اسی ادھیڑ بن میں ان کی شادی کو ایک ماہ ہونے والا تھا۔ اپنی روزمرہ کے گھسے پٹے معمولات زندگی سے وہ خاصی بیزار معلوم ہورہی تھی۔ بیزاریت کو دور بھگانے کے لیے اس نے اپنی ایک ماہ کی شادی کی سالگرہ منانے کا پلان بنایا تاکہ ابراہیم کے ساتھ کچھ وقت بِتاسکے۔ اور شاید اس طرح سے ان کی ازدواجی زندگی پر کچھ مثبت اثرات بھی مرتب ہوجائیں۔
اس سلسلے میں اس نے بازار جاکر اپنی ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں۔ پھر گھر میں لذیذ قسم کے پکوان پکانے کے بعد خود تیار ہونے چل دی۔ وہ تیار ہوکر تمام انتظامات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ابراہیم کا انتظار کرنے لگی۔
جب ابراہیم گھر میں داخل ہوا تو اسے غیر معمولی خاموشی کا احساس ہوا۔ اور اس کے ساتھ ہی زینب کی غیر موجودگی نے اسے حیرت میں مبتلا کیا۔ آج سے پہلے تو وہ لاؤنج میں ہی پائی جاتی تھی۔
زینب کو پکارتے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اندھیرے اور گلاب کی پتیوں کی بھینی بھینی مہک نے استقبال کیا۔ ابھی وہ بتی جلانے کیلئے مُڑ ہی رہا تھا کہ کمرے میں مدھم روشنیاں جل اٹھیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ پورا کمرہ گلاب کی پتیوں اور برقی قمقموں سے سجا ہوا تھا۔ کمرے کے وسط میں موجود چھوٹی سی میز پر ایک چاکلیٹ کیک رکھا تھا، جس پر “ہیپی ون منتھ اینیورسری” لکھا تھا۔
“کیسا لگا سرپرائز؟” زینب کی کھلکھلاتی آواز پر وہ پیچھے مڑا تو اسے ساڑھی میں دیکھ کر اس کے ماتھے پر شکن نمودار ہوئی۔