آج نمرہ کا شالیمہ (بارات اور ولیمے کی یکجا تقریب) تھا۔ جس میں زینب کے ساتھ ساتھ باقی سہیلیوں نے بھی شرکت کی تھی۔ پیازی رنگ کا دیدہ زیب لباس پہنے زینب کا دلکش سراپا کئیں نظروں کے حصار میں آیا تھا۔ جن میں اکثریت اپنے سپوتوں کیلئے اپسرا تلاشنے والی ماؤں کی تھی۔ چند ایک تو باقاعدہ اسے اپنے پاس روک کر اس کا مکمل سوانحی خاکہ (بائیو ڈیٹا) معلوم کرچکی تھیں۔ جس پر زینب خاصی کوفت کا شکار ہوئی۔ جبکہ اس کے ساتھ کھڑی مریم اور ہانیہ نے خوب ریکارڈ لگایا۔ان خواتین میں ایک ماریہ بھی تھیں جن کی آنکھیں زینب کو دیکھ کر چمک اٹھی تھیں۔ گویا انہیں ہفت اقلیم مل گئی ہو۔ اتنا تو وہ جان چکی تھیں کہ زینب نامی یہ لڑکی دلہن کی خاص سہیلی ہے۔ باقی کی معلومات وہ عظیم کے ذریعے لے لیں گی۔ انہوں نے دانستہ زینب سے بات نہیں کی کہ وہ دور سے ہی اس کے چہرے پر چھائی بیزاری ملاحظہ کرچکی تھیں۔ اس لیے باقی کی کاروائی بعد کیلئے اٹھا رکھنے پر وہ مطمئن سی تقریب میں مگن ہوگئیں۔گھر پہنچتے ہی انہوں نے عظیم سے بھی اس کا ذکر کیا تو وہ بھی کھکھلا اٹھے۔ اگلے دن فوری طور پر نمرہ کے گھر والوں سے زینب کے بارے میں تمام معلومات لے کر وہ بھی مطمئن ہوگئے۔ پھر ابراہیم سے بھی اس سلسلے میں بات کرڈالی کہ آخر رضامندی تو اسی کی درکار تھی۔ جس پر اس نے ان کو اپنی شرائط کے متعلق دوبارہ یاد دہانی کروانا ضروری سمجھا۔ تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر تسلی دی کہ:“لڑکی ہوبہو ویسی ہی ہے جیسی تم چاہتے ہو۔ اگر تم چاہو تو کل ہمارے ساتھ جاکر ایک بار اس لڑکی کو اپنے روبرو دیکھ لو۔ تمہاری تسلی ہوجائے گی۔” ان کے کہنے پر اس نے سب ان پر ہی چھوڑ دیا۔ جس پر عظیم نے سکون بھری سانس خارج کی۔ بالآخر وہ اس فرض سے آزاد ہونے جارہے تھے۔________________