دس منٹ تک کمرے میں بند رہ کر دادو نے ان سے کیا بات کی تھی یہ تو کسی کو پتا نہ چلی تھی۔۔مگر جب دادو کے بلاوے پر میر ولا کے تمام لڑکوں کو کمرے میں طلب کیا گیا تھا تو ان میں شش و پنج کی لہر دوڑ گئی تھی۔۔ ایک ایک کر کے تمام لڑکے دادو کے سامنے حاضر ہوئے تھے۔۔۔مگر ہر کسی کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔۔دادو کے چہرے کی گمبھیر خاموشی ان کا خون خشک کر رہی تھی ۔۔اور پھر جب دادو نے ہنکارا بھرا ۔۔تو ان کی چھٹی حس نے انگڑائی لی تھی ۔۔۔عجیب پیچیدہ سی صورتحال تھی۔۔زرناب پھپھو ایک طرف بیٹھی خاموشی سے آنسوں بہا رہی تھیں ۔۔ماموں اور ممانیاں بھی سر جھکائے کھڑے ان کی اگلی بات کے منتظر تھے ۔۔
”جو کچھ بھی ہوا وہ ٹھیک نہیں ہوا ہے۔۔مگر اب گھر کی عزت کو کسی طرح سے بچانا تو ہے۔۔اسی لیئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گھر کے کسی لڑکے کے ساتھ نایاب کا نکاح کر دیا جائے ۔۔اور میں چاہتا ہوں کہ شانی نایاب سے نکاح کر لے ۔۔“ الفاظ تھے یا تیر جو بلا تمہید دادو کے منہ سے نکلے تھے۔۔شانی ایک دم ہی جھٹکا کھا کر اچھلا تھا ۔۔بوکھلا کر سب کو دیکھا۔۔اور پھر ساتھ کھڑے ذکاء کو۔۔۔وہ سر جھکا گیا ۔۔
”دادو ۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔میں کیسے کر سکتا ہوں نکاح..“اس نے خوفزدہ ہوکر انھیں دیکھا تھا ۔۔دادو کی تیوری چڑھی ۔۔
”کیوں ۔؟ کیوں نہیں کر سکتے تم نکاح ۔۔کیا مسئلہ ہے ۔۔؟“دادو کی کڑک دار آواز سے وہ گھبرا گیا ۔۔
”دادو ۔۔میں نے نایاب کے بارے میں کبھی ایسا نہیں سوچا ۔۔اور میں ابھی نکاح کے لئے تیار بھی نہیں ہوں۔۔“اس نے اڑی ہوئی رنگت سے گڑبڑاتے ہوئے جواز پیدا کیا تھا ۔۔جبکہ مدد طلب نگاہوں سے بار بار ذکاء کو بھی دیکھ رہا تھا ۔۔وہ کیسے بتاتا اس کا تو پہلے ہی نکاح ہو چکا ہے۔۔اب کیا سارے حادثاتی نکاح کرنے کے لئے وہی رہ گیا ہے ۔
”شانی ۔۔یہ کیا بک رہے ہو تم۔۔نہیں سوچا تو اب سوچ لو ۔۔نایاب گھر کی لڑکی ہے ۔۔اچھی ہے۔۔اور ویسے تو بڑی بنتی ہے تمہاری ۔۔اب جب اس کی عزت بچانے کا وقت آیا تو پیچھے ہٹ رہے ہو “ بڑی ممانی نے اس کے انکار پر طیش میں آتے ہوئے جھڑکا تھا ۔۔وہ کیسے منہ چڑھ کر دادو کے سامنے بولنے کی جرات کر رہا تھا ۔۔
”ماما میں کیوں پیچھے ہٹوں گا ۔۔مگر میں سچ میں نایاب کو بہن مانتا ہوں کیسے کر لوں نکاح ۔۔پلیززز مجھے معاف رکھیں اس سب جھمیلے سے ۔۔آپ باقی کسی سے کر دیں ۔۔“وہ جھنجھلا کر قائل کرتا ہوا بولا ۔۔
”شانی اپنی پھپھو کے بارے میں تو سوچو ۔۔دیکھو کیا حالت ہو رہی ہے ان کی رو رو کر ۔۔اور بہن مانتے تھے تو کوئی بات نہیں ۔۔بہن ہے تو نہیں نا۔۔ہو سکتا ہے نکاح ۔۔“اقراء ممانی نے برافروختگی سے دانت پیس کر اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا ۔۔شانی کی نظر صوفے پر سر جھکائے آنسوں بہاتی زرناب پھپھو پر پڑی تو دل ٹکڑے ہوا۔۔ماں سے بازو چھڑا کر وہ ترحم سے ان کی سمت آیا اور ان کے قدموں میں بیٹھا ۔۔
