“تم نے پھر سے یہ بےہودہ لباس پہن لیا ہے؟” ابراہیم نے اس سے سختی سے استفسار کیا۔ کمرے کا خوابناک ماحول بھی ابراہیم پر کوئی خوشگوار اثرات مرتب نہ کرسکا۔
“وہ تو آپ نے سب کے سامنے پہننے سے منع کیا تھا نا۔ آپ کے لیے تو پہن ہی سکتی ہوں۔” زینب کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا۔
“مجھے یہ لباس ہی نہیں پسند۔ اور یہ سب سامان کہاں سے آیا؟” اس کے سختی سے پوچھنے پر اس کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔
“وہ۔۔۔ وہ میں خود ہی کیب کرواکر بازار گئی تھی۔” وہ ہکلائی۔
“کس کی اجازت سے تم نے گھر سے باہر قدم نکالا؟” ابراہیم کے ہاتھ کا تھپڑ کھاتے ہی وہ لہرا کر پیچھے موجود بیڈ پر اوندھے منہ جا گری۔
“بولو۔ جواب دو۔ اگر تم کہیں مر وَر جاتی تو میں کس کس کو جواب دیتا پھرتا۔ زندگی عذاب بناکر رکھ دی ہے میری۔ تم سے شادی کرنا میری زندگی کا سب سے بُرا فیصلہ تھا۔ یہ تمہاری آخری غلطی تھی۔ اس کے بعد کچھ ایسا ویسا کیا تو مجھ سے بھلائی کی امید مت رکھنا۔” جارحانہ انداز میں اس کو کوہنی سے پکڑے وہ غرایا۔
“بند کرو یہ رونا اور دھونا۔ اور اٹھ کر یہ سارا کچرا سمیٹو۔ مجھے دس منٹ کے اندر اندر یہ کمرہ صاف چاہئے۔” اس کی سسکیوں کو نظرانداز کرکے وہ بیت الخلاء میں چلاگیا۔