مہندی والی نے اب جا کر اس کی جان چھوڑی تھی ۔۔اس نے مہندی گیلی ہونے کے باعث اسی لڑکی سے ایک بار پھر نمبر ڈائل کروایا تھا ۔۔ اس نے فون ملا کر اسکے کان سے لگایا ۔۔
”ممانی جان کوئی آیا ہے لینے باہر تو میں نکلوں ؟“ اس نے کال ریسیو ہوتے ساتھ پوچھا تو لہجے میں بے حد تھکاوٹ کا عنصر تھا۔۔
”ہاں بیٹا ۔۔فائقہ نے بھجوایا ہے ۔۔تم باہر نکلو!“اقراء ممانی نے جواباً کہا اور اس نے جی اچھا کر کے کال منقطع کر دی تھی ۔۔
”آپ پلیززز میرا سامان سمیٹ کر باہر پہنچوا دیں۔۔“اسنے لڑکی سے کہا اور پھر پورے تین گھنٹے بعد جو نشست سے اٹھی تو وجود میں چیونٹیوں سی سنسناہٹ مچ گئی۔۔لب دبا کر اس نے کمر سیدھی کی اور گیلی مہندی والے ہاتھ سے وائٹ گھرارہ بچاتے ہوئے سہج سہج کر باہر کی سمت چل دی تھی ۔۔ذکاء عین سامنے ہی گاڑی سے پشت ٹکائے کھڑا تھا ۔۔
گرے پینٹ پر نیوی بلو شرٹ میں ملبوس ہاتھ میں فون لیئے کھڑا وہ منتظر تھا۔۔۔ نایاب نے جیسے ہی باہر قدم نکالا وہ ایک نظر اسے دیکھ سیدھا ہوا اور فون پوکٹ میں ڈال دیا ۔۔ نایاب نے ارد گرد جب کسی کو تلاشنا چاہا تو اسے سامنے دیکھ دل ڈوب گیا ۔۔ٹانگوں سے جان ہوا ہو گئی ۔۔وجود منجمد رہ گیا ۔۔وہ پتھر کی ہو گئی تھی ۔۔یہ ستم گر کیوں آیا تھا ۔۔یہ ہی کیوں سامنے آیا تھا ۔۔اس نے آنکھیں کرب سے میچ کر آنسوؤں کا گلا گھونٹا۔۔وہ چل کر پاس آیا اور اس کا سامان جو اس کے پیچھے ہی لڑکی لے کر نکلی تھی وہ پکڑ کر گاڑی میں رکھ دیا ۔۔نایاب بت بنی کھڑی رہی ۔۔اس کی بے نیازی دل میں خنجر بن کر کھبی دی۔۔
”چلو !“ اس نے سرسری لہجے میں کہا اور گاڑی کی سمت بڑھا ۔۔
”مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔۔آپ پلیزززز چلے جائیں ۔۔“ نایاب اس سے زیادہ اب برداشت نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ وہ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔وہ بہت مشکلوں سے مضبوط ہوئی تھی۔۔خود کو مار کر صبر پایا تھا ۔۔اپنی ریاضت کو وہ رائیگاں کیسے جانے دیتی ۔۔اور پھر وعدہ بھی تو کیا تھا اب اس شخص کے سامنے نہیں آئے گی کبھی۔۔پھر ساتھ جانا تو دور کی بات تھی۔۔۔اس کی بات پر وہ ناسمجھی سے گھوما تھا۔۔
”کیا ؟؟“ اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔۔
”میں نے کہا مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔۔“اس نے نظر جھکائے دوٹوک جواب دہرایا تو ذکاء کا دماغ بھگ سے اڑا ۔۔لمحوں میں پھر سے طیش اسکے چہرے کا حصہ بنا تھا۔۔
”کیا بکواس ہے یہ۔۔۔کیا پہلی بار جا رہی ہو کہیں میرے ساتھ ۔۔کیوں نہیں جانا ۔۔؟“اس کا ضبط چھلک پڑا تھا ۔۔حیرت و بے یقینی کی انتہا غضب کی تھی ۔۔
