کنول کھڑکی کے سامنے کھڑی آسمان پر چمکتے پورے چاند کو دیکھ رہی تھی۔۔کتنا سکون تھا اب اس کی زندگی میں ۔۔۔بہت سے اتار چڑھاؤ کے بعد اب اس کی زندگی کو روانی ملی تھی۔۔بلال نے ہلکی سی دستک دی تو اس کے دل پر لرزا طاری ہوا ۔۔وہ اندر داخل ہوا تو کنول نے بنا پلٹے مٹھیاں بھینچ لیں۔۔شرم و حیا کا ایسا رنگ چہرے پر اترا ہوا تھا کہ بلال کی سمت دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا ۔۔وہ چل کر اس کے پیچھے آ رکا۔۔اس کے بالکل قریب ۔اتنا کہ اگر وہ مڑتی تو اس سے ٹچ ہو جاتی ۔۔بلال نے عقب سے اس کے سر پر ٹنگے سرخ دوپٹے پر لب رکھے ۔۔وہ سانس روک گئی۔۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟“عقب سے اس قیمتی سرمائے اپنے مضبوط حلقے میں سمیٹتے ہوئے اس نے ٹھوڑی اس کے سر پر ٹکاتے آسمان کو دیکھا تھا۔ ۔
”چاند کو ۔۔بہت خوبصورت ہے نا.“کنول نے بمشکل اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔۔جھجک بہت زیادہ تھی۔۔
”ہممم۔۔۔بہت خوبصورت ہے میرا چاند!“بلال نے آسمان سے نگاہ ہٹا کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا اور اس کی ٹھوڑی تھام کر چہرہ اٹھائے اس کی تعریف کی تھی۔۔وہ بے اختیار مسکرا اٹھی ۔۔حیا کے رنگ اس کے چہرے پر اترے تھے ۔بلال مبہوت ہو گیا ۔ کچھ لمحے ان دونوں کے درمیان رکے رہے تھے۔۔
”یہ میں آپ کے لئے لائی تھی.“کنول نے کھڑکی پر رکھا ڈبہ اٹھا کر اس کی خمار شدہ آنکھوں کے سامنے کیا تھا۔۔وہ اس کی حسن میں کھویا ہوا تھا۔۔اچانک چونکا ۔
”کیا ہے یہ۔۔میں نے تو سنا تھا بس شوہر ہی بیویوں کو منہ دکھائی کا تحفہ دیتے ہیں ۔۔میں پہلا شوہر ہوں جس کو بیوی نے منہ دکھائی دی ۔“اس کے ہاتھ سے باکس پکڑ کر اس نے مذاقاً اسے چھیڑا تھا۔۔
”یہ منہ دکھائی نہیں ہے۔۔آپکو یاد نہیں ہے ۔۔یہ وہی باکس ہے جو آپ میرے پاس چھوڑ کر گئے تھے یہ کہہ کر کہ جب میں اس میں محبت بھر کر دوں گی آپ تب اسے واپس لیں گے۔۔تو آج میں نے اس میں بڑی محبت سے آپ کے لئے کھیر بنا کر اس میں بھری ہے۔۔۔ ٹیسٹ کریں.“ کنول نے متجسس ہو کر بتاتے ہوئے باکس اس کے ہاتھ سے لے کر ڈھکن کھولا تھا ۔۔کھیر کی مہک ان کے گرد پھیلتی ہوئی بلال کی ناک سے ٹکرائی تھی ۔۔
”واہ یہ تو بہت مزے کی لگ رہی ہے۔۔“
”صرف لگ نہیں رہی، ہے بھی.!“وہ ناراض ہوئی تھی۔۔وہ اس کی ناراضی پر قربان ہوا۔۔
”اچھا جی !“اس نے کہہ کر کھیر منہ میں ڈالی تو مٹھاس بھرا لذیذ ذائقہ اس کے منہ میں گھل گیا ۔۔