”آئم سوری پھپھو ۔۔مگر میں نایاب سے نکاح نہیں کر سکتا ۔۔پلیززز سمجھیں میری بات ۔۔میری کوئی مجبوری ہے ۔۔بے شک نایاب بہت اچھی ہے۔۔اور اس کے لئے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔۔“
”تو پھر کیوں کر رہے ہو انکار.؟“ بڑے ماموں کو غصہ آ رہا تھا ۔۔دادو کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کیسے انکار کرنے کی جرات کر رہا تھا ۔۔وہ پہلے بھی دادو کی اس کے ملٹری جوئن کرنے کی خواہش کو روند چکا تھا ۔۔اب پھر وہ دادو کی نافرمانی کر رہا تھا ۔۔
”بابا میری کوئی مجبوری ہے ۔۔میں نہیں کر سکتا پلیزززز ۔۔مجھے مجبور نہ کریں ۔۔“وہ ضبط سے چینخا تھا ۔۔وہ کیسے بتائے ۔۔آخر وہ کیوں نہیں کر سکتا نکاح ۔۔اگر فاریہ اس کی زندگی میں حادثاتی طور پہ شامل نہ ہوئی ہوتی تو نایاب کے لئے وہ کبھی اس نازک موقعے پر انکار نہ کرتا۔۔یہاں اس کہ زندگی کا سب سے کڑی حقیقت اور کڑوا المیہ ہی فاریہ تھی۔۔
”پھپھو مجھے معاف کر دیجئے گا مگر میں یہ نہیں کر سکتا ۔۔اس کی مجھے جو سزا دیں مجھے منظور ہے ۔۔مگر میں نکاح کر کے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا ۔۔جس سے بعد میں مجھے یا نایاب کو پچھتانا پڑے ۔۔“وہ زرناب پھپھو سے کہہ کر ان کا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے چومتا کمرے سے نکل گیا تھا ۔۔بڑے ماموں ممانی ہکا بکا اسے جاتے دیکھتے رہے ۔۔پھر شرمندگی سے دادو کو دیکھا۔۔شانی وہ واحد اولاد تھا جو دادو کے فیصلے ٹھکرا دیتا تھا ۔۔
”ٹھیک ہے۔۔شانی نہیں کرنا چاہتا نکاح تو کوئی مجبور نہ کرے اسے۔۔میں نہیں چاہتا کوئی نایاب کو کسی دباؤ میں آ کر اپنائے ۔۔“ دادو نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا تو سب کو بے حد شرمندگی محسوس ہوئی تھی ۔۔ یہ تو ڈوب مرنے کا مقام تھا ۔
”ذکی ہے نا ہمارا ۔۔وہ کرے گا نایاب سے نکاح.“دادو کے اگلے انکشاف نے ذکاء کو ٹھٹکنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ایک دم سے اس نے سر اُٹھایا تھا ۔۔بوکھلا کے اس نے سب کو دیکھا ۔۔سب کی نظریں اس پر مرکوز ہو گئیں ۔۔
”میں۔۔؟“اس کا دماغ ماؤف ہوا تھا ۔
”ہاں ابا جان ۔۔میرا ذکی ہے نا وہ کرلے گا نکاح.“ منجھلی ممانی کو اور کیا چاہیے تھا ۔۔موقع تھا اور مراد پوری ہو رہی تھی۔۔ فوراً سے آگے بڑھ کر ذکاء کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دادو کو اعتماد دلایا تھا۔۔۔۔ان کے چہرے پر چمک آئی تھی جو ذکاء نے بخوبی محسوس کی تھی۔۔
