چند دنوں بعد ہی زینب کیلئے ابراہیم کا رشتہ آگیا جو زینب کے بنائے گئے افسانوی معیار پر پورا اترتا تھا۔ پہلے پہل تو اسے یقین ہی نہ آیا۔ دور اندر اس کے دل میں یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر ایسا شخص نہ ملا تو وہ کیا کرے گی۔ مگر اب تو وہ قدرت کی اس مہربانی کی معترف ہوچکی تھی۔ اور ہوتی بھی کیوں نا؟ آخر چونتیس سالہ ابراہیم ایک وجیہہ مرد تھا۔ اس کے والدین کا کافی عرصہ پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے دونوں بڑے بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ علیحدہ گھروں میں سکونت پذیر تھے۔ ابراہیم ایک اسسٹنٹ کمشنر تھا اور آج کل وہ بہاولپور میں گورنمنٹ کی جانب سے دیے گئے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ اور کوئی لمبا چوڑا خاندان بھی نہیں تھا۔ زینب کا چہرہ اس کی دلی رضامندی کی گواہ دے رہا تھا۔ اس لیے تھوڑی بہت چھان پھٹک کے بعد زینب کے گھر والوں نے بلا تعمل اپنی رضامندی دے دی۔ ان کی جانب سے رضامندی ملتے ہی چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق تمام معاملات طے پاتے چلے گئے۔ من چاہا ہمسفر مل جانے پر زینب کے قدم زمین پر ٹِک ہی نہ رہے تھے۔______________