”واقعی یہ تو بہت مزے کی ہے ۔اور پھر اس میں تمہارا پیار شامل ہے تو کیوں نہ ہوتی.“بلال نے چاہت سے تعریف کر اسے چھیڑا اور پھر اس کی نتھلی پر لب رکھے تھے۔۔۔وہ نظریں جھکا گئی ۔تب بلال نے نیکلسٹ کا باکس اس کے سامنے کھولا تھا ۔۔اس کی خوبصورتی دیکھ کر کنول کی نگاہیں خیرہ ہوئی تھیں ۔۔
”یہ تو بہت پیارا ہے۔۔“اس نے دل سے تعریف کی۔
”ہاں مگر تم سے کم.“اس نے شوخی نے آنکھ میچی تھی۔۔ اس کی لوفرانہ حرکت پر اس کا منہ کھل گیا ۔۔
”پہنا دوں؟“وہ اجازت مانگ رہا تھا ۔۔اس نے سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔
”واؤ ہاؤ رومانٹک!“وہ خوشی سے جھوم اٹھا۔۔اور جلدی سے گھوم کر اس کے نازل گردن میں نیکلسٹ پہنایا تھا ۔۔کنول گلے میں لٹکے اس کو چھو کر دھیما سا مسکرائی تھی ۔۔
”بلال سامنے آیا اور نظر بھر کر اسے دیکھا تھا۔۔وہ کتنا خوش نصیب تھا کہ وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔جس کا تصور اکثر وہ کیا کرتا تھا ۔۔
بلال نے بے اختیار اسے سینے میں بھینچا تھا۔۔کنول نے اس کے سینے پر بڑے ہی استحقاق سے لب رکھے تھے۔۔۔جانے کتنی ہی دیر وہ اسے ساتھ لگائے کھڑا رہا تھا ۔۔کھڑکی کے فریم میں وہ دونوں فٹ ہوتے بے حد پیارا جوڑا لگ رہے تھے ۔چاند ان دونوں کی محبت پر مسکرا رہا تھا ۔۔یہ محبت یہ عقیدت ۔۔یہ احساس کنول کو اور کسی کی آغوش میں نہیں مل سکتا تھا۔۔۔اسے کوئی بلال کی طرح نہیں چاہ سکتا تھا ۔۔کوئی اس کے لئے اتنا انتظار نہیں کر سکتا تھا۔۔۔اس کی محبت بے مثل تھی۔۔۔صادق تھی ۔۔اور اللّہ صداقتوں بھری محبتوں کو ملاتا ضرور ہے ۔۔
••••••••••••
وہ گہری آہ بھر کر کمرے میں داخل ہوئی تو یہ کمرہ آج ایک ہفتے بعد اسے اجنبی لگا تھا۔۔۔شاید اس میں رہنے والا اجنبی بن گیا تھا ۔۔وہ لڑکھڑاتے قدموں کو سہار کر آگے بڑھی تو ہلکی روشنی میں ڈوبا کمرہ خالی تھا۔۔وہ کچھ دیر کے لئے مطمئن ہوتی اندر آئی اور باتھ روم میں جھانکا ۔۔وہ وہاں بھی نہیں تھا۔۔شاید کہیں باہر تھا۔۔مگر وہ کمرے میں آیا ضرور تھا کہ اس کی لوینڈر کلر کی شیروانی صوفے پر پھیلی ہوئی تھی۔۔۔وہ چینج کر کے پھر کہیں چلا گیا تھا ۔۔وہ ڈریسنگ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی ۔۔رخ دروازے کی سمت تھا۔۔۔ایک نظر پورے کمرے میں دوڑائی ۔۔سب کچھ ویسا ہی تھا۔۔جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔۔مگر اس کے اندر بہت کچھ بدل گیا تھا ۔۔ ویرانی اس کے وجود سے لپٹی ہوئی تھی۔۔وہ لب کچلتے ہوئے اس انتظار میں کھڑی ہو گئی کہ جیسے ہی فائقہ ممانی چائے بنا کر اپنے کمرے میں جائیں وہ اپنے کمرے میں چلی جائے ۔۔۔اب اس کمرے میں کیا تھا ایسا جو وہ وہاں رکتی ۔۔وہ سوچ رہی تھی کہ کوئی آہٹ ہوئی تھی۔۔وہ کچھ گھبرا گئی۔۔ذکاء اندر آ رہا تھا ۔۔نایاب کے اندر بے چینی اتری۔۔وہ چلتے ہوئے آیا اور اسے اچانک وہاں دیکھ ٹھٹک کر رک گیا ۔۔۔نایاب نے تھوک نگلا ۔۔