”ماما میرے خیال سے آپ سب کو زوی کے متعلق سوچنا چاہیے ۔۔وہ نایاب کے کلوز ہے۔۔اور میرے خیال سے اسے پسند بھی کرتا ہے کیوں زوی؟“ذکاء نے ہمیشہ کی طرح دامن بچا کر زوار کا نام رکھا تھا ۔۔زوار کو جھٹکا لگا ۔۔اس کے تو چودہ طبق روشن ہو گئے تھے ۔۔
”بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔نایاب میری دوست ہے اچھی بس،مگر میں اسے اس لحاظ سے پسند نہیں کرتا۔۔بڑی بہن مانتا ہوں اسے۔۔نکاح کیسے کر لوں ۔۔اور میں تو ہوں بھی سب سے چھوٹا ۔۔مجھ سے بڑوں کے متعلق سوچنا چاہیے سب کو ۔۔“زوار نے ہڑبڑا کر صاف گوئی کا مظاہرہ کیا ۔۔ فائقہ ممانی کو ذکاء پر غصہ آیا ۔۔
”ذکاء زوی سب سے چھوٹا ہے ۔۔اور شانی کے بعد تو تم ہی بڑوں میں بچتے ہو نا۔۔“ذکاء کا اس موقعے پر بھی عزر تراشنا انھیں غصے سے بھنانے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔
” ماما میں ہی کیوں۔۔بلال بھی بچتا ہے۔۔بلال سے کر دیں..“ذکاء کا پارہ چڑھا تھا ۔۔نایاب نامی ٹھیکرا اسی کے سر کیوں پھوڑا جاتا ہے ۔۔اس کی بات پر سب کا دھیان کب سے خاموش کھڑے بلال پر گیا تھا ۔۔اس نے ایک سنجیدہ نظر سب کے چہروں پر ڈالی۔۔ سب کی سوالیہ لیکن پُرامید نگاہوں کی زد میں اب اس کا چہرہ تھا۔۔بلال نے لب بھینچ کر سب کو دیکھا اور خاموشی سے باہر چلا گیا تھا ۔۔۔شمیم ممانی نے گہری آہ بھری۔۔بلال کا خاموشی سے جانا اس کا جواب سب تک پہنچا گیا تھا ۔۔مطلب وہ بھی نایاب سے نکاح کرنے پر قطعاً راضی نہ تھا ۔۔
”رہنے دیں بابا۔۔گھر کے بچوں کو پریشر نہ دیں۔۔آپ بس باقی مہمانوں کو بھی واپس بھیج دیں۔۔کوئی بات نہیں ۔۔لڑکیوں کی باراتیں لوٹ جاتی ہیں ۔۔یہ تو پھر بھی معمولی سا حادثہ ہوا ہے۔۔کچھ دنوں میں سب بھول جائیں گے ۔۔اور نایاب بھی۔۔تب تک اس کے لئے ہم کوئی اور اچھا سا رشتہ ہم دیکھ لیں گے ۔۔۔۔“ زرناب پھپھو نے ایک دم بولنا شروع کیا تھا ۔۔ان کا دل کٹ کر گرا۔۔ بھائیوں نے تاسف سے اپنی اولادوں کو دیکھا تھا ۔۔جنہوں نے آج انھیں بہن کے سامنے سر اُٹھانے کے قابل بھی نہ چھوڑا تھا ۔۔
دادو نے زرناب پھپھو کے سر پر ہاتھ رکھا اور جھکے کندھوں سے چلتے ہوئے باہر نکلنے لگے تھے ۔میر ولا کے تمام لڑکوں نے آج اُنھیں بہت ٹھیس پہنچائی تھی۔۔۔فائقہ ممانی نے ایک دل برداشتہ نظر ذکاء پر ڈالی اور سر جھٹک کر زرناب پھپھو کے پاس بیٹھ گئیں ۔۔ذکاء نے ماں اور پھر دادو کو دیکھا تھا ۔۔پہلے تو بس ماں ہی ناراض تھی ،اب تو دادو بھی سر فہرست تھے۔۔
”شامیر مہمانوں کو واپس بھیج دو!“ دادو نے دہلیز پار کرتے ہوئے سنجیدگی سے بڑے بیٹے کو پکار کر کہا اور پھر باہر نکل گئے۔۔ذکاء ان کے پیچھے جانا چاہتا تھا ۔۔مگر ہمت نہ پڑی۔۔ندامت سے ماں کو دیکھا انھوں نے نخوت سے سر جھٹک دیا ۔۔مطلب ان کی طرف سے کوئی رعایت نہیں ملنے والی تھی ۔۔ذکاء نے بوجھل آہ بھری اور پھر کچھ سوچ کر فیصلہ کن انداز میں دادو کے پیچھے قدموں کو رواں کیا تھا ۔۔
••••••••••••