چھ بج چکے تھے ۔۔اور مہمانوں کو سات بجے کی آمد کا وقت دے رکھا تھا ۔۔میر ولا کے لان میں ہی سارا انتظام ہوا تھا ۔۔
باقاعدہ پارٹی ڈیکوریٹر اسٹیج کا سیٹ اپ لگا رہے تھے ۔۔۔ بہت سا سامان کرسیاں ٹیبل ابھی ایسے ہی رکھا ہوا تھا ۔۔شانی اور زوار ان کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔۔ساتھ ہی باقی انتظام میں بھی ذمان اور بلال کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔۔۔بے چارے اتنے مصروف تھے اور ذمےداری سے کام سنبھالے ہوئے تھے کہ دادو کا دل خوش ہو گیا تھا ۔۔ان میں سے ابھی تک تیار بھی کوئی نہیں تھا۔۔۔
پھر جانے زوار کی کیا بحث ہوئی تھی فائقہ ممانی کے ساتھ کہ وہ کمرے میں جا کر بند ہوگیا تھا ۔۔اور اب بے چارہ شانی اکیلا ڈیکوریٹر کے ساتھ سر کھپا رہا تھا ۔۔
باہر کے معاملات دیکھنے کے لئے دادو نے بلال اور ذمان کو بھیج دیا تھا اور ذکاء کا تو کچھ اتا پتا بھی نہیں تھا۔۔فائقہ ممانی کتنی دیر سے اسے کال کر رہی تھیں ۔۔مگر کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا ۔۔اب تو ان کا پارہ شوٹ کرنا ہی تھا۔۔۔ان کے دونوں بیٹوں نے تو ان کے ناک میں دم ہی کر دیا تھا ۔۔ایک کب سے کہیں گیا ہوا تھا اور دوسرا ناراض ہو کر کمرے میں بند ہوگیا تھا ۔۔
ذکاء کا فون نہ لگنے کا سارا غصہ انھوں نے جا کر زوار پر اتار دیا ۔۔
” تم اب شرافت سے باہر آ رہے ہو یا نہیں ۔۔؟“وہ غصے سے بھری ہوئی اس کے کمرے میں داخل ہوئیں تھیں۔۔
بستر پر بیٹھا زوار ایک دم اٹھا ۔
”نہیں۔۔!“
”زوی میرا دماغ تو آج کے دن بالکل خراب نہ کرنا ۔۔کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ۔فضول کی ضد پکڑ لی ہے تم نے تو ۔۔یہ بے تکی بات کیوں کر رہے ہو۔۔نکاح میں شریک نہیں ہونا تم نے ۔؟ کیوں نہیں ہونا ۔۔اور سب پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گی میں۔۔“وہ اپنے پیچھے دروازہ لاک کرتے ہوئے چلاتی ہوئی اس کے سامنے آئیں ۔۔
”کوئی کچھ پوچھے گا ہی نہیں آپ سے ۔۔اور کیوں پوچھے گا۔۔سب کو نایاب کے نکاح کی خوشی ہی اتنی ہے میری طرف کس کا دھیان جائے گا ۔۔اور پھر میں نے گھر کا سارا انتظام کروا دیا ہے اب مجھے یہاں بند رہنے دیں۔۔“زوار نے دوٹوک انداز میں بولتے ہوئے ماں کو کندھوں سے پکڑ کر جانے کا اشارہ کیا تھا ۔۔
”زوی پاگل پن مت کرو۔۔کیا مسئلہ ہو رہا ہے تمہیں اس بچی کے نکاح سے ۔۔؟“فائقہ ممانی کی آنکھوں میں استعجاب تھا۔۔شک تھا۔۔زوی کا رویہ بڑا عجیب تھا۔۔لیکن قابلِ فہم ضرور تھا ۔۔
”مجھے کسی سے کچھ مسئلہ نہیں ہے آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں!“ وہ رخ موڑ کر ضبط سے چلایا تھا ۔۔
”ادھر دیکھو میری طرف ۔۔!“انھوں نے غراتے ہوئے اس کا رخ اپنی سمت موڑا ۔۔اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں ۔۔
