میری کہانی ان تمام بہنوں اور بیٹیوں کے نام جو ناول پڑھنے کی دلدادہ ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار زینب ہر اس لڑکی کیلئے سبق ہے جو افسانوی دنیا کو سب کچھ جان کر حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش کرتی ہے۔ امید ہے کہ یہ کہانی آپ کو پسند آئے گی۔
جامعہ لاہور برائے خواتین میں امتحانات کا سلسلہ اختتام پذیر ہونے کو تھا۔ یہ منظر طعام خانے (کینٹین) کا تھا۔ جہاں بہت سی طالبات امتحانات کے آنے والے نتائج کی فکر میں ہلکان تھیں، وہیں کچھ بےفکری سے گپیں ہانکنے میں مصروف نظر آرہی تھیں۔ انہی سب میں ایک گروہ زینب، نمرہ، ہانیہ اور مریم کا بھی تھا جو مستقبل کی منصوبہ بندی کررہی تھیں۔
“ہاں بھئی۔ پڑھائی تو ہوئی ختم۔ پھر آگے کا کیا سوچا ہے تم سب نے؟” زینب نے سامنے رکھے سموسوں کے ساتھ ہری چٹنی کے چٹخارے لیتے ہوئے پوچھا۔
“سوچنا کیا ہے؟ وہ اور لوگ ہوتے ہیں جو ڈگری لینے کے بعد نوکریاں در در تلاشتے ہیں۔ ہم سب کی تو شادیاں ہوں گی شادیاں۔” یہ تھی نمرہ، جس کی اپنے چچازاد سے کچھ ہی عرصے قبل منگنی ہوئی تھی۔ اس کی بات پر سب کا فلک شگاف قہقہہ ابل پڑا۔
“فٹے منہ نمرہ۔ منہ اچھا نہ ہوتو کم از کم بات ہی اچھی کرلیا کرو۔” ہانیہ نے دہل کر اسے ٹوکا۔ کیونکہ وہ ڈگری کے بعد ایک اچھی نوکری کرکے اپنا نام و مقام بنانا چاہتی تھی۔ اس کی خالہ کچھ عرصے سے اس کا رشتہ مانگ رہی تھیں۔ مگر ہانیہ بی بی اپنے پروں پر پانی ہی نہ پڑنے دے رہی تھی۔
“ہاں تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔ نمرہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔” زینب نے بھی نمرہ کی حمایت کی۔ چونکہ مریم مزاجاً کم گو تھی۔ اس لیے فی الحال خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی تھی۔
“اچھا چھوڑو یہ بحث۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم سب کیسے انسان سے شادی کرنا چاہتی ہو۔ کیونکہ کہیں نہ کہیں ہم اپنے ہمسفر کو لے کر کچھ معیار بناتے ہیں۔ جیسے کہ میرے منگیتر عثمان بالکل ویسے ہی ہیں جیسا میں نے سوچا تھا۔ اب جلدی سے بتاؤ۔” نمرہ نے اشتیاق سے پوچھا۔