”اگر ذرا سی بھی غیرت ہوئی نا تو میرے کمرے کی دہلیز پار مت کرنا..“ذکاء کے الفاظ اس کی سماعتوں میں گونجے تھے۔۔اور پھر اس نے آنکھیں میچ کر اپنے ٹوٹتے حوصلے بلند کیئے تھے۔۔۔اگر فائقہ ممانی آج اسے نہ بھیجتی تو وہ کبھی اس کمرے میں قدم نہیں رکھتی۔۔خود ترسی کا شکار ہو کر نایاب نے آنسؤوں کو پیا تھا۔۔۔
”وہ ممانی جان نے زبردستی بھیج دیا مجھے یہاں ۔۔کہ مہمان ہیں تو وہ کوئی ایشو نہیں چاہتیں ۔۔ کچھ دیر کے لئے آئی ہوں۔۔۔ جیسے ہی سب سو جائیں گے میں واپس چلی جاؤں گی ۔۔آپ بے فکر رہیں۔۔میں یہاں بس ایک کونے میں کھڑی ہوں۔۔آپ کو پریشانی نہیں ہوگی۔۔“
اسے رونا آ رہا تھا ۔۔مگر وہ روئی نہیں تھی۔۔ اس نے مضبوط بن کر سنجیدگی سے بات کی تھی۔۔ذکاء نے خاموشی سے اسے سنا اور پھر آگے بڑھ کر فون چارج پر لگایا ۔۔نایاب کو حیرت ہوئی تھی۔۔وہ کچھ نہیں بولا تھا۔وہ تو سوچے بیٹھی تھی وہ غصے میں آ کر اسے سنا دے گا۔۔طعنے دے گا۔۔اپنی بھڑاس نکالے گا۔۔ مگر وہ اب فون چارج پر لگانے کے بعد ٹیبل کی سمت گیا تھا اور ڈرو سے ایک دلائل نکال کر اس کے کچھ صفحات الٹے تھے۔۔کچھ دیر اس پر نظر ثانی کے بعد اس نے پین اٹھا کر سائن کیا تھا ۔۔نایاب کے دل کو دھڑکا لگا ۔۔کہیں وہ طلاق نامہ تو نہیں ۔۔وہ اس کی ہر حرکت کو کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔فائل بند کر کے اس نے پھر سے ڈرو میں رکھی اور مڑ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی ڈال کر پیا ۔۔ پھر گھوم کر بستر کی دوسری جانب گیا اور اس کے دراز کو کھول کر جھک گیا ۔۔اس دوران اس نے ایک بار بھی نایاب کو نہیں دیکھا تھا ۔۔بلکہ ایسے نظر انداز کیا تھا جیسے وہ وہاں ہو ہی نہ۔۔نایاب نے رخ موڑ کر انگلی کے پوروں پر آنکھوں کی نمی بنی تھی۔۔پھر اس نے وقت دیکھا ۔۔اسے پندرہ منٹ وہاں کھڑے ہوئے گزر چکے تھے۔۔
”اب تو ممانی جان کمرے میں جا چکی ہونگیں ۔۔“اس نے خود کلامی کی اور ذکاء کو مصروف دیکھ کر باہر جانے کی تیاری پکڑی تھی ۔۔مگر پھر ذکاء ایک دم سیدھا ہوا تھا اور مڑ کر اسے دیکھا تھا۔۔وہ جاتے جاتے رک گئی ۔۔ وہ سر جھکائے ہاتھ میں کچھ پکڑے اسی کی سمت آ رہا تھا ۔۔نایاب نے استعجاب سے اسے دیکھا۔۔جب وہ عین اس کے سامنے آن رکا اور پھر اسے دیکھا۔۔اس کی آنکھیں عجیب تھی۔۔وہ خاموش تھا۔۔نایاب کو کچھ کھٹکا تھا۔۔۔اس کے بھنچے جبڑے اور گہری خاموشی پر وہ ڈری تھی۔۔