”پہلے کی بات اور تھی۔۔اب مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا تو نہیں جانا۔۔اس کے پیچھے کیا وجہ ہے وہ میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی ۔۔“اس کا انداز ،اس کے تیور ذکاء کے لیے ناقابلِ یقین تھے۔۔اور ناقابل برداشت بھی۔۔۔
”میں یہاں تمہارے نخرے دیکھنے کے شوق میں بالکل نہیں آیا نایاب بی بی! اور نہ ہی میرے پاس وقت ہے گھر والوں کی طرح آپ کی ہر اچھی بری ماننے کا۔۔ چپ چاپ میرے ساتھ چلو ۔۔میں ویسے ہی اپنے ضروری کام چھوڑ چھاڑ کر یہاں آیا ہوں۔۔میرا دماغ خراب مت کرو!“وہ طیش آور نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے چینخا تھا ۔۔پہلے ہی وہ کس طرح یہاں پہنچا تھا اور اب یہاں اس کا ناقابلِ فہم رویہ اور پھر بے جا کی ضد سے پالا پڑ گیا تھا ۔۔نایاب نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
”تو آپ جا کر نپٹائیں اپنے ضروری کام میں خود چلی جاؤں گی گھر۔۔مجھے راستہ پتا ہے۔۔“
اس نے سنجیدگی اور نروٹھے پن سے کہتے ہوئے فون نکالنا چاہا تھا کہ اچانک جانے کیا ہوا تھا کہ ذکاء نے جھٹکے سے اس کا مہندی والا دایاں ہاتھ دبوچا ، وہ ہڑبڑا گئی۔۔۔ اس سے پہلے ہی کہ وہ کچھ سمجھ پاتی وہ اسے کھینچ کر گاڑی کی سمت لے گیا اور بوکھلائ ہوئی نایاب کو فرنٹ ڈور کھول کر زبردستی اندر دھکیل دیا تھا ۔۔جب تک اس کے حواس بحال ہوئے تب تک تو وہ دروازہ واپس مار کر دوسری سمت سے آ کر بیٹھ بھی چکا تھا ۔۔۔نایاب نے سکتے سے پہلے اسے اور پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا ۔۔جہاں گیلی مہندی کے سارے حسین بیل بوٹے خراب ہو چکے تھے۔۔۔اس کا دل بھر آیا ۔۔۔آنکھوں میں آنسوؤں کی باڑ لیئے اس ظالم کو دیکھا ۔۔وہ ٹشو باکس سے بہت سارے ٹشو اچک کر اپنے ہاتھ پر لگی مہندی صاف کر رہا تھا ۔۔ذکاء کا دائیاں ہاتھ بھی پورا مہندی سے بھر چکا تھا ۔۔۔جسے صاف کرتے ہوئے اس نے دیکھا تھا کافی رنگ اس کے ہاتھ پر نشان چھوڑ چکا ہے۔۔اس ذرد رنگ کو دیکھ اسے غصہ آیا ۔۔غضب سے گھور کر نایاب کو دیکھا ۔۔جس کی شکوہ کناں نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں ۔۔پھر اس کے ہاتھ کو، جسے وہ سامنے کیئے ہوئے بیٹھی تھی ۔۔اور ساری مہندی خراب ہو چکی تھی ۔۔ذکاء نے نخوت سے سر جھٹکا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔۔ایک دھچکا لگا اور نایاب کا توازن نہ رہا ۔۔ بری طرح آگے کو گری اور ہاتھ بے ساختہ ڈیش بورڈ پر پڑے ، بچی ہوئی مہندی بھی ڈیش بورڈ پر چھپ گئی۔۔