”کیا معاملہ ہے زوار ۔۔مجھے سب سچ سچ بتاؤ ۔۔کیا تم ۔۔؟“انھوں نے تحمل سے گہری سانس کھینچ کر مشکوک نظر سے بیٹے کا بپھڑا ہوا چہرہ دیکھا تھا ۔۔
”معاملہ۔۔؟ ماما ویسے تو آپ سب کو نایاب سے بڑا لگاؤ تھا ۔۔اس کی تعریفیں چلتی رہتی تھیں میر ولا میں ۔۔تائی ،چچی ہر کسی کو ہر کام کے لئے سب سے پہلے نایاب کا خیال آتا تھا ۔۔رات ہو دن ہو۔۔سردی گرمی کچھ بھی ہو تو سب نے اپنے کام نایاب سے کرانے ہوتے تھے ۔۔معاف کیجئے گا ماما ۔۔لیکن نایاب نے بچپن سے اس گھر میں سب کی بہت نوکریاں دی ہیں ۔۔وہ بیمار ہو یا کچھ بھی ہوتا تھا اسے ۔۔وہ پھر بھی سب کی خواہشوں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک پیر پر بھی کھڑی رہی ہے ۔۔۔کیا کبھی مہر اور ذیب نے ایسی ذمےداریاں پالی ہیں ۔۔ایمان سے بتائیں گا۔۔نہیں بالکل نہیں۔۔۔سب کچھ نایاب نے کیا ہے ماما اس کی خدمت گزاری اس کی محبت کا کوئی مول نہیں ہے لیکن جب اس کے لئے کسی کو چننے کا وقت آیا تو سب کی سب پیچھے ہٹ گئیں۔۔کسی کو اسے بہو بنانے کا خیال نہیں آیا ۔۔کیا ہی تھا اگر وہ گھر میں ہی سمٹ جاتی تو۔۔بیٹے تو تینوں کے بیٹھے تھے نا۔۔۔جوان بھی اور شادی کے لائق بھی۔۔۔مگر نہیں ۔۔باہر سے اٹھا لائے تایا رشتہ اور باندھ رہے ہیں کسی کے بھی پلے نایاب کو۔۔۔اور آپ ۔۔کیا آپ کو بھی نایاب کا خیال نہیں آیا ماما کہ اسے بہو بنا لیا جائے ۔۔“
”زوی۔۔!“ فائقہ ممانی نے ہاتھ اٹھایا مگر ہوا میں ہی روک لیا ۔۔زوار نے بے یقینی سے انھیں دیکھا تھا ۔۔مانا کہ وہ جو کہہ رہا تھا سو فیصد صداقت پر مبنی تھا۔۔مگر اس کا انداز فائقہ ممانی کو بے حد رنجیدہ کر گیا تھا ۔۔اتنا کڑوا اسے نہیں بولنا چاہئے تھا ۔۔انھیں ٹھیس پہنچی تھی۔۔
”آہستہ بولو ۔۔گھر میں فنکشن ہے تماشا مت لگاؤ ۔۔اور نایاب کے متعلق تم ایسا سوچ بھی کیسے رہے ہو زوی۔۔وہ بڑی ہے تم سے ۔۔“
انھوں نے ہاتھ جھٹک کر دبی آواز میں چینخ کر اسے جھنجھوڑا تھا ۔۔
”ماما میں اپنی بات نہیں کر رہا ۔۔ذکاء بھائی کے متعلق ہی سوچ لیتی آپ نایاب کو..! لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ماما۔۔۔“زوار اس بار بری طرح تلملا اٹھا تھا ۔۔جانے وہ جب بھی کسی سے نایاب کا ذکر کرتا تھا سب کی سوچ الٹی سمت ہی کیوں سفر کرتی تھی۔۔اس کی بات پر فائقہ ممانی نے سکتے سے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔وہ سمجھ رہی تھیں کہ زوار اپنے لئے بات کر رہا تھا ۔۔
”آئم سوری بیٹا۔۔!“انھوں نے فوراً اس کی گال کو چھوا تھا ۔۔
”ابھی سوری کا وقت نہیں ہے ماما۔۔جائیں اور دادو سے بات کریں نایاب کی ۔۔ منع کر دیں یار ان لوگوں کو۔۔ہمیں نہیں کرنا عاصم سے نایاب کا نکاح ۔۔“ اس نے ماں کو کندھوں سے پکڑ کر اصرار کیا تھا ۔۔