”میں جا ہی رہی تھی ۔!“اس نے وضاحت کی ۔۔ذکاء نے سنا ہی نہیں ۔۔اس نے ہاتھ میں لائی وہ چیز نکالی اور بہت پیار سے اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کلائی میں چڑھا دی۔۔۔نایاب نے نافہمی سے اسے دیکھ اپنی کلائی کو دیکھا ۔۔جس میں اب چوڑیوں کے ساتھ دو قیمتی اور حسین کنگن بھی سجے ہوئے تھے۔۔
”یہ ؟“
”شی.!“ وہ ہکا بکا کھڑی کچھ کہنے لگی تھی مگر ذکاء نے اس کے لبوں پہ انگلی رکھ اسے چپ کرا دیا ۔۔۔اس کے وجود میں سینسنی دوڑ گئی۔۔اسے ذکاء کا رویہ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔۔
”یہ تمہاری منہ دکھائی ہے ۔۔“اس نے نظر اٹھا کر کہا تو وہ بالکل بدلا ہوا ذکاء تھا۔۔جس کی آنکھوں میں محبت کا سرور اترا ہوا تھا۔۔نایاب ان آنکھوں کی تحریر پڑھ کر دنگ کھڑی رہی۔۔۔
”اب کیوں دے رہے ہیں ۔۔؟“اس کے لبوں سے سراسراتا ہوا سوال نکلا تھا ۔۔وہ کہنا چاہتی تھی اب کیا فائدہ تھا۔۔ہر شے اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔۔۔ وقت گزرنے کے بعد ملی گئی عنایتیں بے مول رہ جاتی ہیں۔
”دینا تو بہت پہلے ہی تھا۔۔کافی وقت سے لے کر رکھا ہوا تھا۔۔مگر صحیح موقع نہیں مل پایا۔۔آج سوچا اسے اس کے اصل مقام تک پہنچا دوں۔۔“
ذکاء نے مبہوت نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے اس کی گال کو نرمی سے چھوا تھا۔۔وہ برف بن گئی ۔
”یہ صحیح موقع اور صحیح مقام نہیں ہے ذکاء ۔۔اس پر میرا حق نہیں بنتا ۔۔یہ آپ رکھ لیں واپس.“اس نے اندر طوفان اٹھ رہے تھے۔۔سب کچھ عقل و شعور سے بالاتر ہو رہا تھا ۔۔نفی میں سر ہلاتے ہوئے نایاب نے اپنی کلائی سے کنگن نکالنے چاہے پر ذکاء کے اس کی جانب بڑھتے دو قدم ہی اس ڈریسنگ سے پن کر گئے تھے ۔۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی پیچھے لگی تو پورا ڈریسنگ ہل کر رہ گیا ۔۔کانچ کے پرفیوم گرے تھے۔۔وہ بوکھلا گئی۔۔گھبرا کر اسے دیکھا وہ اس کے بہت قریب تھا ۔۔ اس کا سانس رکنے لگا۔۔
”ذکاء پیچھے ہٹیں۔۔مجھے جانا ہے ۔۔آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے۔۔“وہ بری طرح ہڑبڑا گئی تھی۔۔ڈر کر اسے پیچھے ہٹایا اور سرعت سے اس کی سائیڈ سے نکلی۔۔مگر ذکاء کے ہاتھ میں اس کی کلائی دب چکی تھی ۔۔وہ سہم گئی ۔۔
”تم میری اجازت کے بنا میرے کمرے سے نہیں جا سکتی ۔۔“وہ سنجیدگی اور کچھ ترچھے انداز میں بولا تھا۔۔۔نایاب کو اچنبھا ہوا۔۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے ذکاء ۔۔پہلے کمرے میں آنے سے منع کیا تھا اب جانے سے منع کر رہے ہیں ۔ “وہ جھنجھلا گئی۔۔
”ہاں کیا تھا آنے سے۔مگر پھر بھی تم آئی نا آج۔۔تو اب میں جانے سے منع کر رہا ہوں ۔۔ “
”اور میں جاؤں گی آج!“اس نے اٹل لہجے میں کہا اور ہاتھ چھڑا لیا ۔۔