اور آنسوں بھی چھلک پڑے۔۔۔اس نے دل برداشتہ ہو کر ٹشو کا باکس اُٹھایا اور بہت سارے ٹشو کھینچ کر غصے سے ساری مہندی رگڑ ڈالی۔۔۔ ذکاء نے چہرہ موڑ کر سنجیدگی سے اسے جارحانہ انداز میں ساری مہندی کو ٹشو کھینچ کھینچ کر مٹاتے دیکھا تو سر جھٹک کر بے نیازی سے باہر دیکھ لیا ۔۔نایاب نے ساری مہندی پونچھ ڈالی تھی ۔۔سارے ہاتھوں پر پھیلے رنگ کو دیکھ اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔۔جانے اپنی کم ہمتی پر یا ذکاء کی جرات پر مگر اسے بہت سا رونا آ رہا تھا ۔۔ذکاء کان لپیٹے بیٹھا رہا ۔۔
••••••••••••••
شانی کمرے میں تیار ہو رہا تھا ۔۔فاریہ بے دلی سے بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔بستر پر اس کا بھی سامان رکھا ہوا تھا۔۔جو اپنی شاپنگ کے دوران وہ اس کے لئے بھی لے آیا تھا ۔۔کپڑے ،جوتے، اور دیگر سامان بھی ۔۔فاریہ نے کچھ کھول کر دیکھا تھا مگر کچھ کو دیکھنے کا دل نہیں کیا تھا ۔۔ساری ہی چیزیں ایک سے بڑھ کر ایک اور قیمتی تھیں۔۔اسے اچھا نہیں لگا تھا اس سے اتنا خرچہ کرانا ۔۔بہت سارے تو ہیوی اور برانڈڈ لباس تھے۔۔۔گھر میں سریمنی تھی اور فاریہ کا دل اُچاٹ ہو رہا تھا ۔۔اتنے دن سے وہ ایک ہی جگہ قید تھی۔۔
”بات سنیں ۔۔!“اس نے خود پر پرفیوم چھڑکتے شانی کو دھیرے سے پکار لیا ۔۔
”ہممم!“ وہ پلٹا۔۔ہاف وائٹ شیروانی پہنے گلے میں سرخ دوپٹہ لپیٹے وہ بہت دلفریب لگ رہا تھا ۔۔فاریہ کے نظریں اس پر ٹک سی گئیں ۔۔
”بولو!“شانی نے اس کے سامنے چٹکی بجائی وہ جیسے ہوش میں آئی ۔
”کیا میں بھی مہمان بن کر نیچے سب میں شرکت کر لوں۔۔ میرا بھی دل چاہ رہا ہے آپ کے گھر کا فنکشن اٹینڈ کرنے کا۔۔۔“وہ سچ میں اداس تھی۔۔شانی سوچ میں پڑا ۔۔
”مگر تم کیسے آ سکتی ہو۔۔کسی کو شک ہو گیا تو ؟“اسے تو بڑے ہی خدشات تھے۔۔
”میں تو مہمانوں کے درمیان رہوں گی نا۔۔مہمان بن کر کسی کو کیا پتا چلے گا ۔۔“اس نے اصرار کیا ۔۔شانی اس بار خاموش ہی رہا ۔۔
”ویسے بھی فنکشن تو باہر ہے نا لان میں۔۔۔گھر تو خالی ہی ہوگا ۔۔میں جب باہر نکلوں گی تو کسی کا دھیان نہیں جائے گا میری طرف۔۔۔ آرام سے فنکشن میں شریک ہو کر میں واپس آ جاؤں گی کمرے میں ۔۔میرا یقین کریں کسی کو پتا نہیں چلے گا ۔۔گھر کا ایونٹ ہے کیسے مس کروں ۔۔اور پھر میں نے آج تک کبھی کوئی فنکشن نہیں دیکھا۔۔اماں کبھی ساتھ لے کر ہی نہیں جاتی تھی۔۔محلے کے کسی فنکشن میں بھی مجھے گھر میں ہی چھوڑ کر چلی جاتی تھیں وہ۔۔“
وہ اسے منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی ۔۔وہ جز بز سا لب کچلنے لگا ۔۔فیصلہ کرنا مشکل تھا ۔۔اور خطرے سے بھرا بھی۔۔