”زوی یہ ممکن نہیں ہے۔۔اب یہ نکاح ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا اور نایاب کے لئے میں نے بہت بار ذکاء سے بات کی ہے۔۔وہ نہیں کرنا چاہتا اس سے شادی ۔۔تو میں کیا کروں ۔۔؟“وہ عاجز آئیں ۔۔
”زبردستی ۔۔ماما زبردستی بھائی کا نکاح کرا دیں ۔۔۔ اور نایاب اپنی خدمت گزاری سے ان کے دل میں جگہ بنا لیں گی۔۔“زوار نے اٹل انداز میں کہا تو انھوں نے سر نفی میں ہلایا ۔۔
”مجھے یقین ہے وہ ایسا کر سکتی ہے زوار مگر تم ذکاء کو جانتے نہیں ہو کیا۔۔کوئی اس سے زبردستی کچھ نہیں کرا سکتا ۔۔“
”مجبوری میں تو کرا سکتا ہے نا ۔۔ مجبور کریں اسے۔۔دادو سے بات کریں۔۔دادو کی مرضی کے آگے کس کی چلتی ہے بھلا۔۔ذکاء کی بھی نہیں چلے گی۔۔۔آپ بات تو کریں.“وہ التجا کر رہا تھا ۔۔انھوں نے لاچارگی سے بیٹے کو دیکھا ۔۔
”آئم سوری زوی ۔۔مگر میں نہیں چاہتی ذکاء مجبوری میں نایاب کو قبولے ۔۔اس طرح دونوں کی زندگی خراب ہوگی ۔۔اور نایاب کا تو سوچو۔۔اس کا کیا قصور ہے جو وہ ذکاء کے ساتھ کوئی مفلوج رشتہ نبھائے ۔۔وہ نکاح تو کر لے ہم سب کی عزت میں مگر وہ ایک اپاہج زندگی گزارے گی۔۔ذکاح کبھی اسے خوش نہیں رکھ سکے گا ۔۔ کیونکہ ذکاء کو خوش رکھنے کا ڈھنگ نہیں آتا ۔۔یہ بات میں نے دیر سے سمجھی ۔۔مگر وقت پر سمجھی۔۔تم بھی سمجھ جاؤ ۔۔اور نایاب کے نصیب کے لئے دعا کرو۔۔ ہماری نایاب جس کے ساتھ بھی بیاہی جائے گی اس کی دنیا کو جنت بنا دے گی۔۔“وہ ملال ؤ رنج کی تحریر چہرے پر بچھائے اسے سمجھا کر پلٹیں ۔۔
” اور اب ضد چھوڑ کر تیار ہو جاؤ ۔۔سب مہمان آنے والے ہیں ۔۔“مڑتے ہوئے انھوں نے ذرا کا ذرا رک کر اسے حکم دیا تھا ۔
”میں نہیں شریک ہوں گا اس نکاح میں ماما۔۔۔پلیزززز مجھے مجبور نہ کریں ۔۔۔میں نایاب کے ساتھ یہ ناانصافی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔۔“وہ مضبوط انداز میں اپنا فیصلہ سنا کر باتھ روم میں گھس گیا تھا ۔۔انھوں نے بوجھل آہ بھری اور خاموشی سے باہر نکل گئیں ۔۔
”فائقہ۔۔۔ نایاب فری ہو کر کب سے انتظار کر رہی ہے ۔شانی تو باہر مصروف ہے ۔۔ابھی تھوڑا کام رہتا ہے اور مہمان پہنچنے والے ہیں ۔۔بلال اور ذمان کو ابو نے باہر بھیجا ہے کسی کام سے ۔۔آپ پلیززز زوی کو کہہ دیں نایاب کو لے آئے ۔۔“شمیم ممانی ان ہی کی طرف آ رہی تھیں ۔۔زوار کے کمرے سے انھیں نکلتا دیکھ فکر مندی سے کہا۔۔ان کی بات پر انھوں نے تذبذب سے چہرہ موڑ کر بند دروازے کو دیکھا تھا ۔۔زوار تو اب بالکل بھی کہیں نہ جاتا۔۔اسے بولنا اور پھر سے زیرِ بحث لینا بے کار تھا۔۔
”میں کرتی ہوں۔۔!“انھوں نے شمیم ممانی کو تسلی کرائی اور اپنے کمرے میں آ کر ذکاء کو فون ملایا تھا ۔۔۔ شو مئی قسمت اس بار اس نے کال ریسیو کر لی تھی ۔۔
”ہیلو ماما!“ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے ائیر پورٹ آن کیئے تھے۔۔
