اس کے جاتے ہی زینب سسکتے ہوئے اٹھی اور کمرہ یونہی چھوڑ کر دوسرے کمرے میں چلے گئی۔ اب اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ ابراہیم اس حکم عدولی پر اس سے کیسا سلوک رواں رکھے گا۔
دروازہ مقفل کرتے ہی وہ اپنی تذلیل پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ اس کے گھر والوں نے کتنے نازونم سے اسے پالا تھا۔ ہاتھ لگانا تو دور کی بات آج تک اس سے کسی نے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی۔ اور آج اس کے شوہر نے اس پر ہاتھ ہی اٹھادیا۔
اس نے کتنی کوشش کی تھی کہ ابراہیم کا رویہ اس کے ساتھ ٹھیک ہوسکے۔ مگر اس کی تمام محنت اکارت گئی تھی۔ وہ تو شاید پتھر کا بت تھا جس میں احساس نامی کوئی جذبہ موجود نہیں تھا۔ اس لیے اس نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب سے وہ اسے نظرانداز کرے گی اور اس کے حال پر چھوڑ دے گی۔ روتے روتے جانے کب اس کی آنکھ لگی پتا نہ چلا۔
جاری ہے ۔