”اور آپ کی کزن کا نکاح ہے۔۔مجھے بھی جانے دیں نا۔۔۔“وہ منت بھرے لہجے میں بولی شانی نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔۔تو آنکھیں پرسوچ تھیں ۔۔
•••••••••••••
وہ جیسے ہی اندر آئی سامنے ہی کھڑی ماں کے گلے جا لگی تھی۔۔اس کو روتے دیکھ ساری ممانیاں ششدر سی پاس چلی آئیں ۔۔زرناب پھپھو کا تو کلیجہ پھٹ گیا ۔۔
”کیا ہوا ہے نایاب ۔۔رو کیوں رہی ہو؟“ پھپھو نے دہل کر پوچھا تھا ۔۔
”نایاب بتاؤ کیا ہوا ؟“ اقراء ممانی نے اس پھپھو کے گلے سے الگ کر کے اپنے ساتھ لگایا تھا ۔
”ارے پتا نہیں کیا ہو گیا ہے کچھ بتا نہیں رہی۔۔پارلر میں کچھ ہوا ہے کیا۔۔؟“ شمیم ممانی کو استعجاب ہو رہا تھا ۔۔
”نایاب بیٹا اس طرح کیوں رو رہی ہو بتاؤ پلیزززز!“ فائقہ ممانی نے اس کے کندھے کو پکڑا تھا۔۔۔وہ گھوم کر اب ان کے گلے لگ چکی تھی۔۔۔سب کی جان حلق کو آئی ۔۔نکاح کی دلہن بنی وہ بے تحاشا روئے جا رہی تھی ۔۔سب ہی بدحواس سی اسے چپ کرانے کو ہلکان ہو رہ تھیں ۔۔کوئی اسے تیار دیکھ کر تعریف تک نہیں کر پایا تھا سب ہی کو اس کے رونے کی فکر پڑی ہوئی تھی ۔۔اس کے پیچھے ہی ذکاء اندر داخل ہوا تھا ۔۔
”ذکی ۔۔کیا ہوا ہے نایاب کو؟“ اقراء ممانی نے اسے اندر آتا دیکھ دریافت کیا۔۔ابھی ہی تو فائقہ ممانی نے بتایا تھا ذکاء نایاب کو لینے گیا تھا ۔۔اور پھر ان کے آتے ہی نایاب کا رونا انھیں پریشان کر رہا تھا ۔۔جبکہ معاملہ سمجھ سے باہر تھا۔۔
وہ سیدھا اوپر جا رہا تھا رک کر اپنی ماں کے گلے سے لگ کر روتی اسے دیکھا تو غصے کا گراف بڑھا ۔۔
”مجھ سے کیا پوچھ رہی ہیں ۔اسی سے پوچھ لیں۔۔ “وہ اس سے زیادہ غصے میں تھا ۔۔طنزیہ انداز میں کہتا اوپر چلا گیا تھا ۔۔
ساری خواتین حق دق نظروں سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئیں ۔۔
”ضرور اسی نے کچھ کہا ہوگا ۔۔یہ بھی تو برداشت نہیں کرتا نا کسی کی۔۔“ شمیم ممانی نے برہمی سے اسے سیڑھیوں کے آخری سرے پر غائب ہوتا دیکھ کہا تھا ۔۔
” اچھا چھوڑو۔۔بیٹا۔۔تم دل پر کیوں لے رہی ہو۔۔یہ تو ایسا ہی ہے۔۔تم اپنا میک اپ خراب نہ کرو ۔۔ابھی تو تیار ہو کر آئی ہو۔۔“اقراء ممانی نے اس کی دل جوئی کی تھی۔۔
”زرناب اسے فی الحال اندر لے جاؤ.“ انھوں نے ہچکیاں لیتی نایاب کو پھپھو کے حوالے کیا تھا۔۔وہ پہلے کہا بیٹی کے نکاح سے آبدیدہ تھیں۔۔مزید غمزدہ ہو گئیں ۔۔زرناب پھپھو اسے اوپر لے کر گئیں ،اس دوران اس کی خراب مہندی کے بگڑے بیل بوٹوں پر کسی کا دھیان نہیں گیا تھا ۔۔۔
•••••••••••••