”ٹھیک ہے جاؤ ۔۔لیکن یہ سوچ کر جانا کہ میں تمہیں واپس اٹھا کر لے آؤں گا ۔۔اور مجھے کوئی روکے گا بھی نہیں ۔۔۔وہ تو اچھا ہوا ماما نے تمہیں آج اس کمرے میں زبردستی بھیجنے کا یہ کام کر دیا ورنہ میں تو سیدھا دادو کے پاس جانے والا تھا آج کہ بھئی باقی پوتوں کو تو ان کی بیویاں دلا دی ہیں ۔۔مجھے بھی میری بیوی واپس سونپ دیں۔۔ میرا بھی کوئی اتنا قصور تو نہیں تھا جس کی اتنی لمبی سزا کاٹ لی ہے میں نے۔۔“اس نے مسکراتے ہوئے پرشوق لہجے میں کہتے نایاب پر حیرانیوں کے پہاڑ توڑے تھے۔۔۔وہ سچ میں کوئی مختلف ذکاء تھا ۔۔
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟“وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔۔
”وہی جو بہت پہلے کہنا چاہتا تھا ۔۔مانا کہ بہت دیر کر دی ہے مگر اب کہے بنا رہ نہیں سکتا ۔۔میں کافی سالوں سے یہ احساس دل میں دبائے بیٹھا ہوں نایاب ۔۔اب میں اس میں تمہیں شریک کرنا چاہتا ہوں۔۔“وہ دھیرے سے چل کر پھر اس کے پاس آیا تھا ۔۔وہ گردن اونچی کر کے منجمد کھڑی رہی۔۔اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اس پر کچھ جھکاؤ بڑھایا ۔۔وہ پتھر کی بن گئی۔۔
”آئی لو یو!“ذکاء کے منہ سے نکلے ان غیر متوقع لفظوں نے اسے لمحہ بھر کو ساکت کر دیا تھا ۔۔وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔۔اس کے پاس تھا۔۔اور نایاب نے کبھی اس کی آنکھوں کو ایسے نہیں پڑھا تھا جیسے آج پڑھ رہی تھی۔۔شاید وہ اس کے قریب تھا اس لیئے ۔۔اور وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔۔وہ بدلے میں اس کا جواب سننا چاہتا تھا ۔۔مگر وہ کچھ بول ہی نہ پائی تھی۔۔۔وہ گنگ تھی۔۔
ذکاء اس کی خاموشی اور ہونا پن پر مسکرا دیا۔
”ادھر آؤ یہاں بیٹھو!“ذکاء اسے لے کر بستر کی جانب گیا اور اسے بٹھا کر خود اس کے قدموں میں بیٹھا ۔۔وہ حیران پر حیران ہو رہی تھی ۔۔
”نایاب میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔آج سے نہیں تب سے جب تم پہلی بار پھپھو کے ساتھ اس گھر میں رہنے آئی تھی ۔۔تم مجھے تب ہی بہت اچھی لگی تھی۔۔۔پتا نہیں چلا کب تم میرے دل میں بسنے لگی۔۔۔اور پھر تمہارا رحجان زوار کی طرف ہوتا گیا ۔۔تم دونوں کی دوستی اتنی گہری ہو گئی تھی کہ مجھے اکثر لگنے لگا تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو۔۔۔“اس کی بات پر نایاب نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے روک دیا ۔۔