”ذکاء تمہیں ذرا بھی احساس ہے کسی بات کا ۔۔صبح سے میں تمہیں فون کر رہی ہوں مگر تم نے ایک بار بھی اٹھانا ضروری نہیں سمجھا ۔۔گھر میں نکاح سیریمنی ہے نایاب کی اور تم ایسے غائب ہو جیسے اس گھر کے معاملات سے تو سرے سے تمہارا کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔۔،“
وہ چھوٹتے ساتھ شروع ہو گئیں ۔ذکاء نے بے زاری سے آنکھیں چڑھائیں ۔۔
”ماما۔۔ریلیکس ہو جائیں ۔۔میں بس فری ہو کر آتا ہوں گھر۔۔نکاح سے پہلے پہنچ جاؤں گا ۔۔“
”ابھی کہاں ہو تم اور کہاں جا رہے ہو؟“انھوں نے سخت لہجے میں پوچھا ۔۔
”میں تو ابھی ایک کام سے جا رہا ہوں ۔۔ایک ڈیڑھ گھنٹے تک آتا ہوں گھر۔۔“اس نے بے نیازی سے بات کی تھی۔۔ان کا غصّہ بڑھ گیا ۔۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں جانے کی ۔ نایاب کو پارلر سے لے کر سیدھا گھر آؤ!“
”کیا؟“ اسے جھٹکا لگا تھا ۔۔مطلب کہ اب وہ اسی کام کے لئے رہ گیا ہے ۔۔لڑکیوں کو پارلر سے لینا۔۔
”جی۔۔وہ کب سے تیار بیٹھی ویٹ کر رہی ہے ۔۔جلدی اسے لے کر گھر آؤ ۔۔!“انھوں نے بنا اس کے احتجاج کو اہمیت دیئے گویا حکم دیا تھا ۔۔اس کا دماغ گھوم گیا ۔۔
”ماما گھر میں اتنے لڑکے ہیں تو۔۔کیا وہ نہیں لے کر آ سکتے اسے۔۔میں بزی ہوں۔۔یہ چونچلے نہیں پال سکتا ۔۔“اس نے ضبط سے کام لیا تھا ۔۔
”گھر کے باقی لڑکوں کو گھر میں بہت کام ہیں ۔۔صبح سے بے چارے لگے ہوئے ہیں انتظامات دیکھنے۔۔تیار تک کوئی نہیں ہوا ابھی ۔۔تم نے تو گھر کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لینی تو گھر کے باہر کے معاملات ہی دیکھ لو۔۔اور نایاب کو پارلر سے لے کر آنا بھی باہر کے معاملات میں ہی شامل ہوتا ہے ۔۔۔بہت شوق ہے نا گھر کے باہری کاموں کو دیکھنا تو دیکھو اب۔۔ایڈریس سینڈ کر رہی ہوں۔۔۔وہ انتظار کر رہی ہے ۔۔“انھوں نے اس کا جواب سننے کا بھی انتظار نہ کیا تھا اور فون کاٹ دیا تھا ۔۔وہ بھونچکا سا بیٹھا رہ گیا ۔۔۔پھر دل میں طیش کے ابال اٹھے تو ائیر پورٹ نوچ کر کان سے نکال ڈیش بورڈ پر پھینک دیئے ۔۔گاڑی ایک سائیڈ پر لگا کر اس نے خود کو قابو کیا تھا ۔
”حد ہو گئی ہے یہ تو.“ اس نے سرخ چہرے سے اسٹیرنگ پر مکا مارا اور بگڑے تنفس کو ترتیب دینے کی سعی کی۔۔فون پر مسیج ٹون بھی تھی ۔۔اس نے لب بھینچ کر فون اٹھایا ۔۔سامنے ہی ماں کا مسیج تھا۔۔جس میں پہلے ایڈریس تھا۔۔اور پھر دھمکی ۔۔
”شرافت سے جا کر لے آؤ نایاب کو جلدی ۔۔مہمان آنا شروع ہو گئے ہیں ۔۔اور خبردار جو اب کوئی بہانہ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔“اس نے مسیج پڑھا اور بنا جوابی مسیج ٹائپ کیئے فون سیٹ پر اچھال دیا ۔۔گھنی بھنوؤں کو میچ کر اس نے گہری آہ بھری اور پھر گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی۔۔لیکن اب رخ پارلر کی جانب تھا۔۔۔ضبط کی سرخیاں اس کی آنکھوں میں اتری اس کے صبح سے کام والے حلیے کو بھی دلفریب بنا رہی تھیں ۔۔
••••••••••••••