گی۔۔جھکے گی نہیں ۔۔اس نے عہد کیا تھا اور پھر سر اثبات میں ہلا کر وہ ذکاء کے کمرے کی طرف چلی گئی تھی ۔۔فائقہ ممانی نے اسے جاتے دیکھا اور مطمئن ہوتی واپس کچن میں جانے کا ارادہ کر سیڑھیاں اتر گئیں ۔۔
••••••••••••••
شانی نے کمرے میں قدم رکھا تو فاریہ کو بستر پر اپنا منتظر پایا ۔۔اس کے دل میں مسرت اتر گئی اور ڈھیروں سکون بھی ۔۔ وہ چلتا ہوا گلے سے شیروانی کا دوپٹہ کھینچ کر نکالتے ہوئے اس کے پاس آ بیٹھا۔۔بے خودی کے عالم میں اس نے سمٹی بیٹھی فاریہ کا گھونگھٹ الٹا ۔۔تو اس کی جھکی پلکوں میں ارتعاش سا جھلکا۔۔اس خوبصورت پلکوں کی لرزش پر شانی نے محبت سے مسکراتے ہوئے اس کی پیشانی پر لب رکھے تھے۔۔ فاریہ کے اندر اتنے پیارے انداز پر سکون سا پھیل گیا ۔۔آنکھیں بند کر کے اس نے کتنی ہی دیر اپنی پیشانی سے لگے شانی کے لبوں کی خراجِ تحسین محسوس کی تھی۔۔وہ پیچھے ہٹا اور جیب سے انگوٹھی کا باکس نکال کر اسے کھولا۔۔اور اس میں سجی ڈائمنڈ رنگ چاہت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے فاریہ کے ہاتھ میں پہنا دی ۔۔اس نے مسکراتے ہوئے رنگ کو اپنی انگلی میں سجا دیکھ کر ستائشی انداز میں سراہا تھا۔۔
”کیسی لگی ؟“اس نے کہنی کے بل اس کی سرعت میں گرتے ہوئے دلفریبی سے اس کے خوبصورت چہرے کا محاصرہ کیا تھا۔۔فاریہ نے محبت سے گردن موڑ شانی کو دیکھا۔۔
”بہت خوبصورت اور اس سے بھی زیادہ خوبصورت اسے دینے کا آپ کا انداز تھا۔۔“اس نے کھلے دل سے تعریف کی تھی ۔۔وہ بے اختیار مسکرا اٹھا۔۔پھر اس نے فاریہ کا نازک ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا تھا ۔۔وہ جھینپ گئی۔۔پھر ایک دم فاریہ کچھ پریشان سی ہوئی تھی ۔۔
”شانی آپ کو برا تو نہیں لگا نا میرا ۔۔آپ کی اجازت کے بنا میں نے بابا کو معاف کر دیا۔۔آپ سے پوچھا تک نہیں ۔۔“کب سے دل میں کھٹکتی بات پوچھ لی تھی۔۔وہ مسکرایا ۔۔
”نہیں بالکل نہیں ۔۔یہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا فاریہ ۔۔اس میں تم خود مختار تھی۔۔تم نے جو بھی کیا اچھا کیا ۔۔ مجھے خوشی ہوئی دیکھ کر کہ تم بڑے دل کی لڑکی ہو۔۔سب کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو ۔۔ اور ویسے یہ میرے لئے بہت اچھا ہے۔ “شانی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے مزے سے بولا۔۔وہ الجھی ۔۔
”مطلب؟“
”اگر کبھی میں نے کوئی غلطی کی یا تمہارا دل دکھایا تو تم مجھے بھی بڑی آسانی سے معاف کر دیا کرو گی۔۔۔“وہ شرارت سے کہتے ساتھ اس کی گھوریوں کو دیکھ بے اختیار قہقہہ لگا گیا تھا ۔۔فاریہ نے شریر مسکراہٹ سے اسے گھورا تھا۔۔
”آپ ایسا بالکل نہیں کر سکتے ۔۔۔“اسے بڑا اعتبار تھا۔۔
”کیوں نہیں کر سکتا ۔۔؟“وہ دلچسپی سے پوچھنے لگا ۔
”کیونکہ آپ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں.“اس نے سامنے بیٹھے شانی کے سینے پر اپنا نازک حنائی ہاتھ رکھ کر بڑے مان سے کہا تھا۔۔اس نے محویت سے اسے دیکھا اور پھر بولا۔۔
”فاریہ میں نے کل تمہارا ایڈمیشن کرانا ہے کالج میں۔۔میں چاہتا ہوں تم اپنی پڑھائی مکمل کرو۔۔!“اس کی اچانک بات پر فاریہ حیران ہوئی تھی ۔۔اسے آگے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔۔
”کیا سچ میں؟“ وہ خوشی سے بے قابو ہوئی تھی ۔۔
”مچ میں۔۔اب تمہیں آگے پڑھنا ہے اور وہ کرنا ہے جو تم کرنا چاہتی تھی ۔۔“اس نے نرمی سے کہا اور وہ بے اختیار نم پلکوں پہ موتی رکھ اس کے سینے سے لگ گئی تھی۔۔
”شکریہ آپ کا!“ شانی نے مسکراتے ہوئے اس کا نازک سراپا اپنے سینے میں بھینچ لیا تھا۔ ۔ فاریہ کے لئے شانی جانے اس کی کس نیکی کا اجر تھا ۔۔وہ جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔۔۔
•••••••••••••
Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Last Episode