”ہاں یہ میری غلطی تھی۔۔کہ مُجھے ایسا لگتا تھا۔۔اور سب تک لگتا آ رہا تھا ۔۔میں نے سوچا میں اپنی خاموش محبت کو ہمیشہ خاموش رکھوں گا اور کبھی اس بات کا ذکر نہیں کروں گا۔۔۔پھر تمہارا رشتہ طے ہو گیا ۔۔مجھے حیرت تھی زوار اتنا سکون سے کیسے گھوم رہا ہے ۔۔اور پھر میں نے مانا سے بات کی تمہارے اور زوار کی ۔مگر ماما تمہیں میری مناسبت سے اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں ۔۔انگعں نے کافی سالوں سے اس بات کو لے کر میری ناک میں دم کر رکھا تھا ۔خیر تمہارا نکاح اچانک ٹوٹا تو دادو نے مُجھے کہا ۔۔یقین مانو میں نے صرف زوار کے لئے دادو کو انکار کیا تھا ۔ مگر جب زوار نے بھی انکار کر دیا اور سب کے سامنے کہا کہ وہ تمہیں بہن سمجھتا ہے تو میں بتا سکتی سکتا میرے دل کو کتنا سکون پہنچا تھا ۔اس کے بعد میں نے دادو سے دوبارہ کہا کہ میں تم سے نکاح کرنے کو تیار ہوں۔۔۔ اور میں بہت خوش تھا۔۔لیکن پھر مجھے اس بات کی پریشانی ہو گئی تھی کہ تمہارے دل کا کیا۔۔۔؟ شاید تم زوار کو ہی چاہتی ہوںگی ۔۔اور اس کے بعد میں نے ہمارے رشتے کو بڑھایا نہیں ۔۔وہیں روک دیا اس امید پر کہ تمہارے دل کی بات سامنے آ جائے ۔۔میں تم پر زور زبردستی سے مسلط کیسے ہوتا نایاب ۔۔تمہارہ بھی اپنی چوئس اور خواہشات تھیں۔۔میں نے تم سے دور رہنے میں ہی بھلائی سمجھی۔۔اور تم نے بھی تو کبھی مجھے نہیں معلوم پڑنے دیا کہ تمہارے دل میں کیا ہے ۔۔وہ جاننا چاہتا تھا ۔۔اسی لئے تم سے فاصلے پر رہا کہ تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو جائے ۔۔“ذکاء نے اس کے قدموں میں بیٹھ کر دل کی تمام بات کہہ ڈالی تھی۔۔نایسب خاموشی سے اسے سنتی رہی۔۔۔
”اور اگر میں کہہ دیتی مجھے زوار سے محبت ہے تو؟“جانے کیوں اس نے غصے سے سوال کیا تھا ۔
”تو میں تمہیں چھوڑ دیتا ۔“اس نے صاف گوئی سے کہا تھا ۔
”چھوڑ تو آپ اب بھی رہے تھے مُجھے.“اس نے ذکاء کو پیچھے دھکیلا تھا۔۔
”کس نے کہا؟“ذکاء نے اس کی کلائی پکڑ لی۔۔
”میرے دل نے.“اس نے غصے سے ہاتھ چھڑا لیا۔
”تمہارا دل بہت غلط بیانیاں کرتا ہے۔۔۔ سمجھا لو اسے. میں تمہیں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا نایاب۔۔تم میری روح میں اتری ہوئی ہو۔ “اس نے شدت سے ابکی بار اظہار کیا تھا۔
”جھوٹ!“نایاب نے لمحوں میں بھرائے دل سے اسے پیچھے ہٹایا تھا ۔۔
”سچ !“وہ اس کے گالوں کو تھام کر یقین دلانے لگا ۔۔نایاب نے رک کر خفا آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالیں ۔۔
”اور وہ جو فون پر کسی گرل فرینڈ سے مسیجز میں لگے رہتے ہیں ۔۔؟“آج وہ سن رہا تھا تو نایاب سب کچھ سنا دینا چاہتی تھی ۔۔بہت سی شکایت تھیں اس کے پاس ۔۔
”میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے ۔“وہ جھلایا۔
”یہ بھی جھوٹ.“وہ رونے والی ہو گئی ۔
”رکو۔۔!“وہ اٹھ کر فون چارجر سے اتار لایا اور اس کے حوالے کیا ۔
”لو چیک کر لو!“
”مجھے نہیں کرنا۔۔میرے سامنے کی بات ہے جو آپ ہر وقت مسیجز پر بزی رہتے ہیں ۔ “وہ ناراضگی سے منہ موڑ گئی۔۔
”ارے وہ تو میرا دوست ہے سفیان ۔۔وہ تمہارے بارے میں میرے جذبات جانتا ہے اور اکثر وہ مجھے کہتا رہتا ہے کہ میں تم سے محبت کا اظہار کروں۔۔اسی بات پر ہماری بحث ہوتی ہے ۔چاہو تو اس کے مسیجز دکھا دیتا ہوں تمہیں ۔۔پھر تو یقین آئے گا نا۔ “ذکاء نے کہا تو اس نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
”اب ایسے گھائل کرتی نظروں سے دیکھو گی تو معاملہ آوٹ آف کنڑول ہو جائے گا ۔۔“ذکاء نے خمار زدہ لہجے میں کہہ کر اسے کے ہوش اڑائے تھے۔۔وہ یک دم گھبرا کر اٹھی ۔۔
”مجھے جانا ہے.“اس پر گھبراہٹ کا غلبہ آیا تھا ۔۔ذکاء نے اسے لب بھینچے گھورا۔۔
”اب تم مجھے غصہ دلا رہی ہو۔۔“
”کونسی نئی بات ہے۔۔“وہ بول کر ہٹ گئی ۔۔ذکاء نے یک دم اسے عقب سے پکڑ لیا اور اس کی گردن پر لب رکھے ۔۔وہ تھرا اٹھی ۔۔یہ پہلی بے باکی تھی جو اس شخص نے کی تھی جس کے لئے اکثر مہر کہتی تھی ۔۔وہ بہت ان رومانٹک انسان ہیں ۔۔جن کے پاس تو کوئی روکھی سوکھی بیوی جانی چاہیے ۔۔ نایاب کو آج یہ الفاظ یاد آئے تھے ۔۔
”یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟“نایاب نے اپنا آپ چھڑایا تھا ۔۔وہ دلفریبی سے ہنس پڑا۔۔
”ارے میری بیوی اتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔۔جب سے تیار ہوئی ہے میرے دل پر چھریاں چلا رہی ہے ۔کیوں نہ میں تحسین دوں۔۔“
”یہ بھی جھوٹ ہے۔۔میں کوئی خوبصورت نہیں لگ رہی۔۔مجھے پتا ہے۔۔“وہ بگڑی تھی۔۔
”کوئی بات نہیں اب ہو جاؤ گی خوبصورت ۔“وہ پھر سے اس کے قریب ہوا اور اس پر جھک گیا ۔۔اور وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔نایاب اس کی محبت کے ہر انداز پر خوبصورت ہوتی گئی تھی۔۔۔
”آئی لو یو ٹو ذکاء ۔۔۔! میں بس زوار کی اچھی دوست تھی ہمیشہ ۔۔میرے دل میں بھی شروع سے ہی میر ذکاء کا راج تھا۔۔“ذکاء کی بے خودی سے گھبراتے ہوئے اس نے جواب دے دیا تھا۔۔۔وہ مبہوت ہو کر مسکرایا ۔۔
”شکریہ!“اس نے نایاب کی پیشانی چومی اور اسے گلے سے لگا لیا ۔۔ذکاء نے بھی اپنا چاند سمیٹ لیا تھا۔۔اور نایاب آج خود کو سب سے خوش نصیب لڑکی سمجھ رہی تھی۔۔۔صبح کا اجالا ان کی بھی زندگی کو نیا موڑ دینے کو تیار کھڑا تھا۔۔۔
بعض فیصلوں کا اختیار اگر رب کو سونپا جائے تو وہ حیران کن راستوں سے گزار کر آپ کو سب کچھ عطا کر دیتا ہے۔۔۔
ختم شد
Ye Manzil Asaan Nahin by Kainat Riyaz Last Episode
